کےٹو کا ڈیتھ زون یعنی موت کی گھاٹی کیا ہے ؟؟؟
سطح سمندر سے 8611 میٹر کی بلندی پر واقع کے ٹو کا ’بوٹل نیک‘ کے نام سے مشہور مقام تقریباً 8300 میٹر سے شروع ہوتا ہے اور کوہ پیماؤں کی اصطلاح میں اسے ’ڈیتھ زون‘ یا موت کی گھاٹی کہا جاتا ہے جہاں بقا کے چیلنجوں میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔

شیعیت نیوز: کوہ پیمائی کے ماہرین کے مطابق کے ٹو پر عموماً کیمپ فور 7400 میٹر کی بلندی کے بعد کوہ پیما خطرناک زون میں داخل ہو جاتے ہیں اور ان میں آکسیجن کی کمی کے منفی اثرات بھی نمُودار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
کوہ پیما ہائی ایلٹیٹیوٹ پلمونرئی انیڈما (HAPE) یا ہائی ایلٹیٹیوٹ سیریبل انیڈما (HACE) کا شکار ہو جاتے ہیں جو زیادہ تر اموات کی وجہ بنتا ہے۔ ہائپوکسیا (آکسیجن کی کمی) کے ساتھ ، نبض تیز ہو جاتی ہے، خون گاڑھا ہو کر جمنے لگتا ہے اور فالج کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
زیادہ خراب حالت میں کوہ پیماؤں کے پھیپھڑوں میں پانی بھر جاتا ہے اور وہ ہائی ایلٹیٹیوٹ سیریبل انیڈما (HACE) کا شکار ہو سکتے ہیں۔ انھیں خون کے ساتھ یا اس کے بغیر کھانسی آنے لگتی ہے اور ان کا نظام تنفس بری طرح متاثر ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: محمد علی سدپارہ کی بخیروعافیت واپسی کیلئے ایم ڈبلیوایم کی جانب سے دعائیہ تقریب کا انعقاد
ایسی حالت میں بیشتر کوہ پیماؤں کا دماغ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، انھیں عجیب ہذیانی خیالات آتے ہیں۔
سطح سمندر سے 8611 میٹر کی بلندی پر واقع کے ٹو کا ’بوٹل نیک‘ کے نام سے مشہور مقام تقریباً 8300 میٹر سے شروع ہوتا ہے اور کوہ پیماؤں کی اصطلاح میں اسے ’ڈیتھ زون‘ یا موت کی گھاٹی کہا جاتا ہے جہاں بقا کے چیلنجوں میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔ یہاں کوہ پیماؤں کو جان لیوا قدرتی موسم کے ساتھ نبردآزما ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے جسم کے اندر بھی ایک لڑائی لڑنا پڑتی ہے۔
ڈیتھ زون میں جہاں ایک غلط قدم کا مطلب سیدھا ہزاروں فٹ گہری کھائی یا گلیشیر میں گر کر موت کو گلے لگانے کے مترادف ہے وہیں اس اونچائی پر آکسیجن کی مزید کمی سے سنگین اثرات رونما ہوتے ہیں اور انسانی دماغ کا جسم پر کنٹرول ختم ہو جاتا ہے اور جسم مفلوج ہو جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عراق میں داعش کے ہاتھوں قتل ہونے والے 104 ایزدی باشندوں کی آخری رسومات
ڈیتھ زون میں انسانوں کو سانس لینے کے لیے درکار آکسیجن کی کمی سے جہاں ’آلٹیٹیوٹ سکنیس (اونچائی پر لاحق ہونے والی بیماری)‘ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں وہیں اتنی بلندی پر تیز ہوائیں بھی کوہ پیماؤں کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔ یہاں پر انتہائی کم درجہ حرارت بھی جسم کے کسی بھی حصے میں فراسٹ بائٹ کا باعث بن سکتا ہے۔
ڈیتھ زون میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور یہاں آپ مخصوص وقت سے زیادہ نہیں گزار سکتے ہیں اور یہاں نیند یا زیادہ دیر رکنے کا مطلب موت ہے۔
اسی لیے کیمپ فور میں پہنچنے والے کوہ پیما سوتے نہیں۔ بس کچھ دیر سستا کر سمٹ کرنے یا چوٹی پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور تقریباً 16 سے 18 گھنٹوں کے دورانیے میں چوٹی سر کرکے ڈیتھ زون سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: رہنماایم ڈبلیوایم جی بی آغا علی رضوی نے علی سدپارہ اور ساجد سدپارہ کیلئےسول ایوارڈ کا مطالبہ کردیا
تو کوہ پیما ڈیتھ زون میں زیادہ سے زیادہ کتنے گھنٹوں تک زندہ رہ سکتے ہیں؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے: 16 سے 20 گھنٹے۔ کوہ پیماؤں کو خصوصی ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ڈیتھ زون میں اس سے زیادہ وقت ہرگز نہ گزاریں۔ اور سردیوں میں تو 5 سے 10 گھنٹے بھی موت کو دعوت دینے برابر ہو سکتے ہیں۔
کیا آج تک کسی کوہ پیما نے ڈیتھ زون میں 20 گھنٹے سے زیادہ وقت گزارا ہے؟
اگرچہ 48 گھنٹے سے زیادہ کسی کوہ پیما کے 8000 میٹر سے اونچائی پر زندہ رہنے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں لیکن ڈیتھ زون میں سب سے زیادہ وقت گزارنے کا ریکارڈ نیپال کے پیمبا گلجئین شرپا کے پاس ہے جو 2008 میں دو کوہ پیماؤں کو بچانے کے لیے 90 گھنٹے تک کے ٹو کے ڈیتھ زون میں رہے تھے۔