اہم ترین خبریںمقالہ جات

صفر۲۸ روزشہادت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام

آخر کار امام حسن علیہ السلام صلح پر مجبور ہوکر اس شرط پر ظاہری خلافت سے دست بردار ہو گئے کہ معاویہ کے مرنے کے بعد خلافت دوبارہ امام حسن علیہ السلام کو واپس مل جائے گی اور اس کے ساتھ ہی ان کے خاندان اور چاہنے والوں کے لئے کسی قسم کی مشکلات پیش نہ آئیں گی۔

شیعیت نیوز: 28صفر المظفر روایات کے مطابق آفتاب امامت کےدوسری تاجدار، فرزند علی ؑوبتولؑ نواسہ رسول ؐ حضرت اما م حسن مجتبیٰ ؑ کے یوم شہادت کے طور منایا جارہاہے، پورا عالم اسلام خاندان عصمت وطہارت کی بارگاہ میں تعزیت گذار ہے۔

قَالَ حَسَنُ بنُ عَلِيٍّ(ع) : « هَلَاكُ النَّاسِ فِي ثَلَاثٍ؛ الْكِبْرِ وَ الْحِرْصِ وَ الْحَسَدِ. فَالْكِبْرُ هَلَاكُ الدِّينِ وَ بِهِ لُعِنَ إِبْلِيسُ وَ الْحِرْصُ عَدُوُّ النَّفْسِ وَ بِهِ أُخْرِجَ آدَمُ مِنَ الْجَنَّةِ وَ الْحَسَدُ رَائِدُ السُّوءِ وَ مِنْهُ قَتَلَ قَابِيلُ هَابِيلَ»
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے فرمایا:تین خصلتیں ہیں جو انسان کی هلاكت اورنابودي کا سبب ہے: «تكبر» ، «لالچ»اور« حسد».
تكبر: دین کی نابودى کا سبب ہے اورتكبرکی وجہ سے ہی شيطان ملعون قرار پایا۔
لالچ: یہ انسان کی جان کا دشمن ہے اوراسی لالچ کی وجہ سے ہی ، آدم کو بهشت سے نکال دیا گیا۔
حسد: یہ تمام برئیوں کا راهنماہے ، اوراسی حسد کی وجہ س قابيل نے هابيل کو قتل کر دیا۔

یہ بھی پڑھیں: کوسٹل ہائی وے پر کالعدم تکفیری دہشتگردوں کےساتھ جھڑپ ، 14 سکیورٹی اہلکار شہید

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی ولادت ۳ہجری کو مدینہ میں ہوئی ،آپ نے سات سال اور کچھ مہینے تک اپنے نانا رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا زمانہ دیکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی آغوش محبت میں پرورش پائی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد جو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت سے تین یا چھ مہینے پہلے ہوئی آپ اپنے والد ماجد کے زیر تربیت آ گئے تھے۔

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام باوقار اور متین شخصیت کے حامل تھے۔ آپ غریبوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ راتوں کو ان کے درمیان کھانا تقسیم کیا کرتے تھے۔ ان کی ہر طرح سے مدد کیا کرتے تھے۔ اسی لئے تمام لوگ بھی آپ سے بے انتھا محبت کرتے تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں دوبار اپنی تمام دولت و ثروت غریبوں اور فقیروں میں تقسیم کردی تھی۔ تین بار اپنی جائداد کو وقف کیا تھا جس میں سے آدھی اپنے لئے اور آدھی راہ خدا میں بخش دی تھی۔ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نہایت شجاع اور بہادر بھی تھے۔

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام اپنے والد گرامی کی شہادت کے بعد خدا کے حکم اور حضرت علی علیہ السلام کی وصیت کے مطابق امامت کے درجے پر فائز ہوئے اور ساتھ ساتھ ظاہری خلافت کے عہدیدار بھی بنے۔ تقریباً چھ ماہ تک آپ مسلمانوں کے خلیفہ رہے اور امور مملکت کا نظم ونسق سنبھالے رہے۔ اسی مدت میں امیر شام معاویہ جو حضرت علی علیہ السلام اور آپ کے خاندان کا سخت ترین دشمن تھا اور کئی سال سے خلافت کی حرص و خواہش میں سب سے پہلے خلیفہ سوم کے خون کے بدلے کے بہانے اور آخر کار خلافت کا دعویدار ہونے کی وجہ سے اس نے کئی جنگیں بھی کی تھیں اور کئی بار عراق پر چڑھائی کی تھی جو اس زمانے میں امام حسن علیہ السلام کا دار الخلافہ تھا، اس طرح آپ سے بھی جنگ شروع کر رکھی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: امت واحدہ کےقرآنی تصور کو عملی طور پر اجاگر کرنے کیلئےعالم اسلام پیغمبرختمی مرتبتؐ اورامام حسن مجتبیٰؑ کی سیرت طیبہ پر عمل پیراہو،علامہ ساجدنقوی

دوسری طرف اس نے امام حسن علیہ السلام کے فوجی جرنلوں اور سپاہیوں کو بہت زیادہ پیسہ اور مستقبل کے جھوٹے وعدے دے کر اپنے ساتھ ملالیا تھا۔ اس طرح اس نے ان کو امام حسن علیہ السلام کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرلیا تھا۔آخر کار امام حسن علیہ السلام صلح پر مجبور ہوکر اس شرط پر ظاہری خلافت سے دست بردار ہو گئے کہ معاویہ کے مرنے کے بعد خلافت دوبارہ امام حسن علیہ السلام کو واپس مل جائے گی اور اس کے ساتھ ہی ان کے خاندان اور چاہنے والوں کے لئے کسی قسم کی مشکلات پیش نہ آئیں گی۔

امیر شام معاویہ نے اسلامی خلافت پر قبضہ کرلیا اور عراق میں داخل ہو کر ایک عام سرکاری تقریر میں صلح کے شرائط کو منسوخ کردیا۔ اس نے ہر ممکن ذریعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اہل بیت علیہم السلام اور ان کے چاہنے والوں پر سختیاں شروع کردیں۔امام حسن علیہ السلام نے اپنی امامت کے تمام عرصے میں جو کہ دس سال کا تھا، بہت ہی سیاسی گھٹن اور سختی میں زندگی گزاری۔

امام حسن علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان صلح ہونے کے بعد امام حسن علیہ السلام مدینہ واپس آگئے اور اس طرح معاویہ کی حکومت کو دس سال گذر گئے۔ معاویہ نے صلح نامہ کے خلاف یزید کی بیعت لینا چاہی لہذا اس نے اپنے اس ارادہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے امام حسن علیہ السلام کو شہید کرنے کا ارادہ کیا۔ معاویہ نے روم کے بادشاہ سے زہر منگوایا اور اس کو ایک لاکھ درہم کے ساتھ “جعدہ بنت اشعث بن قیس” امام علیہ السلام کی بیوی کے پاس بھیجا اور اس نے جعدہ سے وعدہ کیا کہ وہ امام حسن کو زہر سے شہید کردے بعد میں اس کی شادی اپنے بیٹے یزید سے کردے گا ۔

یہ بھی پڑھیں: نارووال میں پولیس گردی میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کاروائی ناہونےکی صورت میں ایم ڈبلیوایم کا ملک گیر دھرنوں کا عندیہ

“قطب راوندی” نے لکھا ہے: اس دن گرمی بہت زیادہ تھی اور امام علیہ السلام روزہ سے تھے، افطار کے وقت امام علیہ السلام پر پیاس کی شدت ہوئی، جعدہ نے دودھ میں زہر ملا کر امام کو دیا اور امام نے اس کو نوش فرمالیا، آپ نے زہر کا احساس کیا تو کلمہ استرجاع(انا للہ و انا الیہ راجعون) کو زبان پر جاری کیا اور جعدہ کی طرف رخ کیا ، آپ کے سامنے ایک طشت رکھا تھا جس میں آپ کے جگر کے ٹکڑے گر رہے تھے ، آپ نے فرمایا: اے خدا کی دشمن، تو نے مجھے قتل کیا خدا تجھے قتل کرے، اس شخص نے تجھے دھوکا دیا ہے میرے بعد تجھ سے کوئی شادی نہیں کرے گا ۔ آپ کا مزار اقدس، جنت البقیع میں تین دیگر اماموں کی قبروں کے ساتھ ہے۔ جو آج بھی وہابیت کے ظلم وستم کا نشانہ بن کر ویران ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button