اہم ترین خبریںشیعت نیوز اسپیشلمقالہ جات

نظریہ پاکستان اور فرقہ پرستانہ سیاست کی حقیقت

نظریہ پاکستان اور فرقہ پرستانہ سیاست کی حقیقت

نظریہ پاکستان اور فرقہ پرستانہ سیاست کی حقیقت، یہ ایک وسیع موضوع ہے لیکن حالیہ فرقہ پرستانہ اقدامات کے تناظر میں اس سے متعلق واقعی صورتحال اور حقائق کو سمجھے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا۔ صوبہ پنجاب میں فرقہ پرستی کی سرکاری سرپرستی کون کررہا ہے اور کیوں کررہا ہے،ان کرداروں کی حقیقت جاننے کے لئے اس تحریر کا مکمل مطالعہ فرمائیں۔

حالیہ فرقہ پرستانہ اقدامات کے دو مرکزی کردار ہیں۔ ایک معاویہ اعظم ہے جسکا تعلق کالعدم دہشت گرد ٹولے انجمن سپاہ صحابہ سے ہے جو خود کوتکفیری مولوی محمداحمد لدھیانوی کی قیادت میں اب اہل سنت والجماعت پاکستان کے نام سے شناخت کرواتی ہے اور اس نام پر سنی حنفی بریلوی مکتب کے علماء نے اعتراض اور مخالفت کی ہے۔

دوسرے مرکزی کردار چوہدری پرویز الٰہی ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے سیاستدان ہیں جو ہر دور میں طاقت کے مراکز کے موڈ کے تحت سیاسی قبلہ بدل دیتے ہیں۔

نظریہ پاکستان اور فرقہ پرستانہ سیاست کی حقیقت

ان کی جماعت پاکستان مسلم لیگ در حقیقت مسلم لیگ کا وہ گروپ ہے جسے جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں قائد اعظم گروپ کا نام بھی دیا گیا تھا۔ بنیادی طور پر وہ پاکستان مسلم لیگ نواز شریف گروپ سے ٹوٹا ہوا ایک دھڑا ہی ہیں اور عرف عام میں اس دھڑے کو ق لیگ کہا جاتا ہے۔

پراکسی وار سعودی بساط کے پیادے مہرے

انجمن سپاہ صحابہ1985ع میں حق نواز جھنگوی تکفیری ناصبی مولوی نے ضلع جھنگ میں بنائی۔ یہ وہ دور تھا جب امریکی حکومت اور سعودی حکومت افغانستان میں سوویت یونین اور اسکے حامیوں کے خلاف پراکسی وار یعنی نیابتی جنگ لڑرہے تھے۔

اور تب دیوبندی مسلک کے بہت سے بزرگان، مدارس اور مساجد اس جنگ میں امریکی سعودی بساط کے پیادے مہرے بن کر میدان میں اتارے گئے۔

انوکھی ایجاد انجمن سپاہ صحابہ

اسی لیے انکے نظریات کی سرپرستی پاکستان کے غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر شرعی حکمران فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء اور انکے تابع اداروں نے کی کیونکہ ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے تو یہ انوکھی ایجاد پاکستان میں ہوئی۔

چوہدری پرویز الٰہی کی سیاسی پیدائش

اسی دور میں چوہدری پرویز الٰہی کی سیاسی پیدائش ہوئی۔ وہ اسی دوران پہلے ضلع کاؤنسل گجرات کے چیئرمین بنے۔ بعد ازاں جنرل ضیاء ہی کی سرپرستی میں جو سیاسی نظام ملک پر مسلط تھا، اسی کے تحت غیر جماعتی بنیادوں پر 1985ع میں الیکشن ہوئے۔ نواز شریف صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تو چوہدری پرویز الٰہی نواز شریف کی صوبائی کابینہ کے رکن وزیر بنے۔

تب سے یہ صوبہ پنجاب سمیت ملکی سیاست میں فعال ہیں۔ البتہ جب انہیں نواز شریف نے پنجاب کا وزیر اعلیٰ نہیں بنایا تو خفا ہوگئے۔ تب وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے ماتحت وزیر بننے سے انکار کردیا۔ شاید تب انہیں اسپیکر پنجاب اسمبلی بنایا گیا۔ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے ریکارڈ میں انکا جو تعارف ہے اسکے مطابق یہ چوہدری منظور الٰہی کے بیٹے ہیں جبکہ عمومی طور پر پاکستان میں تاثر یہ ہے کہ وہ چوہدری ظہور الٰہی کے بیٹے ہیں۔

ایک شیعہ اور تفضیلی سنی کے دامن میں پناہ

چوہدری پرویز الٰہی کے کزن چوہدری شجاعت حسین انکی جماعت ق لیگ کے اصل سربراہ ہیں۔ یہ نیرنگی سیاست دوراں ہے کہ چوہدری برادران نے بھی مفتی محمد شفیع اور علامہ شبیر عثمانی دیوبندی علماء کی طرح ایک شیعہ اور تفضیلی سنی کے دامن میں پناہ لی۔

علامہ اقبال سنی تفضیلی

یعنی مسلم لیگ تو اصل میں شیعہ اثناعشری قائد اعظم محمد علی جناح اور مولا امیر المومنین علی ابن طالب علیہ السلام اور بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو افضل و اکمل ماننے والے علامہ اقبال سنی تفضیلی کی جماعت ہے۔ اصل میں پاکستان کے بانی اور پاکستانی قوم کے باباے قوم اور مادر ملت فاطمہ جناح دونوں ہی شیعہ اثناعشری عقیدے کو مانتے ہوئے ہی انتقال کرگئے۔

محمدعلی جناح شیعہ کو تفضیلی سنی علا مہ اقبال نے بھی اپنا قائد مانا۔ تفضیلی سنی علامہ اقبال کو بابائے قوم محمد علی جناح شیعہ مسلمان نے پاکستانی قوم کا قومی شاعر قرار دیا۔

کچھ اس میں تشیع کا بھی ہے رنگ ذرا سا

اور پاکستان کے نظریاتی جد علامہ اقبال کا عقیدہ واضح ہے اور تنگ نظر مولوی علامہ اقبال کے بارے میں بھی یہی کہا کرتے تھے جو خود علامہ اقبال نے بیان کیا

کچھ اس میں تشیع کا بھی ہے رنگ ذرا سا
تفضیل علی ؑ ہم نے سنی اس کی زبانی

تفضیل علی امیر المومنین ہی پاکستان کا سرکاری مذہب  ہے

تفضیل علی امیر المومنین مولائے متقین و صالحین ہی نظریہ پاکستان ہے اور یہی پاکستان کا سرکاری دین اسلام ہے۔ اس ریاست نے جس اسلام کو قبول کیا ہے اسکی تشریح علامہ اقبال نے ہی کی تھی اور یہی پاکستان کا سرکاری مذہب بھی ہے۔

چور دروازے سے آنے والے

اور جنرل ایوب کی غیرآئینی حکومت سے لے کر جنرل پرویز مشرف کی غیر آئینی حکومت تک اس نظریہ پاکستان سے بغاوت کی گئی۔

چور دروازے سے آنے والے غیر آئینی جنرل ایوب خان نے پاکستانیوں کے مشترکہ قومی جذبات سے خیانت کرکے امریکی بلاک کے لئے غیراسلامی غیر اخلاقی خدمات انجام دیں۔

فرقہ پرستانہ سیاست نظریہ پاکستان سے بغاوت

غیر آئینی غیر شرعی جنرل ایوب خان نے مادر ملت فاطمہ جناح کے سا تھ جو غیر اسلامی غیر اخلاقی سیاست کی، وہ پاکستان کی تاریخ کا بدنما داغ ہے۔ پاکستان میں طاقت کے مراکز نے وہ تاریخی غلطی کی کہ پہلے گورنر جنرل غلام محمدکا ساتھ دیا اور بعد میں جنرل ایوب خان کا۔ اور فاطمہ جناح صدارتی الیکشن میں صدر منتخب ہوجاتیں تو سانحہ مشرقی پاکستان رونما نہ ہوتا کیونکہ اس وقت بنگالی پاکستانی بھی فاطمہ جناح کی حمایت کررہے تھے۔

تقسیم کرو اور حکومت کرو کی طویل المدت پالیسی

اور پھر عالمی سامراج نے عالم اسلام کو تقسیم کرو اور حکومت کرو کی طویل المدت پالیسی بنالی تواس کے لئے سنی خلافت عثمانیہ کے خلاف عالمی سامراج کے وفادار آلہ کار سعودی ناصبی حکمرانوں پر پڑی۔

چونکہ عالمی سامراج زایونسٹ اسرائیل کے مفادات کا محافظ تھا۔ چونکہ عالمی سامراج افغانستان کی سرزمین پر مجاہدین میں اپنے ایجنٹ بناکر ان سے کام لینے کا منصوبہ بناچکا تھا جیسا کہ سی آئی اے کے اس دور کے افسر گیری اسکروئن نے اپنی کتاب دی فرسٹ ن میں بھی لکھا ہے۔

عالمی سامراج کی نظر انتخاب جنرل ضیاء پر پڑی

اس کے لئے انکی نظر انتخاب جنرل ضیاء پر پڑی کیونکہ جنرل یحییٰ کے دور میں جب ضیاء بریگیڈیئر تھے تو اردن میں انکی تعیناتی کی گئی تھی۔ اور وہاں بریگیڈیئر ضیاء الحق نے تنظیم آزادی فلسطین کے مظلوم فلسطینی مجاہدین کا قتل عام کیا۔ اس سانحہ کو فلسطین کی تاریخ میں ایل الاسود یعنی سیاہ ستمبر کے عنوان سے یاد رکھا جاتا ہے۔

عالمی سامراج بھٹو سے ناامید تھا

عالمی سامراج پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ناامید تھا کیونکہ انکے دور حکومت کے دور تک جو آخری جنگ رمضان1973ع میں اسرائیل نے مسلمان عرب ممالک کے خلاف لڑی تھی تب پاکستان کی فضائیہ کے فوجی پائلٹ افسر ستار علوی نے شام کے دفاع میں اسرائیل کی جارحیت کے جواب میں اسرائیلی جنگی طیارہ مارگرایاتھا۔

ایسا اس لئے تھا کہ ریاست پاکستان ستار علوی جیسے ہیروز کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔ اور شام میں تب بھی ایک علوی عرب مسلمان ہی صدر ہوا کرتا تھا یعنی حافظ الاسد۔  تب تک انور سادات نے عرب مسلمانوں، مصر اور فلسطین سے خیانت نہیں کی تھی۔

کٹھ پتلی مسلمان نما عرب نما حکمران

لیکن پھر 1977ع میں پاکستان میں فلسطینیوں کے قاتل ضیاء نے غیر آئینی غیر قانونی غیر شرعی جرنیلی حکومت مسلط کردی۔ اور اس کے بعد عالمی سامراج نے یکے بعد دیگرے اپنے منصوبوں پر کٹھ پتلی مسلمان نما عرب نما حکمرانوں سے امت اسلامی کی تقسیم کی منظم سازش پر عمل کروایا۔

امام خمینی کے موقف کو عوامی پذیرائی

سب سے پہلے انور سادات کے مصر نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ لبنان میں اسرائیل کی افواج نے گھس کر قتل عام کیا۔ لیکن 1979ع میں زایونسٹ اسرائیل کے سرپرست عالمی سامراج اور اسکے اتحادیوں کو ایران کے شیعہ اسلامی انقلاب نے ذلیل و خوار کرکے نکال باہر کردیا۔ اور عالم اسلام و عرب میں ایران کے شیعہ اسلامی مرجع اور ولی فقیہ اور عالمی سیاست کے بت شکن امام خمینی کے موقف کو عوامی پذیرائی حاصل ہوئی۔

امام خمینی محمدعلی جناح اورعلامہ اقبال کی فلسطین پالیسی

حالانکہ امام خمینی کی فلسطین پالیسی بھی وہی تھی جو بابائے قوم قائد اعظم محمدعلی جناح اور نظریہ ساز قومی شاعر علامہ اقبال کی فلسطین پالیسی تھی۔ یعنی فلسطین میں یہودی ریاست نامنظور، یعنی 1967ع کی تو بات ہی نہیں بلکہ جو بیلفر اعلامیہ کے بعد سے 1938ع تک علامہ اقبال کی اور ستمبر 1948ع تک بھی اسرائیل مکمل نامنظور یہ بابائے قوم کی فلسطین پالیسی تھی۔

امت کا اجماع کہ امریکا سب سے بڑا شیطان ہے

امت اسلامی و عرب کا اجماع ہوگیا کہ امریکا سب سے بڑا شیطان ہے اس لئے مرگ بر امریکا یا مردہ باد امریکا پر آج بھی امت اسلامی کا اجماع ہے۔ عرب و عجم اسلامی امت کا اجماع ہے کہ اسرائیل ایک جعلی و ناجائز مملکت ہے جو فلسطین کی غاصب ہے۔

پاکستان میں کافر کا نعرہ

اور وہ واحد اسلامی حکومت جو امت اسلامی کے اس منصفانہ موقف کی ترجمان ہے اورجوعالمی سامراج اور اسکے گماشتوں کے مقابلے پر سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے۔ وہ مملکت جو ستار علوی پاکستانی پائلٹ کے کارنامے کی آج وارث ہے،  ایران ہے۔ اور چونکہ وہ ایران شیعہ ہے اس لیے عالمی سامراج کے مقامی آلہ کارو ں نے پاکستان میں شیعہ کافر کا نعرہ تب سے لگایا۔

مطلب یہ کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح، مادر ملت فاطمہ جناح، نظریاتی جد علامہ اقبال، ان سب کے اسلامی نظریات کو کفر و شرک کہہ کر انکو کافر کہنے والے معاویہ اعظم کے گروہی اجداد کی پیدائش جنرل ضیاء کے دور حکومت میں ہوئی۔

بابائے قوم مادر ملت اور علامہ اقبال کو رافضی اور کافر کہنے والے

اور ایسے لوگوں کی سرپرستی آج تک جاری ہے جو اہل بیت ع کو افضل ماننے والوں کو رافضی اور کافر کہتے ہیں۔ یعنی با الفاظ دیگر معاویہ اعظم کے گروہی اجداد بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال اورمادر ملت تینوں کو رافضی اور کافر کہتے ہیں اور چوہدری پرویز الٰہی کی ق لیگ جو خود کو قائد اعظم کی مسلم لیگ کہتی ہے وہ اسی تکفیری معاویہ اعظم اوراسکے ہم فکر شرابی مولوی تکفیری طاہر اشرفی کے ساتھ کھڑا ہے۔
(تحریر کی طوالت کی وجہ سے بقیہ اگلی قسط میں  )

تحریر کی طوالت کی وجہ سے بقیہ اگلی قسط میں

محمد عمار برائے شیعیت نیوز اسپیشل

نظریہ پاکستان اور فرقہ پرستانہ سیاست کی حقیقت

 

متعلقہ مضامین

Back to top button