مقالہ جات

پاکستانی وزیر اعظم کے دورہ امریکہ اور خطے کی صورتحال پر ایک نظر

اس بات کی طرف میں نے کل بھی اشارہ کیا تھا کہ امریکہ کو افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان کی ضرورت ہے۔ حسب معمول امریکہ پاکستان کو صرف ضرورت کے وقت استعمال کرنا چاہتا ہے

شیعت نیوز: کافی لوگوں نے عمران خان صاحب کے دورہ امریکہ کے متعلق میری رائے جاننی چاہی ہے۔ مجموعی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ یہ دورہ کامیاب رہا ہے۔ عالمی لیول پر پاکستان کی ساکھ بہتر ہوئی ہے اور امریکہ سے کشیدہ ہوتے تعلقات نارمل ہوئے ہیں۔

اس بات کی طرف میں نے کل بھی اشارہ کیا تھا کہ امریکہ کو افغانستان میں قیام امن کے لئے پاکستان کی ضرورت ہے۔ حسب معمول امریکہ پاکستان کو صرف ضرورت کے وقت استعمال کرنا چاہتا ہے لہذا کچھ مہربانیاں دکھانا اس کی مجبوری ہے۔ اگر صدر ٹرمپ کے جملوں پر غور کیا جائے تو دبے الفاظ میں گویا پیغام دے رہے تھے کہ پاکستان کو یہ تمام امریکی خواہشات پوری کرنی ہوں گی۔ خانصاحب سے پہلے پاکستانی حکمران اچھے بچے نہیں تھی لیکن اب خان صاحب کی شکل میں ایک اچھا بچہ مانیٹر بن گیا ہے۔

یہ خبر بھی لازمی پڑھیں: عمران خان نے امریکہ کو واضح پیغام دیاکہ پاکستان کسی قیمت پر ایران کیخلاف نہیں جائیگا،فرح حبیب

اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان میں دیرپا امن پاکستان کے مفاد میں ہے، لیکن لازم ہے کہ اس کوشش میں پاکستان کے مفادات کو نقصان نہ پہنچے۔ ماضی میں ہم سے یہی غلطیاں ہوئی اور امداد دیکھ کر اندھے ہو گئے۔ موجودہ حکومت کو امداد کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے، لیکن اس کے باوجود عمران خان نے باوقار انداز میں پاکستان کا مقدمہ پیش کیا۔

کشمیر کے معاملے میں امریکہ کی طرف سے ثالثی کی پیشکش پاکستان کی سفارتی جیت ہے۔ پاکستان میں اکثر لوگ نہیں جانتے کہ بھارت میں کشمیر کا موضوع انتہائی حساسیت رکھتا ہے، بھارتی ہر موضوع پر بات کر لیں گے لیکن کشمیر کے معاملے میں ان کو اس قدر جذباتی بنا دیا گيا ہے کہ اس پر آرام سے بات نہیں کر سکتے۔ ٹرمپ کا کشمیر پر بات کرنا پاکستان کے کشمیر کاز کو تقویت دیتا ہے اور بھارت کے موقف کو کمزور کرتا ہے۔ یہ کشمیریوں کی بھی فتح ہے کہ اقوام عالم اس مسئلے کو درک کر رہی ہے اور بھارت پر اس حوالے سے پریشر بڑھتا جائے گا۔ بھارتی میڈیا اور حکومت پریشان ہے کہ امریکہ نے ایک طویل عرصے کے بعد کشمیر کے معاملے میں ثالثی کی بات کیسے کر لی۔ دوسری طرف وہاں اپوزیشن پارٹیاں عوام کی اس حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مودی جی کی سرکار سے جواب طلب کرنے اور پوائنٹ اسکورنگ میں مشغول ہے۔

یہ خبر بھی لازمی پڑھیں: شیعہ مکتب کے بارے میں عمران خان کا امریکہ میں ایسا بیان کہ دنیا حیران رہ گئی

ایران کے حوالے سے خان صاحب نے انتہائی بیباکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عندیہ دیا کہ ایران میں کسی قسم کا ایڈونچر پوری دنیا کے لئے تباہی کا باعث ہوگا۔ اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے خانصاحب نے شیعہ قوم کے جذبہ شہادت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ شیعہ مسلمانوں کے اندر شہادت کا جذبہ کافی زیادہ ہوتا ہے، شیعہ اپنی سنّی بھائیوں کی نسبت شہادت کے زیادہ دلدادہ ہوتے ہیں اور اگر ان کے اکثریتی ملک یعنی ایران میں ان کو چھیڑا جائے تو یہ کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔

یہاں ایک طبقہ یہ سمجھ رہا ہے کہ خانصاحب نے شیعہ قوم کی تعریف کے بجائے ان کو دہشتگردوں کی صف میں کھڑا کیا ہے۔ میں ان سے اتفاق نہیں کرتا۔ ایران کے معاملے میں شیعہ قومیت کا ذکر کرنا خانصاحب کی طرف سے ایک خاص اشارہ ہے۔ یعنی خدانخواستہ یہ جنگ ہوئی تو یہ صرف ایران تک محیط نہیں رہے گی بلکہ خطے میں ہر ملک جہاں شیعہ آبادی موجود ہے، پہنچ جائے گی۔ اس کا ردّعمل عراق، افغانستان، لبنان اور یمن میں ہو سکتا ہے۔ یہاں تک کہ بحرین اور مشرقی سعودی عرب جہاں امریکی انٹرسٹ موجود ہے لیکن شیعہ ایک بڑی تعداد میں ہیں، وہاں بھی شدید ردعمل ہوگا۔ خود پاکستان میں جہاں ایران کے بعد دنیا کی دوسری بڑی شیعہ آبادی ہے، مشکلات پیدا ہوں گی جن کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔

دوسری طرف امریکہ یہ چاہتا ہے کہ پاکستان ایران کے معاملے میں کھل کر عرب ممالک اور امریکہ کا ساتھ دے۔ پاکستان کو عربوں کی طرف سے دی جانے والی امداد بھی اسی کی ایک کڑی تھی۔ اس سلسلے میں پاکستان بوجوہ گریزاں ہے اور یہ بات ایران مخالف طاقتوں کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی۔ بظاہر عمران خان نے دوٹوک موقف اختیار کیا، اب آگے دیکھتے ہیں کہ کیا صورتحال ہوتی ہے۔

یہ خبر بھی لازمی پڑھیں: عمران خان کی وائٹ ہاؤس میں بیٹھ کرافغانستان پر امریکی موقف کی مخالفت

غرض پورے دورے میں عمران خان نے پاکستان کا موقف احسن طریقے سے پیش کیا۔ ہمارے سپہ سالار بھی اس دعوت میں ہمراہ تھے، جنہوں نے بعد میں پینٹاگون کا بھی دورہ کیا۔ اکیس توپوں کی سلامی پیش کی گئی اور پرتپاک انداز میں ان کی ضیافت کی گئی۔

اسوقت جبکہ امریکہ کو پاکستان کی پھر سے ضرورت ہے، ہمیں دور اندیشی سے کام لینا ہوگا۔ امداد لینے کے بجائے امریکہ سے تجارتی معاہدے کرنے چاہییں تاکہ صنعتوں اور انڈسٹری کے قیام میں امریکی تجربات اور ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جائے۔ امریکہ سرمایہ داروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دلوانی چاہیے اور امریکہ کے ساتھ سائنس وٹیکنالوجی کے شعبوں میں طویل المدّت معاہدے کرنے چاہییں، نیز پاکستانی طلاّب، ہنرمندوں اور ایکسپرٹس کو امریکہ میں اسکالرشپ اور فیلو شپ دی جائیں اور پاکستانی ہنرمندوں کو امریکہ میں کام کرنے کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اس نہج پر امریکہ سے فیور لی جائے تو اس کا فائدہ ملک کو ہوگا، وگرنہ صرف امداد لی جائے تو اس کو شاہ خرچیوں میں اڑا دیا جائے گا اور قوم کو دیرپا فائدہ نہیں ہوگا۔

یہ خبر بھی لازمی پڑھیں: پاکستانی قیادت کا دورئہ امریکہ کامیاب نظر آرہاہے، اپنے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا،علامہ ساجد نقوی

علاوہ ازیں عمران خان نے امریکہ میں مقیم پاکستانیوں سے خطاب کیا لیکن اس میں عمران خان ملک کی ترقی کے لئے کوئی روڈ میپ دینے سے قاصر رہے۔ ملکی معیشت پر بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا، اور یہی اس دورے کا منفی پہلو رہا۔ کوالٹی کے حساب سے امریکہ میں کی جانے والی تقریر اور میانوالی میں کی جانے والی تقریر میں کوئی فرق نہیں تھا۔ یوں معلوم ہ رہا تھا کہ خان صاحب کنٹینر سے خطاب فرما رہے ہیں۔

یہ اس دورے کا مختصر مگر حقیقت پسندانہ جائزہ تھا۔ ہماری دعا ہے کہ پاکستان ترقی کرے اور اقوام عالم میں ایک اہم مقام حاصل کرے، اس حوالے سے ہماری عسکری اور سیاسی قیادت کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ ملک کو انتہا پسندی اور مذہبی منافرت سے پاک کریں اور قانون ہاتھ میں اٹھانے کی اجازت کسی کو نہ دیں۔ یوں پاکستان کا جو منفی امیج ہماری نا اہلبیوں کی وجہ سے اقوام عالم کے اذہان میں ہے اس کی تلافی اور ہماری کھوئی ہوئی ساکھ بحال ہو سکے۔

تحریر: سید جواد حسین رضوی

متعلقہ مضامین

Back to top button