دنیا

سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت غیر قانونی ہے۔ برطانوی عدالت

شیعت نیوز: برطانیہ کی ایک عدالت نے برطانوی حکومت کے سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔

اسلحے کی تجارت کے خلاف مہم چلانے والے ایک گروپ ’کیمپین اگینسٹ آرمز ٹریڈ‘ نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ خلیجی ریاست کو برطانوی اسلحے کی سپلائی کا لائسنس غیر قانونی ہے۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ یہ انسانی حقوق کے تحفظ کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ سعودی عرب برطانوی اسلحہ یمن کی جنگ میں استعمال کر رہا ہے۔

یہ خبر بھی لازمی پڑھیں :جیزان میں یمنی فورسز نے سعودی عرب کے فوجی حملے کو ناکام بنا دیا

جج کے مطابق لائسنسز کو منسوخ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کا جائزہ لیا جائے گا۔

اس فیصلے کے بعد برطانوی حکومت فوری طور پر سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت بند نہیں کرے گی، البتہ اب اس کے لیے مسائل میں اضافہ ہوگا۔

برطانوی وزیرِ اعظم ٹریزا مے کے ایک ترجمان نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ انھیں اس فیصلے سے ’’مایوسی‘‘ ہوئی ہے اور حکومت اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی اجازت حاصل کرے گی۔

برطانیہ کے بین الاقوامی تجارت کے وزیر لیئم فوکس کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو درآمدات کے لیے حکومت اب کوئی نئے لائسنس جاری نہیں کرے گی اور اس دوران اس فیصلے کے اثرات کا جائزہ لیا جائے گا۔

ان کا کہنا ہے ’یہ اس بارے میں نہیں ہے کہ آیا اسلحہ فروخت کرنے کا فیصلہ غلط تھا یا درست، بلکہ اصل قضیہ یہ ہے کہ جن مراحل سے گزر کر یہ فیصلہ کیا گیا آیا وہ درست تھا یا نہیں۔‘

برطانیہ کی اسلحہ برآمد اور فروخت کرنے کی پالیسی کے تحت اگر اس بات کا واضح خدشہ نظر آئے کہ اسے انسانی حقوق کی پامالی کے لیے استعمال کیا جائے گا تو فوجی ساز و سامان فروخت کرنے کا لائسنس جاری نہیں کیا جا سکتا ہے۔

کورٹ آف اپیل کے جج سر ٹیرینس ایتھرٹن نے فیصلہ سانتے ہوئے کہا ہے کہ ’’حکومت نے واضح طور پر اس بات کی تسلی نہیں کی تھی کہ آیا سعودی عرب کی قیادت والے فوجی اتحاد نے یمن میں فوجی کارروائی کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کیں کہ نہیں، اور نہ اب تک کرنے کی کوئی کوشش کی ہی۔‘‘

انھوں نے اپنے فیصلے میں کہا ’’حکومت ہر حال میں اس معاملے پر از سرِ نو غور کرے‘‘ اور مستقبل کے خدشات کا اندازہ بھی لگائے۔

یمن پر سعودی عرب کے اتحاد کی بمباری سنہ 2015 سے شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد برطانیہ نے پونے پانچ عرب پاونڈ کے اسلحے کی فروخت کے لائسنس جاری کیے ہیں۔

برطانیہ نے خلیجی ممالک کو جو اسلحہ فروخت کرنے کے لائسنس جاری کیے ان میں ٹارپیڈو اور ٹورنیڈو لڑاکا جہاز اور گائیڈڈ میزائل شامل ہیں۔

اسلحے کی اس فروخت سے برطانیہ کے انجینئیرنگ کے شعبے میں کئی افراد کو ملازمتیں ملتی ہیں۔

کیمپین اگینسٹ آمرز ٹریڈ کے اینڈریو سمِتھ نے کورٹ آف اپیل کے فیصلے کا یہ کہتے ہوئے خیر مقدم کیا ہے کہ ’سعودی عرب میں اس وقت دنیا کی ظالم ترین حکومت موجود ہے، اور اس کے باوجود وہ برطانیہ کا سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والا ملک ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’’کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس ملک نے کتنے مظالم ڈھائے، سعودی عرب برطانیہ کی سیاسی اور فوجی حمایت حاصل کرتا رہا ہے۔‘‘

یمن میں ’’بمباری نے دنیا کے ایک بدترین انسانی المیے کو جنم دیا ہے۔‘‘

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے اسلحے کی فروخت کو روکنے کے محکمے کی ڈائریکٹر لُوسی کلیرِج نے کہا کہ اس فیصلے سے خطے میں مزید خون خرابہ روکنے میں مدد ملے گی۔

‘یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ برطانیہ کی ایک عدالت نے اس خطرے کو تسلیم کیا ہے کہ سعودی عرب کو فوجی ساز و سامان سپلائی کرنے سے یمن کے لیے خطرات ہیں۔‘‘

برطانیہ میں عوامی سطح پر بھی سعودی عرب کو اسلحہ دینے کے بارے میں کافی بحث ہوتی رہی ہے، خاص طور پر یمن میں سعودی عرب کی فوجی کارروائیوں کی وجہ سے۔

سویڈن کے دنیا میں اسلحے کی تجارت کے بارے میں تحقیقی ادارے سٹوک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکہ اور فرانس کے بعد، برطانیہ سعودی عرب کو اسلحہ سپلائی کرنے والا ایک بڑا ملک ہے۔

کورٹ آف اپیل کا فیصلہ برطانوی حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔

برطانیہ کی اسلحے کی 40 فیصد سے زیادہ برآمدات سعودی عرب کے لیے ہوتی ہیں۔

گزشتہ برس، برطانیہ کے اسلحہ سازی کے سب سے بڑے گروپ بی اے ای سسٹمز نے خلیجی ریاستوں کو ڈھائی ارب پاؤنڈ کا اسلحہ فروخت کیا تھا۔

کورٹ آف اپیل کے فیصلے کا اس وقت یہ نتیجہ نہیں نکلے گا کہ اب اسلحے کی فروخت ان ممالک کو بند ہوجائے گی، تاہم اب یہ فروخت خطرے میں پڑ جائے گی۔

برطانوی حکومت اب تک یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ اسلحے کی فروخت کے بارے میں دنیا میں اس کے سخت ترین قواعد ہیں۔ لیکن کورٹ آف اپیل کے فیصلے نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ قواعد زیادہ مؤثر نہیں ہیں۔

کورٹ آف ایپل نے کہا کہ حکومت کا یہ قانونی فرض ہے کہ وہ کسی ملک کو اسلحہ فروخت کرنے سے پہلے اس ملک پر عائد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کا صحیح اندزاہ لگائے۔

اس فیصلے کے مطابق برطانوی حکومت نے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت کے وقت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات پر کوئی تحقیق ہی نہیں کی۔

حکومت نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔

لیکن برطانوی حکومت کے لیے یہ ثابت کرنا مشکل ہوگا کہ سعودی عرب کو فروخت کیے گئے اسلحے کے استعمال سے یمن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں ہوئی ہیں۔

واضح رہے کہ امریکا کے بعد برطانیہ، سعودی عرب کو اسلحہ فراہم کرنا والا سب سے بڑا ملک ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button