مقالہ جات

سعودی عرب میں مومنین کے حالات پہ ایک نظر

شیعیت نیوز: عرب ممالک میں مجھے سعودی شیعہ سب سے زیادہ پسند ہیں. بحرینی شیعہ بھی مظلوم ضرور ہیں لیکن وہ اکثریت میں ہیں تو مل جل کر مقابلہ کرلیتے ہیں لیکن سعودی شیعہ اقلیت میں ہونے کے باوجود بادشاہت سے ٹکر لینے سے نہیں گھبراتے. آل سعود کے حجاز پہ قبضہ کے بعد مدینہ منورہ میں عزاداری کی بنیاد رکھنے میں شیخ محمد علی العامری مرحوم کی بہت بڑی قربانیاں ہیں. مسجد نبوی ص کے قریب قریب چاروں طرف آپکو جو بڑے بڑے ہوٹل نظر آتے ہیں اس جگہ کے مالک شیخ محمد علی العامری تھے انہوں نے یہ ساری جگہ حکومت کودے دی اور بدلہ میں العوالی محلہ میں ایک امام بارگاہ بنانے کی اجازت لی جو آج تک موجود ہے اور مومنو کے لئے ایک روحانی بارگاہ ہے. العامری صاحب کی وفات پہ شاہ عبداللہ نے ایک جملہ کہا کہ آج سعودیہ کے شیعوں کے سر کا تاج چلا گیا یہ جملہ اخبار پہ بھی چھپا . العامری صاحب کی وفات کے بعد حکومت نے اپنی عادت کے مطابق عزاداری کو بند کروانے کے لئے بہت کوشش کی لیکن العامری صاحب کے بیٹے شیخ باقر العامری کی خدا عمر دراز کرے انہوں نے ایک چٹان کی طرح مقابلہ کیا لیکن شب عاشور جہاں اس محلہ میں ہر گھر میں قیامت برپا ہوتی ہے وہیں حکومت کے پالتو لوگ سادہ لباس میں بارگاہ کے آس پاس گھوم رہے ہوتے ہیں جیسے کوئی پاکستانی انڈین مومن باہر نکلے یہ اٹھا کے لے جاتے ہیں۔

جہاں سعودی لوگوں کی ہمت کو داد دی جارہی ہے وہیں ایک پاکستانی مومن مرد مجاہد ارشاد بلوچ صاحب کے جذبہ کو بھی سلام کرناضروری سمجھتا ہوں عرصہ 31سال سے انہوں نے مدینہ منورہ میں امام بارگاہ بنایا ہوا ہے بیوی بچوں سمیت کئی دفعہ گرفتار ہونے کے باوجود عزاداری امام حسین ع قائم کئیے ہوئے ہیں.اسی طرح آپ مشرقی صوبہ دمام میں دیکھ لیں تو وہاں بھی شیعوں پہ بے انتہا ظلم کئیے گئے دمام شہر میں جب مسجد جامع امام حسین ع کی بنیاد رکھی گئی تو حکومت کے ہیلی کاپٹر کھولتا ہوا پانی مزدروں اور کام کر نے والوں پہ پھینکتے رہے لیکن مومنین نے ہمت نا ہاری اور مسجد تعمیر کی اور آج تک وہاں نماز باجماعت اور جمعہ کی نماز ہورہی ہے. اسی طرح قطیف , عوامیہ , عفوف, صفوی , تاروت, الاحساء میں ہر گھر کے ایک یا دو افراد سالوں سے غایب ہیں میرا اپنا کفیل پچھلے سال اربعین سے واپس آیا تو ائیر پورٹ سے غایب کر دیا گیا آج تک نا پتہ چلا. پندرہ سال پہلے اسکی بہن کو اٹھا لیا گیا اب تک کوئی اتہ پتہ نہیں. لیکن پھر بھی ان مومنین نے عزاداری امام حسین ع پہ آنچ نا آنے دی. آپ محرم میں ان شہروں میں داخل ہوں میرا دعوی ہے آپکی آنکھیں مناظر دیکھ کر کھلی کی کھلی رہ جایں گی ہر گلی محلہ سے آپکو یا تو قرآن کی تلاوت کی آوآزیں آیں گی یا پھر مجالس و نوحہ ماتم کی. ہر گھر کو کالے کپڑے سے لپیٹ دیا جاتا ہے ہر گھر کے باہر مولا امام مظلوم ع کی شان میں کوئی نا کوئی جملہ ایک بینر پہ لکھا نظر آتا ہے. شہر کے اردگرد نوجوان حفاظتی چوکیاں لگائے نظر آیں گے ۔

حکومت کی اتنی پابندیوں کے باوجود پولیس یا آرمی کا کوئی دستہ بغیر بکتر بند گاڑی کے ڈر سے داخل نہیں ہوپاتا کیونکہ انکو معلوم ہے کہ بغیر اسلحہ کے بھی ان پہ یہ لوگ بھاری ہیں. یہاں ہر شیعہ نوجوان نے ہر قسم کی ٹرینگ لے رکھی ہوتی ہے ہر نوجوان جسمانی ورزش کی وجہ سے صحت مند نظر آتا ہے. یوم عاشورہ کو قطیف میں پورا کربلا کا منظر دکھایا جاتا ہے. جسے لوگ دور دور سے دیکھنے آتے ہیں. حکومت نے اپنے خاص ادارہ امربالمعروف و نہی عن المنکر کا ایک مرکز یہاں قائم کیا اپنے بڑے بڑے علماء ان علاقوں میں لا کر بسائے تاکہ شیعہ نوجوانوں کو انکے فقہ سے دور کیا جاسکے لیکن کچھ عرصہ بعد وہ مولوی خود بھاگ جاتے تھے کیونکہ ان مولویوں کے اپنے بچے شیعیت کی طرف تیزی سے راغب ہونے لگ جاتے تھے.اسی طرح آپ دمام شہر سے 150کلومیٹر دور الاحساء شہر چلے جایں جو کہ جناب عباس ع کا ننھیال شہر بھی ہے وہاں کے زیادہ تر نوجوان چھ فٹ قد کے ہوتے ہیں جناب عباس ع کے ننھیالی قبیلہ کے لوگوں کی پہچان بڑی اور موٹی آنکھیں اور لمبے قد ہے وہ محرم میں زیادہ تر پاکستانیوں جیسا کالا لباس پہنتے ہیں. ان لوگوں پہ بھی ظلم کے پہاڑ توڑے گئے لیکن مجال ہے کہ امام المتقین ع کے ان شیعوں کے حوصلہ کو ذرا بھی فرق آیا ہو۔

تحریر لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ سعودی شیعہ اقلیت میں ہونے کے باوجود متحد اور طاقت ور ہیں اور ہم پاکستانی شیعہ پہ کسی قسم کی پابندی نہیں پھر بھی بکھرے ہوئے کیوں ہیں؟ وہ متحد اس لئے کیونکہ وہاں منبر ہر ایرے غیرے کے حوالے نہیں کردیا گیا. وہاں مقصر غالی کا چکر نہیں. وہاں زنجیر زنی و قمہ زنی پہ کوئی اختلاف نہیں وہاں تشہد میں شہادت ثالثہ پہ بحث نہیں ہوتی. ہر شیعہ اپنے اپنے مراجع کی تقلید کے مطابق عمل کرتا ہے کوئی کسی کے عمل میں دخل نہیں دیتا اور جب ان پہ کوئی مشکل وقت آتا ہے وہ چٹان کی طرح ظالم کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں. اپنے جوان بچے قتل کروا کے اپنی بیٹیوں کی قربانیاں دے کر بھی انہوں نے لبیک یاحسین ع کہنا نا چھوڑا.جس دن ہم میں یہ اختلافات ختم ہوگئے اس دن نا ہمیں کوئی بسوں سے اتار کر قتل کرے گا نا ہی ہماری عزاداری پہ حملہ ہوگا.پروردگار سے دعا ہے امام مظلوم ع کے صدقہ پوری دنیا کے شیعان حیدر کرار ع کی حفاظت فرمائے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button