مقالہ جات

شام، بڑی طاقتوں کا فکسڈ میچ؟

ایک اور زاویئے سے عرب مسلمان اکثریتی ملک شام کے حوالے سے عالمی و علاقائی طاقتوں کے کردار کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ نیا زاویہ فکر ایک اور حقیقت کو منکشف کرتا ہے۔ یہ سوچنے میں کیا قباحت ہے کہ بڑی طاقتیں شام سمیت مسلمان ممالک میں امن کے قیام کے بہانے اپنے مخصوص مفادات کا کھیل کھیل رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بظاہر ایک دوسرے کے مقابلے پر اترے ہوئے بعض بڑے ملک شام کے میدان میں بھی فکسڈ میچ کھیل رہے ہیں۔ لیکن کیسے؟ چند ایسی ڈیولپمنٹس ہوئی ہیں کہ اگر صرف ان پر ہی ایک نگاہ ڈالیں تو بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ شام کے محاذ پر ایک بڑی عالمی یا علاقائی طاقت ایک رخ سے ناکام و کمزور نظر آرہی ہوتی ہے، لیکن کسی اور رخ پر نظر کریں تو وہی ملک کامیاب دکھائی دیتا ہے۔ اسکی ایک مثال اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل کی 13 دسمبر 2018ء کو منظور کردہ قرارداد ہے۔ کیا یہ محض حسن اتفاق سمجھا جائے کہ کویت اور سوئیڈن ہی وہ دو ملک ہیں، جو ایک طرف شام کے حوالے سے امریکی بلاک کے اہداف کے حصول کے لئے سفارتی محاذ پر ڈٹے تو دوسری طرف یمن کے دو فریقوں کے مابین مذاکراتی عمل میں بھی سہولت کار بنے۔ کیا یہ بھی محض اتفاق تھا کہ سوئیڈن میں یمن امن مذاکرات میں عارضی و محدود جنگ بندی پر سعودی حمایت یافتہ گروہ کی آمادگی اور اقوام متحدہ میں مذکورہ قرارداد کی منظوری بھی ایک ہی دن ہوئی۔

فکسڈ میچ کے حوالے سے ایک اور مثال شام سے امریکی افواج کی وطن واپسی کا وہ اعلان ہے، جو صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے 19 دسمبر 2018ء کو ٹوئٹر پر وڈیو پیغام کے ذریعے جاری کرکے حامیوں اور مخالفین سبھی کو حیران کر دیا۔ ایک اور مثال ترک حکومت کی شمالی و مشرقی شام کے سرحدی علاقوں میں امریکی اتحادی کرد ملیشیاء کے خلاف فوجی کارروائی سے متعلق خبریں و اعلانات ہیں اور اسکے علاوہ بھی بعض دیگر مثالیں جو روس امریکہ اور ترکی کے روس کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ہیں، جبکہ شام کے میدان میں انکے اعلانیہ اتحادی تو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں اور اس زاویئے سے دیکھیں تو امریکہ، ترکی، روس ایک دوسرے کی مخالف ٹیم کا حصہ ہیں۔ عالمی طاقتوں کے کردار کا تنقیدی جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ جس طرح امریکی اتحاد کے آسرے پر ستم رسیدہ اقوام کا کوئی بھلا نہیں ہونے والا، اسی طرح روس یا چین کو بڑا بھائی مان لینے سے بھی آپ ان نقصانات سے نہیں بچ سکتے، جو انکا مخالف بلاک آپکو پہنچانا چاہتا ہے۔ امریکہ و چین کے حوالے سے پاکستان ایک زندہ مثال ہے تو روس کے حوالے سے ماضی کے افغانستان اور آج کے شام کی مثال دی جاسکتی ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل نے 13 دسمبر کو قرارداد نمبر 2449 منظور کی ہے، جو سال 2014ء میں کراس بارڈر ایڈ کے عنوان سے منظور کی جانے والی قرارداد کے بعد سے چوتھی سالانہ توسیع ہے۔ سلامتی کاؤنسل کے پانچ مستقل اراکین سمیت کل 15 رکن ممالک میں سے روس اور چین نے رائے شماری میں شرکت سے گریز کیا جبکہ امریکہ، برطانیہ و فرانس سمیت بقیہ 13 رکن ممالک نے اس کی حمایت میں ووٹ ڈال کر اسکو منظور کر لیا۔ بنیادی طور پر یہ قرارداد شام کی جغرافیائی خود مختاری کی خلاف ورزی پر مبنی ہے، کیونکہ شام پر جنگ و دہشت گردی کو مسلط کرنے والے امریکی اتحاد کا اس قرارداد کے ذریعے اصل ہدف، امداد کی آڑ میں انکی پراکسی وار لڑنے والے مخصوص گروہوں کو مطلوبہ سامان کی فراہمی ہے، جبکہ اقوام متحدہ کے قوانین کی رو سے بھی شام میں کوئی بھی سرگرمی شام کی حکومت کے ذریعے یا اسکی اجازت سے ہونی چاہیئے۔ اس لئے یہ قرارداد انٹرنیشنل لاء کی خلاف ورزی ہے۔ وہاں روس کے سفیر برائے اقوام متحدہ وسیلی نبنزیانے قرارداد کے متن کو فرسودہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ شام کی صورتحال تبدیل ہوچکی ہے اور ایک سرحدی گذرگاہ جہاں سے مذکورہ امداد گزاری جاتی ہے، وہ اب شام کی حکومت کے کنٹرول میں ہے، اسی طرح متعدد علاقے اب شام کی حکومت ہی کے کنٹرول میں آچکے ہیں اور انسانی امداد کی صورتحال بہتر ہے۔ اسی طرح چین کے سفیر برائے اقوام متحدہ مازے آکسونے تاکید کی کہ بین الاقوامی امداد انتہائی ذمے دارانہ و محتاط طریقے سے غیر سیاسی بنیاد پر ہونی چاہیئے اور اس میں مکمل غیر جانبداری برتی جانی چاہیئے۔

روس کے مذکورہ سفارتکار وسیلی نبنزیا نے صحافیوں کے ایک مختصر گروہ سے انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ عملی طور پر روس کے امریکہ کے ساتھ تعلقات وجود ہی نہیں رکھتے۔ انکا کہنا تھا کہ امریکہ کے ساتھ خراب تعلقات میں بہتری نہیں آسکتی، البتہ انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ خراب تعلقات نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ پوری دنیا کے لئے بھی برے (اثرات کے حامل) ہیں۔ اب یہاں اقوام متحدہ کی قرارداد اور روس امریکہ تعلقات کے حوالے سے ان جملوں پر ایک صحافی کی حیثیت سے میرے ذہن میں جو سوالات پیدا ہوئے، وہ یہ ہیں کہ روس اور چین نے اس قرارداد کو مسترد (ویٹو) کیوں نہیں کر دیا؟ صرف اعتراض کرنے سے شام کو کیا فائدہ ہوا، فیصلہ تو شام کی حکومت کے خلاف آیا ہے۔ روس تو خود شام کے میدان میں موجود ہے، شام کی حکومت کا اتحادی ہے، قرارداد کو مسترد نہ کرنا کیا ظاہر کرتا ہے؟ اس کے بعد چھ دن بعد امریکی محکمہ دفاع صدر مملکت ٹرمپ کے حکم پر شام سے فوجی انخلاء کی خبر دیتا ہے اور اس پر روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کا پریس کانفرنس کرکے ملا جلا ردعمل ظاہر کرنا بھی معنی خیز ہے۔ ایک طرف انہوں نے امریکہ، فرانس اور جرمنی پر آستانہ مذاکراتی عمل کو مسدود کرنے پر تنقید کی، ایک طرف انکا کہنا تھا کہ امریکہ کی شام میں موجوگی غیر قانونی ہے اور ساتھ ہی انکا یہ کہنا کہ عدم اتفاق کے باوجود روس اور امریکہ کے سفارتی، فوجی و انٹیلی جنس حکام کے روابط ہیں اور شام میں دہشت گردوں کے خلاف لڑائی سے متعلق معاملات پر تعمیری مکالمہ ہوا، جس پر صدر پوٹن کا کہنا تھا کہ امریکی و روسی اشتراک عمل پر وہ مطمئن ہیں، یعنی کیا۔؟

ترکی، امریکی و مغربی نیٹو اتحاد کا رکن مسلمان ملک ہے۔ روس شام کا اتحادی ہے۔ آستانہ مذاکراتی عمل میں وہ روس اور ایران کے ساتھ ہے جبکہ دیگر معاملات میں امریکہ کے ساتھ ہے، سوائے ایک ایشو کے کہ ترکی اور شام کے درمیان سرحدی علاقوں میں امریکہ کرد مسلح گروہ کی حمایت نہ کرے۔ ترکی نے دھمکی دی کہ وہ ان کردوں کے خلاف شمالی و مشرقی شام میں فوجی کارروائی کرے گا۔ اس پر امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون اور امریکہ کے خصوصی نمائندہ سفارتکار جیمز جیفری نے مخالفت اور شدید تنقید بھی کی، جبکہ ترک صدر رجب طیب اردگان نے دعویٰ کیا کہ اس حوالے سے صدر ٹرمپ نے انہیں مثبت جواب دیا ہے۔ اردگان کا منصوبہ ہے کہ شام میں دریائے فرات کے مشرق پر واقع علاقے پر کرد ملیشیاء کے خلاف کارروائی کرے، جبکہ ترک حکومت نے واضح کیا ہے کہ امریکی فوجیوں کو ہدف نہیں بنایا جائے گا۔ کرد سمیت یورپی نیٹو اتحادیوں نے ٹرمپ کے فیصلے پر تنقید کی ہے۔

سعودی صحافی جمال خاشقچی کے استنبول میں سعودی قونصلیٹ میں وحشیانہ انداز میں قتل کے بعد ترک حکومت نے امریکی پادری برنسن کو آزاد کر دیا تھا، جبکہ ٹرمپ حکومت اسکا مطالبہ کر رہی تھی۔ اب شام میں امریکی اتحادی کرد امریکہ کے وسیع تر سامراجی مفادات کی وجہ سے ایک اور مرتبہ قربان کئے جا رہے ہیں، یعنی ترک امریکی حکومت کی طے شدہ لین دین کا نتیجہ یہ ہے کہ برنس ترکوں نے آزاد کیا اور اب ترکوں کو شمالی و مشرقی شام میں کارروائیوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آرہی۔ امریکی حکومت کرد ملیشیا (ایس ڈی ایف اور خاص طور اس میں شامل وائی پی جی) کو اس سرحدی پٹی پر انتظامی کنٹرول دینے کی پالیسی وضع کرچکی ہے۔ کیا وہ منصوبہ ختم کر دیا جائے گا یا وقتی طور پر اسے موخر کیا گیا ہے اور اب سابقہ منصوبوں پر خفیہ و غیر اعلانیہ کام جاری رکھا جائے گا۔؟

ظاہر ہے کہ امریکہ نے سعودی عرب سے جو پیسے اینٹھے ہیں، وہ شام میں مختلف منصوبوں کے نام پر ہی لئے ہیں۔ صدر ٹرمپ شام میں تعمیر نو کی بات کر رہے ہیں اور اس میں سعودی عرب کے کردار کا تذکرہ کرچکے ہیں، جبکہ یورپی ممالک نے تعمیر نو کے نام پر شام میں خرچہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ جب 13 دسمبر کو قرارداد منظور کی گئی تو وہاں روسی سفیر نے شام کے عوام کی اپنے علاقوں میں واپسی اور بحالی میں بین الاقوامی مدد پر تاکید کی تھی، لیکن مغربی ممالک نے انکار کر دیا۔ مغربی ممالک اور ترکی امریکہ کے نیٹو اتحادی ہیں، لیکن ان کی گیس کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ترک اسٹریم معاہدے کے تحت روس اپنی گیس کو ترک گیس ٹرانسپورٹیشن نظام سے منسلک کرکے نہ صرف ترکی بلکہ براستہ ترکی جنوب اور جنوب مشرقی یورپ کے ممالک کو بھی روس کی گیس برآمد کرنے کے منصوبے کو تیزی سے مکمل کر رہا ہے۔ ترکی روس کی گیس کا بڑا گاہک ہے اور بلیو اسٹریم اور ٹرانس بلقان بالکن پائپ لائنوں کے ذریعے گیس خرید رہا ہے۔ 19 نومبر 2018ء کو ترک اسٹریم گیس پائپ لائن کے آف شور سیکشن پر تعمیراتی کام مکمل کیا جاچکا ہے، یعنی اب بلقان سے لے کر بحر متوسط کے کنارے پر یونان تا اسپین روسی گیس کی فراہمی ممکن بنائی جاسکے گی۔ ظاہر ہے کہ انرجی ضروریات کے پیش نظر یورپ کے بہت سے نیٹو اتحادی روس کو یوکرین پر فوقیت دے سکتے ہیں جبکہ روس سوائے شام کو بیچنے کے اور کیا پیش کرسکتا ہے، حالانکہ شام بھی اسکو فوجی اڈے اور بندرگاہ استعمال کرنے کی اجازت دے چکا ہے۔؟

دلچسپ نکتہ یہ بھی ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردگان امریکہ کے مقابلے پر ترک موقف کے دفاع میں یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ شام کے علاقے منبج کو اس کے اصل وارث (یعنی عربوں) کے حوالے کرنا چاہتے ہیں جبکہ امریکہ وہاں کردوں کو حاکم بنانا چاہتا ہے۔ یہ بھی کم دلچسپ نہیں کہ سعودی عرب کی بادشاہت بھی اس ایشو پر عربوں کے لئے ایسا کچھ نہیں سوچ رہی، جتنا ترک صدر فکر مند ہوئے ہیں، کیونکہ سعودی بادشاہت تو کردوں کو الگ ملک بنا کر دینے کے ایجنڈا پر کام کر رہی ہے، جیسا کہ ماضی میں ایک سابق سعودی عہدیدار کہہ بھی چکے ہیں۔ اس بہت بڑی سطح کے سامراجی کھیل میں کرد مسلمان اور شام کے عرب مسلمان ایک اور مرتبہ اسی طرح پرائی جنگ کا ایندھن بن رہے ہیں، جیسے پہلی جنگ عظیم کے وقت سلطنت عثمانیہ کے سقوط کے لئے برطانیہ و فرانس سامراج، زار روس اور اسکے سقوط کے بعد کے حکمران اور ووڈرو ولسن کا امریکہ یا اٹلی نے مختلف پراکسیز کو استعمال کیا تھا، فرق یہ ہے کہ اس وقت برطانیہ کی فوجی طاقت سب سے زیادہ تھی اور اب امریکہ عالمی سامراج ہے۔ علامہ اقبال نے اس سارے کھیل کو محض چار مصرعوں میں منظوم بیان فرمایا تھا:
اس کھیل میں تعین مراتب ہے ضروری
شاطر کی عنایت سے تو فرزیں، میں پیادہ
بے چارہ پیادہ تو ہے ایک مہرہ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ

کیا رجب طیب اردگان، کیا آل سعود و اماراتی شیوخ و شاہ اور کیا شام، کرد، عرب، ان سبھی کو یاد رکھنا چاہیئے کہ پہلی جنگ عظیم نے سلطنت عثمانیہ کو تاریخ کی ردی بنا دیا تو دوسری جنگ عظیم کے ساتھ نئی عالمی اسٹیبلشمنٹ نے ارض مقدس فلسطین پر یہودی نسل پرستوں کی ناجائز و جعلی ریاست کو ’’زمینی حقیقت‘‘ بنا کر دم لیا۔ مسلمان اور عرب کی مختلف بنیادوں پر تقسیم نے عالم اسلام و عرب کو ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار کروایا جبکہ بظاہر ایک دوسرے سے دور نظر آنے والی یہ بڑی طاقتیں (عالمی اسٹیبلشمنٹ) بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ بدل جانے میں حد درجہ مہارت رکھتی ہیں۔ پس پردہ معاملات طے کرکے یہ اپنے اتحادیوں کو بھی قربان کرتی آئی ہیں، چہ جائیکہ نیابتی گروہ! یہی وجہ تھی کہ عالم اسلام کے بطل جلیل نے لاشرقی لا غربی کو خارجہ پالیسی کی بنیاد قرار دیا۔ چونکہ شام کی حکومت کا اصول پسندانہ موقف ہے کہ اسرائیل ایک جعلی ریاست ہے، جو فلسطین کو غصب کرکے بنائی گئی ہے، اسی لئے امریکی و اسرائیلی اتحاد نے اس کے سقوط کی سازش کی ہے، لیکن حیف ہے کہ بہت سے مسلمان و عرب حکمران شام کے خلاف اسرائیل کی بقاء کی امریکی صہیونی جنگ کا ایندھن بنے ہوئے ہیں اور تلخ سہی لیکن یہ حقیقت ہے کہ یورپ ہی نہیں بلکہ روس اور چین بھی عالم اسلام و عرب کے موقف برائے فلسطین سے متفق نہیں ہیں، اس لئے فکسڈ میچ کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا۔!

متعلقہ مضامین

Back to top button