مقالہ جات

علی رضا عابدی تو شہادت مانگ کر لائے تھے۔۔۔۔

تحریر : سید انجم رضا

اس برس کربلا میں روز اربعین زائرین اور پرسہ داروں کا اتنا اژدہام تھا کہ میں باوجود کوشش کے زیارت ضریح مقدس سید الشہدا کے لئے اندر داخل نہ ہوسکا، مغربین کے وقت میرے دونوں بیٹے علی مراد اور علی حمزہ کہنے لگے، بابا ہم نے تو جی بھر کے زیارت کی ہے آپ نہیں اندر جاسکے، میرے لئے دل میں ایک بے چارگی کی سی تڑپ اٹھی کہ میں زیارت نہ کرسکا ۔

بچے مجھے کہنے لگے آئیں ہمارے ساتھ مل کر زیارت کے لئے چلتے ہیں، ہم جب حرم امام حسین علیہ السلام میں داخل ہوئے تو عزاداروں کے اس ہجوم میں شامل ہوگئے، بین الحرمین میں مغربین باجماعت ادا کرنے کے بعد علی حمزہ کہنے لگا ! بابا آئیں زیارت ضریح کرتے ہیں، ہم جب ہال کے اندر داخل ہوئے تو علی حمزہ نے پوچھا! بابا کیا ہم ضریح مقدس کے سرداب (تہہ خانہ) میں نہ چلیں شاید وہاں رش کم ہو، بس ہم باپ بیٹے ضریح مقدس کے سرداب (تہہ خانہ) میں جب داخل ہوئے تو ایسا لگا کہ سید الشہدا نے خود ہمارے لئے زیارت کا اہتمام کیا ہو، ہم نے جے بھر کی زیارت کی اور ضریح مقدس کے بوسے لیے ۔
اسی دوران ضریح مقدس کے سرداب (تہہ خانہ) میں ایک نوحہ بلند ہوا

آج بھی زینب کی آتی ہے صدا بھائی حسین​
تیرا چہرہ تیری آنکھیں بھول کب پائی حسین
بس میں گھبرائی تھی خنجر تجھ پہ چلتا دیکھ کر​
پھر کسی مشکل میں گھر کر میں نہ گھبرائی حسین

ہم نے مڑکر دیکھا تو سرداب (تہہ خانہ) کے فرش پر چند افراد بہت احترام کے ساتھ دو زانو بیٹھے ماتم کررہے ہیں اور ساتھ نوحہ خوانی بھی کررہے ہیں
تقریباً آدھ گھنٹہ تک ماتمداری کرتے رہے، ان سب عزاداروں میں ایک چہرہ ایسا تھا کہ جب ہم ان میں شامل ہوئے تو اس نے اُٹھ کر بہت محبت سے ہم سب کو اپنے پاس بٹھایا، ہم سب مل کر جناب سیدہ سلام اللہ کو پرسہ دیتے رہے، مجھے محبت سے بٹھانے والا نوجوان مسلسل گریہ اور نوحہ خوانی کررہا تھا،اور اس شخص کے چہرے پر ایک عجیب سے تمتاہٹ تھی کہ بیان نہیں کی جاسکتی، ماتمداری کے بعد ہم سب نے مل کر زیارت پڑھی،
جب چلنے لگے تو میں اس نوجوان سے پوچھا کہ آپ کا چہرہ شناسا سا لگ رہا ہے آپ کون ہو؟ تو اس نے اسی محبت بھرے انداز میں کہا کہ میرا نام علی رضا عابدی ہے اور میں کراچی سے ہوں۔

آج جب میں نے ٹی وی پر خبر سُنی تو مجھے حرم مقدس میں علی رضا عابدی کا گریہ کرنا اور ماتمداری کرنا یاد آگیا، اس روز یقیناً علی رضا عابدی یہی دعا مانگ رہا ہوگا جوآج قبول ہوئی۔

دکھ کی بات تو یہ ہے کہ ملک دشمن قوتیں متحرک ہیں اور ملک کے وفاداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جب کہ ان قاتلوں اور قتل کی سازش کرنے والوں کو پروٹوکول ملتا ہے۔علی رضا عابدی کا قتل امام زین العابدین کے ان جملوں کی تفسیر ہے.

امام زین العابدین نے دربار یزید میں برملا کہا تھا
میں پسرِ زمزم و صفا و مروہ ہوں، میں فرزندِ فاطمہ زھرا ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جسے پسِ گردن ذبح کیا گیا۔ ۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کا سر نوکِ نیزہ پر بلند کیا گیا۔ہمارے دوست روزِ قیامت سیر و سیراب ہوں گے اور ہمارے دشمن روزِ قیامت بد بختی میں ہوں گے.

متعلقہ مضامین

Back to top button