مقالہ جات

شام سے امریکی افواج کی واپسی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام سے امریکی افواج کی واپسی کا اعلان کر دیا ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے داعش کے خلاف جنگ جیت لی ہے، اب وقت ہے کہ شام میں موجود امریکی فوجیوں کو گھر بلایا جائے۔ انہوں نے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان سے ایران، روس اور شام کی دولت اسلامیہ کے خلاف مقامی لڑائی کا حصہ بننے کی توقع نہ کی جائے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل امریکی اداروں کی جانب سے شام میں امریکی افواج کو رکھنے کی بات کی جا رہی تھی، جسے شامی وزیر خارجہ فیصل المقداد نے کھلی جارحیت قرار دیا تھا۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے اعلان کے ایک روز بعد ترکی کے وزیر دفاع نے شمالی شام میں کرد عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ وقت آنے پر شامی کرد ملیشیا کے ارکان کو ان کی خندقوں میں دفن کر دیا جائے گا۔ شام میں لڑنے والے کردوں کے ایک اتحاد جسے امریکہ کی پشت پناہی حاصل تھی، نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کو شکست دینے کے اعلان اور شام سے امریکی افواج کی واپسی کے فیصلے پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ اس سے شدت پسند تنظیم کو خطے میں ایک بار پھر اپنے قدم جمانے کا موقع ملے گا۔ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز جو بنیادی طور پر کردوں اور مغربی ممالک سے جمع کئے گئے رضاکاروں پر مشتمل ایک فورس ہے اور جسے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی پشت پناہی حاصل رہی، کی جانب سے جاری کئے گئے ایک بیان کے مطابق امریکہ کے جانے سے علاقے میں ایک خلا پیدا ہو جائے گا اور امریکہ کے اتحادی اپنے دشمنوں کے درمیان پھنس جائیں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے افواج کی واپسی کے فیصلے پر امریکی سینیٹر اور اتحادی ممالک بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ رپبلکن سینیٹر لنڈسی گراہم جو کہ آرمڈ سروسز کمیٹی کی رکن بھی ہیں، کہتی ہیں کہ یہ اقدام "اوباما جیسی غلطی ہے۔” انہوں نے کہا کہ یہ ایران اور روس کی بڑی فتح ہے۔ سینیٹ کی فارن سروسز کمیٹی کے سربراہ باب کروکر نے اسے برا فیصلہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریپبلکن سینیٹرز کو صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے افسوس ہوا اور دھچکا پہنچا ہے کہ وہ اپنے کرد اور عرب اتحادیوں کو صدر اسد اور ترکی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں گے۔ برطانیہ کے وزیرِ دفاع ٹوبائس ایلوڈ نے صدر ٹرمپ کی جانب سے دولتِ اسلامیہ کو شکست ہونے کے بیان پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان کے دعوے کے برعکس دولتِ اسلامیہ کا خطرہ بدستور موجود ہے۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ اسے بتایا گیا ہے کہ امریکہ کے پاس خطے پر اثرانداز ہونے کے دیگر ذرائع ہیں، لیکن وہ اس بات کا جائزہ لیتا رہے گا کہ یہ کیسے ہوتا ہے اور اس کے اسرائیل پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

بہرحال امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شام سے امریکی افواج کی واپسی کا عمل شروع کر دیا گیا ہے، جو کہ 100 دنوں میں مکمل کر لیا جائے گا۔ شام میں دو ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں، یہ فوجی بہت حد تک ملک کے شمال مشرقی حصے میں ہیں، جو سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کو فضائی اور تزویراتی مدد فراہم کر رہے تھے۔
داعش اور مغربی و سعودی پشت پناہی کے حامل گروہوں کی واضح ہوتی شکست کے بعد امریکہ نے شامی افواج اور اس کے رضاکاروں کا راستہ روکنے کے لئے سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کا قیام عمل میں لایا، جس میں کردوں اور مغرب سے لائی گئی اس فورس نے ملک کے شمال مشرقی علاقوں کو اپنے زیر نگیں کیا۔ جو اس وقت ترکی کے لئے ایک مستقل خطرہ بن چکا ہے۔

قارئین کرام کے علم میں ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں داعش، فری سیرین آرمی، جبہۃ النصرہ اور اس جیسے گروہوں کے قیام کے حوالے سے بہت کچھ لکھا اور کہا جاچکا ہے۔ اس عنوان سے کافی حقائق سامنے آچکے ہیں، جن میں سب سے اہم انکشاف قطر کے سابق وزیراعظم نے کینیڈین ٹی وی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔ سابق قطری وزیراعظم کا کہنا تھا کہ شام کا منصوبہ 2011ء میں مجھے شاہ عبداللہ نے سونپا۔ اس منصوبہ کو Hunt for Pray کا عنوان دیا گیا تھا، جس مین بشار الاسد کی حکومت کو گرانے کے لئے اردن، ترکی، سعودیہ، قطر، برطانیہ، امریکہ اور اسرائیل کے مابین ایک خفیہ معاہدہ تھا، جس میں برطانوی، امریکی اور اسرائیلی افواج اور سکیورٹی ادارے شام میں جنگ کرنے والوں کو تربیت اور انٹیلیجنس معلومات مہیا کر رہے تھے۔ رضاکاروں کی جمع آوری کا کام عرب ممالک کے ذمہ تھا۔ دنیا بھر سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد جنگجوؤں کو اس جنگ کا ایندھن بنایا گیا۔

داعش جس کی بنیاد ابو بکر البغدادی اور سابق بعثی افسران کے ذریعے عراقی جیلوں میں رکھی گئی تھی، کو فری سیرین آرمی اور جبہۃ النصرۃ کی حکومتی اتحاد سے پسپائی یا سرمایہ کاروں سے بغاوت کے بعد متعارف کروایا گیا۔ داعش نے شام کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کیا، تیل کی دولت سے مالا مال ان علاقوں سے داعش تیل نکال کر ترکی کے راستے دنیا بھر میں فروخت کرتی رہی۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی اس رسائی کے سبب تیل کی قیمتیں مسلسل گرتی رہیں، بالاخر روس جس کی معیشت کا بڑا انحصار تیل اور اس کی برآمدات پر تھا، کو اس جنگ کا حصہ بننا پڑا۔ روس نے داعش کے مراکز اور اس کی مالی شہ رگ پر حملہ کیا۔ جس کے سبب داعش کو فقط تین ماہ میں حزیمت اٹھانی پڑی۔ روس نے ثابت کیا کہ اس سارے دھندے کے پیچھے کون کون سی طاقتیں تھیں، حال ہی میں روس کے محکمہ دفاع میں روسی صدر پیوٹن کو شام کے دہشت گردوں سے پکڑے جانے والے ہتھیاروں کو پیش کیا گیا، جن میں زیادہ تر ہتھیار مغرب کے تھے۔ یہ نمائش اور اس میں صدر پیوٹن کی شرکت خاصی اہمیت کی حامل ہے، روسی محکمہ دفاع نے ثابت کیا کہ شام میں لڑنے والے دہشت گرد حقیقت میں کس کی ایما پر یہ جنگ لڑ رہے تھے۔

اب ظاہر ہے کہ امریکی صدر کے لئے شام کی اس جنگ میں کچھ نہیں بچا تھا، جس کے لئے وہ اپنے وسائل کو اس علاقے میں صرف کرتے۔ ترکی سے بھی امریکہ کے تعلقات پہلے جیسے نہ رہے۔ اس جنگ میں امریکہ کا کچھ نقصان ہوا ہے یا نہیں، ان گذشتہ سات برسوں میں شام کے باسیوں نے اس مسلط کردہ جنگ میں تقریباً پانچ لاکھ انسانی جانوں کی قربانی دی، اسی طرح تقریباً ایک کروڑ تیس لاکھ ایسی حالت میں ہیں کہ انہیں انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے۔ ملکی معیشت ابتری کا شکار ہے، ایک مسلمان ملک کی اس انداز سے بدحالی بہرحال امت مسلمہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ بہرحال دیر آید درست آید ہمیں امید کرنی چاہیئے کہ افغانستان میں بھی چین، روس، ایران اور پاکستان کے مقامی گروہوں کے ساتھ فعال مکالمے اور کردار کے سبب جلد ہی امریکہ کو اس خطے میں آنے کی غلطی کا بھی جلد ہی احساس ہو جائے گا اور وہ اپنی افواج کو یہاں سے بھی واپس بلانے کا جلد اعلان کرے گا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button