پاکستان

عالمی دہشت گرد تنظیم داعش اور القاعدہ کی سہولت کاری میں ملوث جماعت اسلامی کا رہنمانصراللہ چوہدری کراچی سے گرفتار

شیعیت نیوز: کائونٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) نے ایک بڑی کاروائی کے دوران عالمی دہشت گرد تنظیم داعش ،القاعدہ کےسہولت کار جماعت اسلامی کےرہنماصحافی نصراللہ چوہدری کو گرفتار کرلیا،تفصیلات کے مطابق گذشتہ دنوں سی ٹی ڈی اہلکاروں نے نزد ہولی فیملی اسپتال سولجر بازارنمبر 1کے چھاپے کے دوران بدنام زمانہ عالمی دہشت گرد تنظیم داعش اور القاعدہ کے بدنام دہشت گردخالد مکاشی کے سہولت کار صحافی نصراللہ چوہدری کو گرفتار کرلیا ہے،جس کے قبضے سے اشتعال انگیز موادجس میں افواج پاکستان، حکومت پاکستان،مذہبی منافرت اور جہاد پر اکسانے کا مواد برآمد ہوا، شیعیت نیوز کے ذرائع کے مطابق نصر اللہ چوہدری کا تعلق پاکستان کی نامورمذہبی تنظیم جماعت اسلامی سے ہے اوروہ جمشید ٹائون زون کے عہدیدارہے، جبکہ نصر اللہ چوہدری کراچی پریس کلب کا ممبر ہونے کے ناطے صحافت کی آڑ میں ملک دشمن کاروائیوں میں ملوث رہا ہے۔

دریں اثناءامیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن اور سیکرٹری اطلاعات زاہد عسکری نے کراچی پریس کلب کے ممبر وسینئر صحافی نصر اللہ خان ( چودھری ) کے گھر پر سر کاری اہلکاروں کے چھاپے اور غیر قانونی طور پر ان کو حراست میں لینے والے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اس غیر قانونی کارروائی میں ملوث اہلکاروں اور ذمے داروں کے خلاف ایکشن لیا جائے اور نصر اللہ خان کو فی الفور بازیاب کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل کراچی پریس کلب پر غیر قانونی چھاپا مارا گیا جس کے باعث صحافیوں کے اندر شدید بے چینی اور اضطراب پیدا ہو گیا ہے اور اب ایک سینئر صحافی کو گھر سے اُٹھا کر لے جانے کے واقعے پر صحافیوں میں اشتعال پیدا ہو گیا ہے اور صحافی برادری احتجاج کر نے اور سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو گئی ہے۔ صحافیوں کو ہراساں کر نے اور آزادی اظہارِ رائے کو دبانے کی کوششیں کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہو سکتیں۔ صحافیوں کے خلاف اس کے طرح کے اوچھے ہتھکنڈے ریاست کے چوتھے ستون صحافت کو پابند کر نے اور اس پر قدغن لگانے کے مترادف ہے جو جمہوریت اور جمہوری روایات کے بھی خلاف ہے ۔اگر کسی کے خلاف کوئی شکایات یا الزام ہو تو اسے عدالتوں میں پیش کیا جائے ا ور قانونی راستے اختیار کیے جائیں اس طرح بغیر کسی ثبوت کے اور بلاجواز طور پر کسی کے بھی گھر پر چھاپے مارنا اور گھر سے اُٹھا لے جانے کے عمل کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ہمیشہ آزادی صحافت اور صحافیوں کے حقوق کے لیے آواز اُٹھائی ہے اور آج بھی صحافیوں کے ساتھ ہیں۔ سندھ کے گورنر ، وزیر اعلیٰ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذمے داران کا فرض ہے کہ وہ اس صورتحال کا نوٹس لیں ۔ صحافت اور صحافیوں کے خلاف غیر قانونی اقدامات کا سلسلہ بند کرائیں اور نصر اللہ چودھری کی بازیابی یقینی بنائیں ۔

ترجمان سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق  8-11-2018 کو مخبر کی اطلاع پر کراچی کراچی پریس کلب کےباہر ممکنہ دہشت گرد کا تعاقب کرتے ہوئے دو سادہ لباس اہلکارممکنہ دہشت گرد کو چیک کرنے کیلئے داخل ہوئے لیکن ممکنہ دہشت گردرش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرارہوگیا، اگر کسی صحافی بھائی کی اس سے دل آزاری ہوئی تو ہمیں اس کا دلی افسوس ہے، یہ تمام تر کاروائی کراچی اور کراچی کے شہریوں کو کسی بھی ممکنہ حادثہ سے محفوظ رکھنے کیلئے کاری ہیں ، پریس اور کراچی کے عوام کے تعاون سے کراچی شہر کو خطرات سے محفوظ رکھنےکیلئے سی ٹی ڈی کی کوشش و کاوش جاری رئیگی اور ملزمان کی جے آئی ٹی بھی کروائی جارہی ہے۔

واضح رہے کہ جماعت اسلامی کا القاعدہ کے ساتھ تعلق افغانستان پر امریکی حملے سے بہت پہلے استوار ہو چکا تھا تاہم یہ تعلق اس وقت منظر عام پر آیا جب نائن الیون کے خود ساختہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد 2003ء میں جماعت اسلامی، راولپنڈی کے خواتین ونگ کی سربراہ کے گھر سے گرفتار ہوئے۔ مزید برآں جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی طرف سے غیر ملکی شدت پسندوں کو پناہ دینے کے متعدد واقعاتی شواہد موجود ہیں۔ کچھ ہی عرصہ پہلے پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں اسلامی جمیعت طلبہ کے ایک رکن کے کمرے سے القاعدہ کا دہشت گرد گرفتار ہوا تھا۔ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ یہ دہشت گرد اسلامی جمیعت طلبہ کے کئی رہنماؤں سے رابطے میں تھا۔ اس واقعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ القاعدہ پاکستان میں کس طرح آزادی سے سرگرم ہے۔ ان دونوں تنظیموں کے باہمی رابطے کی مدد سے القاعدہ کے لیے نو جوان بھرتی کیے جاتے ہیں جو نام نہاد جہادی تنظیموں میں شامل ہوکر پاکستانی ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھاتے ہیں ۔

2004ء میں پاکستانی سکیورٹی ایجنسیوں نے ایک کمپیوٹر انجینئر نعیم نور خان کو لاہور سے گرفتار کیا جس پر القاعدہ کا کمیونیکیشن چیف ہونے کا الزام تھا۔ نعیم نور وہ کراچی کی نیشنل انجینئرنگ یونیورسٹی میں تعلیم پانے کے دوران اسلام جمعیت طلبہ کا سرگرم رکن تھا اور بعد ازاں قبائلی علاقوں میں القاعدہ کے لیے کام کرتا رہا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے واقعات جماعت اسلامی اور القاعدہ کے باہمی رابطوں کو واضح کرتے ہیں۔

کراچی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اسلامی جمعیت کے ایک سرگرم کارکن عطا الرحمن 2004ء میں کور کمانڈر کراچی (تب) جنرل احسن حیات پر حملے کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ عطا الرحمن نے کراچی میں جنداللہ کی بنیاد رکھی تھی جو القاعدہ کی ذیلی تنظیم ہے۔اس واقعے میں ٓآرتھو پیڈک سرجن ڈاکٹر ارشد وحید اور ان کے بھائی نیورو سرجن اکمل وحید کو بھی گرفتار کیا گیا۔ یہ دونوں جماعت اسلامی کے کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ القاعدہ کے رکن بھی تھے۔ جماعت اسلامی نے حکومت پر دباؤ ڈال کر ان دونوں بھائیوں کو رہا کروایا جو وزیر ستان جا کر القاعدہ میں شامل ہو گئے۔

 مارچ 2008ء میں ڈاکٹر ارشد وحید امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے جس کی تصدیق القاعدہ کی طرف سے ریلیز ہونے والی ویڈیو میں کی گئی۔انجینئر احسان عزیز جماعت اسلامی کے ایک اہم رہنما تھے جو وزیرستان میں القاعدہ کے ساتھ سرگرم تھے۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ 2012ء میں ایک ڈرون حملے میں مارے گئے۔ ان کی نماز جنازہ جماعت کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم نے پڑھائی۔

جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے گھروں سے القاعدہ ارکان کی گرفتاری کے بعد جماعت اسلامی عالمی طاقتوں کے نظر میں آ گئی تھی لیکن اس کے کسی دہشت گردکارروائی میں براہ راست ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ جماعت اسلامی کے رہنما ہمیشہ القاعدہ یا کسی دوسری دہشت گرد تنظیم کے ساتھ کسی رابطے سے انکار کر تے رہے لیکن اسامہ اور پاکستان میں مرنے والے دوسرے عسکریت پسندوں کو کھلے عام اسلامی ہیرو کے طور پر بھی پیش کرتے رہے۔ نوے کی دہائی میں جماعت اسلامی کے ہزاروں کارکن سعودی جہادیوں کے شانہ بشانہ سویت یونین کے خلاف افغان جنگ میں شامل تھے۔ جماعت اسلامی اس زمانے ہی سے عالمی جہاد کا حصہ رہی ہے اور مختلف علاقوں میں جہادی کارروائیوں میں شامل رہی ہے۔ان تمام کاموں میں جماعت اسلامی کو پاکستانی فوج کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اس وقت نیشنل سکیورٹی کے نام پر اس اتحاد کا دفاع کیا جاتا تھا۔ نائن الیون کے بعد جب پاکستان القاعدہ کے خلاف امریکی اتحادی بن گیا توہماری نیشنل سکیورٹی بھی تبدیل ہو گئی۔ تب سے جماعت اسلامی ایک طرف افواج پاکستان کی حمایت کر رہی ہے اور دوسری طرف القاعدہ کے خلاف امریکی اتحادی ہونے کی مخالفت بھی جاری ہے۔ تاہم جب یہ جنگ پاکستان میں داخل ہوگئی تو اس صورت حال کو جاری رکھنا مشکل ہو گیا۔

 جماعت اسلامی کے کارکن ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف جنگ میں شامل تھے ، دوسری طرف جماعت کے رہنما خود کو جمہوریت پسند ثابت کرنے میں مصروف تھے۔ چنانچہ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے کہ جماعت حالیہ برسوں میں سکڑتی جا رہی ہے۔اب جماعت اسلامی نے دوغلی پالیسی ترک کر کے کھلے عام عسکریت پسندوں کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے اور اس کے جواب میں فوج کا بھی سخت رد عمل سامنے آیا ہے ۔ چنانچہ اب ان کے لیے خود کو ایک جمہوری پارٹی ثابت کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔

واضح رہے کہ جماعت اسلا می اور اس کے طلباءونگ اسلامی جمعیت طلباء کے متعدد کارکنان اور عہدیداران کراچی سمیت مختلف شہریوں میں دہشت گردی کی سنگین کاروائیوں میں ملوث رہے ہیں،جس کی ایک واضح مثال صفورہ گوٹھ کے علاقے میں اسماعیلی برادری کی بس پرحملے میں ملوث جامعہ کراچی میں زیر تعلیم اسلامی جمعیت طلبا ء کے کارکنان سعدعزیز ، طاہر منہاس و دیگر ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button