مقالہ جات

اسرائیل تا پاکستان براستہ عمان، کس لئے؟

شیعیت نیوز:تحریر:    عرفان علی

جعلی ریاست اسرائیل کے ڈیوڈ بن گوریان ایئرپورٹ تل ابیب سے ایک نجی طیارہ اڑان بھرتا ہے، وہاں سے اردن کے دارالحکومت عمان کے ایئرپورٹ پر اترتا ہے۔ ایک وقفے کے بعد وہاں سے اڑان بھرتا ہے اور خبر آتی ہے کہ پاکستان کی فضائی حدود میں چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر سفر کرتے ہوئے اور اسلام آباد کے نزدیک اچانک بیس ہزار فٹ کی بلندی تک نیچے آجاتا ہے، جبکہ اطراف میں پہاڑی علاقے ہیں اور یہاں نچلی سطح کی پرواز ممکن نہیں ہے۔ اسرائیلی روزنامہ ھا آریتس کی ویب سائٹ کے چیف ایڈیٹر ایوی شراف ایک ٹویٹ کرکے پاکستان سمیت دنیا بھر کی توجہ اس طرف مبذول کرواتے ہیں۔ پاکستانی حیران و پریشان ہوکر سوال کرتے ہیں کہ اسرائیلی طیارے کا پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں دس گھنٹوں قیام جبکہ اس کے مسافر ہائی پروفائل اسرئیلی شخصیت سے متعلق کوئی خبر سرکاری سطح پر جاری نہیں کی جاتی۔ سابق وزیر اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما چوہدری احسن اقبال حکومت سے سوال کرتے ہیں تو انصافین حکومت کے وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین تردید کرتے ہیں اور صاف مکر جاتے ہیں کہ کوئی اسرائیلی طیارہ پاکستان کی حدود میں نہیں اترا۔ فضل الرحمان اس وضاحت کو قبول نہیں کرتے اور مصر رہتے ہیں کہ حقائق سے قوم کو آگاہ کیا جائے۔ یوں بدھ 24 اکتوبر 2018ء پاکستان و اسرائیل کے خفیہ تعلقات کی تاریخ میں پراسرار سہی لیکن ایک اہم دن کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔

لیکن جوں جوں تفصیلات عیاں ہوتی ہیں تو ایک حقیقت کے بظاہر متضاد پہلو واقعیت کی سمت لے جاتے ہیں۔ مسئلہ تیکنیکی بن جاتا ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ وزیر اطلاعات اور ایوی ایشن حکام کی بات بھی کسی حد تک درست ہے، لیکن چوہدری احسن اقبال اور فضل الرحمان بھی غلط بیانی نہیں کر رہے بلکہ سچ تو وہ بھی بول رہے ہیں۔ اس حقیقت کا ایک پہلو یہ ہے کہ جسے اسرائیلی طیارہ کہا گیا وہ برطانیہ اور آئرلینڈ کے درمیان واقع جزیرے (Isle of Man) میں رجسٹرڈ ہوا تھا اور یہ طیارہ تیار بھی کینیڈا میں ہوا تھا، اس لئے تیکنیکی و قانونی لحاظ سے طیارہ اسرائیلی نہیں کہلایا جاسکتا۔ حقیقت کا دوسرا رخ یہ ہے کہ کوئی طیارہ تل ابیب سے اسلام آباد آیا ہی نہیں بلکہ یہ تو اردن کے دارالحکومت سے آیا تھا۔ یوں بیک وقت دونوں طرف سے بولا تو سچ ہی جا رہا ہے، لیکن پورا سچ یہی ہے کہ ایک طیارہ آیا تھا۔ البتہ ایک اور توجیہ یہ کی جا رہی ہے کہ ممکن ہے کہ پاکستان کی فضائی حدود سے گذر کر چین گیا ہو۔ لیکن کیا پاکستان کی حدود سے چین جانے کے لئے کوئی طیارہ بیس ہزار فٹ کی بلندی پر سفر کرسکتا ہے!!؟؟ ایوی ایشن کے ماہرین سے پوچھ لیں، لگ پتہ جائے گا کہ حقیقت کیا ہے! پاکستان کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہی نہیں ہیں تو پاکستان کی فضائی حدود میں بغیر ریاست پاکستان کی اجازت کے ایسا کوئی طیارہ کیسے آگیا، حالانکہ جن کو فضائی حدود سے گذرنے کی اجازت ہے، انکو بھی متعلقہ پاکستانی حکام کو مطلع کرنا فرض ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ طیارہ کسی خاص اجازت کے تحت ہی آیا تھا۔

قصہ مختصر یہ کہ اگر مقبوضہ فلسطین سے خلیج فارس کے عرب ممالک تک یا پاکستان و ایران تک کے حالات کو مدنظر رکھیں اور اہم شخصیات کی دیگر ممالک آمد و رفت کا ایک سرسری جائزہ بھی لے لیں کہ کون کون سی شخصیات نے کس کس ملک کا دورہ کیا اور کس کس سے ملاقاتیں کیں یا کون کون سے ممالک کی اہم سرکاری شخصیات کس ایجنڈا کو لے کر پاکستان آئیں تو یہ قصہ کچھ کچھ سمجھ آسکتا ہے۔ یہ حقیقت بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکہ کے عرب اتحادی ممالک اور جعلی ریاست اسرائیل کے مابین قریبی تعلقات قائم ہوچکے ہیں۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کو جعلی ریاست اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر لیا ہے اور اب وہ دیگر ممالک سے اس کو تسلیم کروانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ فلسطینی قیادت کو امریکی و اسرائیلی شرائط پر اونے پونے معاہدے پر راضی کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ میڈیا میں خبریں آنے کے سبب رائے عامہ مخالف ہے اور خاص طور عرب و مسلمان رائے عامہ تو کٹر مخالف ہے، اس لئے پس پردہ معاملات کو طے کرنے کی حکمت عملی وضع کی گئی ہے۔

جعلی ریاست اسرائیل میں یہ انتخابات کا سال ہے اور نیتن یاہو کو مالی بدعنوانی سمیت بعض الزامات کی تحقیقات کا سامنا بھی ہے۔ اوپر سے شام کا محاذ اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ وہاں ایران اور حزب اللہ کی موجودگی، مجموعی طور پر صہیونی حکومت خود کو کمزور اور خطرات میں گھری محسوس کر رہی ہے اور اس کے لئے ہر اس ملک سے مدد و تعاون چاہتی ہے کہ جو پس پردہ ایران اور شام سے اسرائیل کی کشیدگی ختم نہ کروا سکے تو کم از کم غیر اعلانیہ کمی یا اسے ایک حد کے اندر رکھنے کے لئے سمجھوتہ کروا دے۔ اس ضمن میں روس سے بھی مدد لی جاتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صہیونی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو نے مسقط کا دورہ کیا تو اسے مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے پس پردہ سفارتکاری سے زیادہ ایران سے بذریعہ سلطنت عمان رابطے کی ایک کوشش قرار دیا گیا۔ یاد رہے کہ ملک اومان کو بھی عربی میں عمان ہی لکھا جاتا ہے اور اردن کے دارالحکومت عمان (امان) بھی اسی طرح ہی لکھا جاتا ہے، صرف تلفظ کا فرق ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کے دورے سے پہلے ہی فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس نے بھی سلطنت عمان کا تین روزہ دورہ کیا تھا اور عمانی وزیر خارجہ نے بحرین میں منامہ مکالمہ کی چودھویں سالانہ تقریب سے خطاب میں بھی اسی نکتے پر زور دیا کہ وہ فلسطین و اسرائیل کے مابین ثالثی نہیں کر رہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں امن کے لئے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔

سلطنت عمان نے اپنی پالیسی واضح کی ہے کہ عالمی یا علاقائی سطح کے ایشوز میں جو بھی ملک سلطان قابوس بن سعید سے مدد و تعاون کا طلبگار ہوتا ہے، سلطان مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔ سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن اس کا اعتراف کرچکی ہیں کہ امریکہ نے بھی سلطان قابوس کے توسط سے ایران سے خفیہ مذاکرات کئے تھے۔ اس تناظر میں نیتن یاہو کا دورہ سلطنت عمان اس لئے زیادہ مشکوک ہے کہ انکے ہمراہ صرف انکی بیوی سارہ ہی نہیں بلکہ موساد کے ڈائریکٹر یوسی کوہن، ان کے ملٹری سیکرٹری، چیف آف اسٹاف، اسرائیل کی سکیورٹی کاؤنسل اور وزارت خارجہ کے اعلیٰ عہدیداران بھی تھے اور انکی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ اہم معاملات پر بات چیت ہوئی ہے اور پاکستان میں اس طیارے کا اترنا اور دس گھنٹے تک رہنا جس میں کوئی اہم اعلیٰ سطحی اسرائیلی شخصیت سوار تھی، اس واقعہ کو بھی نیتن یاہو کے دورہ مسقط کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

کیا مسئلہ فلسطین کے حل کے لئے پاکستان کا کوئی کردار مطلوب ہے؟ کیا ڈونالڈ ٹرمپ کے مجوزہ نام نہاد امن منصوبے پر حمایت درکار ہے؟ کیا اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے کوئی نئی پیش رفت ہوئی ہے؟ یا ایران اور شام سے متعلق معاملات پر پاکستان سے مدد و تعاون مانگا جا رہا ہے؟ عمران خان کی انصافین حکومت کا سعودی و اماراتی شیوخ و شاہ سے قربتیں بڑھانا، مدد مانگنا جبکہ وہ کھل کر امریکی اسرائیلی ایجنڈا پر عمل پیرا ہیں، فلسطین کی آزادی کی جنگ لڑنے کے بجائے برادر عرب مسلمان ملک یمن پر فوجی جارحیت میں مصروف ہیں اور ایران و شام و حزب اللہ و حماس کے خلاف کھل کر اسرائیل کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں بلکہ اسرائیل کے موقف کے ترجمان بنے ہوئے ہیں، اس ٹائمنگ پر خارجہ پالیسی کا یہ بھیانک عدم توازن اور ساتھ ہی اسرائیلی شخصیت کی پاکستان میں خفیہ آمد موجودہ حکومت پر تنقید کرنے والوں کو حق بجانب ثابت کر رہا ہے۔

آج کل عمران خان کی انصافین حکومت کے نقاد پاکستان کی مشہور و معروف ہستی ہمدرد گروپ کے بانی سابق گورنر سندھ حکیم محمد سعید شہید کی کتاب ’’جاپان کہانی‘‘ کا ریفرنس دے رہے ہیں کہ انہوں نے کئی سال قبل عمران خان کے بارے میں لکھا تھا کہ یہودی لابی انہیں آگے لانا چاہتی ہے۔ انکے مخالف پاکستان کے مشہور سماجی کارکن عبدالستار ایدھی کا ریفرنس دے رہے ہیں، جنہوں نے کہا تھا کہ جنرل حمید گل اور عمران خان کی جانب سے انہیں دھمکیاں ملی تھیں، جان کو خطرہ تھا، وہ انہیں بے نظیر بھٹو کے خلاف استعمال کرنا چاہتے تھے اور انہیں عمران کی پارٹی میں زبردستی شامل کروانا چاہتے تھے، لیکن ایدھی صاحب نے انکار کر دیا تھا۔ عمران خان کے سسر کا تعلق بھی یہودی لابی سے بتایا جاتا تھا، جبکہ جنرل پرویز مشرف جن کے ریفرنڈم کی عمران نے حمایت کی تھی اور انہیں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کی اکلوتی نشست بھی اسی دور میں ملی تھی، وہ پرویز مشرف بھی یہودی یا صہیونی لابی سے بہت اچھے تعلقات رکھا کرتے تھے، وہ لابی انہیں اپنے پروگرام میں مدعو بھی کرتی تھی اور انکے دور میں ترکی میں اسرائیلی وزیر خارجہ سے پاکستانی ہم منصب کی ملاقات و مذاکرات بھی ہوئے تھے۔

یہ الگ بات کہ عمران کو پرویز مشرف نے وزیراعظم بنانے کا جو آسرا دیا تھا، وہ پورا نہیں ہوا تو انہوں نے پرویز مشرف کی حمایت ترک کر دی تھی۔ یہ بھی عجیب حسن اتفاق ہے کہ پاکستان کی ایک اہم شخصیت نے مارچ میں سلطنت عمان کا دورہ کیا تھا، جبکہ ماہ رواں کے آغاز میں وہ اردن بھی گئے تھے۔ لہٰذا آمد و رفت کا ریکارڈ بھی ظاہر کرتا ہے کہ خطے کے حوالے سے اہم امور پر تبادلہ خیال ہوتا رہا ہے اور اس میں پاکستان کو بھی اعتماد میں لیا جاتا رہا ہے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے منامہ مکالمہ میں خطاب میں واضح کر دیا کہ سعودی عرب امریکی اتحاد سے ہرگز نہیں نکل رہا بلکہ 1930ء کے عشرے سے یہ تزویراتی تعلقات قائم ہیں، جو سعودی سلطنت کے بانی شاہ عبدالعزیز اور امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کی ملاقات میں طے ہوئے تھے۔ منامہ مکالمہ کے سالانہ اجلاس سے عرب مسلم حکمران شخصیات کے علاوہ امریکی وزیر دفاع، اٹلی اور جرمنی کی وزرائے دفاع سمیت دیگر ممالک کی اہم شخصیات نے بھی خطاب کیا۔

زمینی حقیقت یہ ہے کہ امریکی و اسرائیلی اتحاد بھی جوں کا توں قائم ہے اور سعودی عرب بھی اس اتحاد کا جزو لاینفک ہے۔ خلیج فارس کے عرب ممالک کی تنظیم جی سی سی کے ممالک سعودی عرب و متحدہ عرب امارات و بحرین بھی امریکی و اسرائیلی اتحاد کا حصہ ہیں اور ٹرمپ حکومت مشرق وسطیٰ تزویراتی اتحاد کا قیام عمل میں لارہی ہے، جس میں جی سی سی کے رکن ممالک کے علاوہ اردن اور مصر کو بھی رکنیت دی جا رہی ہے۔ بحرین کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ اگلے سال تک وہ خلیجی سکیورٹی الائنس بن جائے گا، جبکہ وائٹ ہاؤس کے حکام اس اتحاد کو عرب نیٹو کا عنوان دے چکے ہیں۔ بہت ہی دلچسپ صورتحال ہے، کیونکہ لگ ایسا رہا ہے کہ عرب لیگ اور او آئی سی امریکہ کے اتحادیوں کے اہداف کی تکمیل میں ناکام رہی ہیں، کیونکہ وہاں عراق و لبنان بھی ہیں یا او آئی سی میں ایران بھی ہے، اس طرح انکے منصوبوں کے خلاف بھی صدائے احتجاج اسی پلیٹ فارم سے بلند ہوتی ہے۔

اب عرب نیٹو کیا قطر کے بغیر کوئی اتحاد ہوگا؟ یا قطر کے خلاف جاری سعودی، اماراتی، بحرینی و مصری اقدامات کا سلسلہ ختم کرکے دوبارہ انہیں بھائی مان لیا جائے گا؟! یہ سارا منظر نامہ مدنظر رکھ کر بات کی جائے تو سوال یہ ہوتا ہے کہ جعلی ریاست اسرائیل اور اسکے اعلانیہ و خفیہ دوست اور اتحادی پاکستان کے ذریعے ایران سے مذاکرات کرکے تنازعات حل کرنا چاہتے ہیں یا پھر کسی نئی پراکسی وار میں پاکستان کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھا کر سہولت کار بنانا چاہتے ہیں؟ یاد رہے کہ مذاکرات تو سلطنت عمان کے توسط سے بھی ہوسکتے ہیں۔ اسکے بعض دیگر پہلو بھی ہیں کہ سلطنت عمان کو بھی کہیں دھمکی تو نہیں دی گئی ہے کہ ایران کو سلطنت عمان کے ذریعے دنیا سے تجارتی تعلقات قائم کرنے کی اجازت نہ دی جائے؟! موجودہ صورتحال خطرات کی نشاندہی کرتی نظر آرہی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button