مقالہ جات

سانحہ اہواز، امریکہ اور اسکے حواریوں کا ردعمل

ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے تقریباً اڑھائی برس بعد عالمی استعماری طاقتوں کے ایماء پر عراق نے ایران پر اچانک حملہ کر دیا۔ یہ حملہ 22 ستمبر 1980ء کو کیا گیا۔ بدقسمتی سے یہ جنگ 8 برس تک جاری رہی۔ اس وقت عراق میں صدام حسین کی حکومت تھی، جبکہ ایران میں امام خمینی کی رہبری میں امریکی اتحادی شاہ ایران کے زوال کے بعد نئی نئی اسلامی حکومت قائم ہوئی تھی۔ اسی جنگ کو ایران میں دفاعِ مقدس کے نام سے جانا جاتا ہے اور ہر سال 22 ستمبر سے ایک ہفتہ تک ہفتہ دفاعِ مقدس کے عنوان سے مختلف تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ 22 ستمبر 2018ء کو اسی سلسلے کی ایک تقریب ایران کے صوبہ خوزستان کے صدر مقام اہواز میں منعقد ہو رہی تھی، جس پر چند دہشتگردوں نے جو متصل پارک میں چھپے ہوئے تھے، اچانک نمودار ہو کر سلامی کے چبوترے کے پیچھے سے حملہ کر دیا۔ ابتدائی طور پر کہا گیا کہ یہ ایرانی سپاہ پاسداران کی وردی میں ملبوس چار افراد تھے۔ تاہم تازہ ترین رپورٹ کے مطابق یہ کل پانچ افراد تھے، جن میں سے چار جوابی کارروائی میں مارے گئے۔ بعدازاں ایرانی ایجنسیوں نے ان کے 22 سہولت کاروں کو گرفتار کر لیا اور ان سے بہت سا اسلحہ بھی برآمد کر لیا ہے۔

کلاشنکوفوں سے کی جانے والی اچانک اور اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں بہت سے افراد شہید ہوگئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق شہید ہونے والوں کی تعداد 29 ہے جبکہ 60 افراد زخمی ہوئے۔ ان میں بڑی تعداد عام شہریوں کی تھی، جو پریڈ دیکھنے کے لئے موجود تھے۔ ان شہداء میں بچے، عورتیں اور بزرگ بھی شامل ہیں۔ پریڈ میں شامل چند فوجی جوان بھی حملے میں شہید ہوئے۔ اس حملے کی ذمہ داری ابتداء میں تحریک الاحوازیہ کی طرف سے قبول کی گئی۔ سپاہ پاسداران کی طرف سے ابتدائی ردعمل میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق تحریک الاحوازیہ سے ہے، جسے سعودی عرب وسائل مہیا کرتا ہے۔ تاہم بعدازاں داعش نے بھی اس حملے کی ذمہ داری قبول کی، داعش نے اس سلسلے میں ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے، جس میں 2 افراد عربی بول رہے ہیں اور ایک شخص فارسی میں گفتگو کر رہا ہے۔ تاہم عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق ویڈیو سے ان افراد کا داعش سے تعلق ثابت نہیں ہوتا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ تحریک الاحوازیہ ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے ہی خوزستان کی علیحدگی کے لئے سرگرم عمل ہے اور پاکستان کے بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی طرح وقتاً فوقتاً دہشت گردانہ کارروائیاں کرتی رہتی ہے۔ 8 سالہ ایران عراق جنگ کے دوران بھی الاحوازیہ عراق کے صدام حسین کی حمایت میں کارروائیاں کرتی رہی ہے۔ گذشتہ برس بھی الاحوازیہ نے شہداء کی قبور کی زیارت کے لئے آنے والے قافلوں پر حملے کئے تھے۔ دہشتگردی کی اس ہولناک واردات پر پوری دنیا میں عمومی طور پر غم و غصہ کا اظہار کیا گیا ہے اور بہت سے ممالک نے سرکاری سطح پر اس حملے کی مذمت کی ہے۔ ان میں پاکستان، قطر، کویت، عمان، مصر، امریکہ، برطانیہ، فرانس، ترکی، شام، روس، وینزویلا، آذربائیجان، افغانستان، انڈونیشیا، فلپائین اور دیگر بہت سے ممالک شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی اس واقعے پر اظہار افسوس کیا ہے اور دہشتگردی کی مذمت کی ہے۔ تہران میں موجود جرمنی کے سفیر نے بھی اس حادثے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دہشتگردی کی مذمت کی ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ علاقے میں موجود بعض اہم عرب ممالک نے اس واقعے کی مذمت نہیں کی، جن میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین قابل ذکر ہیں۔

ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے اس حملے کے بعد اپنے ایک پیغام میں کہا کہ اہواز کا حملہ اس علاقے میں امریکی پٹھو حکومتوں کی سازشوں کا تسلسل ہے، جنھوں نے ہمارے وطن عزیز میں بے امنی کو اپنا ہدف قرار دے رکھا ہے۔ ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے اس افسوناک واقعے پر مختلف مواقع پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے فوری ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ واضح ہے کہ یہ کام کس گروہ نے کیا ہے اور وہ کس سے وابستہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ خلیجی ملک امریکی پشت پناہی میں ایران مخالف گروہوں کو عسکری اور مالی امداد دے رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ خطے میں چھوٹے کٹھ پتلی ملکوں کی پشت پناہی کر رہا ہے، انہیں اشتعال دلا رہا ہے اور انہیں ضروری وسائل سے لیس کر رہا ہے۔ ایران سے اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لئے روانہ ہوتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہید ہونے والے بچوں کو آج سکول جانا تھا اور شہید ہونے والے ماں باپ نے اپنے بچوں کو آج سکول جانے کے لئے تیار کرنا تھا۔

یہ امر باعث افسوس ہے کہ اس خونی اور جانکاہ حادثے کے بعد متحدہ عرب امارات کے ولی عہد کے مشیر عبدالخالق عبداللہ نے اس حملے پر سماجی رابطوں کی سائٹ ٹویٹر پر اپنے اکاﺅنٹ میں لکھا کہ ایران کے جنوب مغربی شہر اہواز میں فوجی پریڈ پر حملہ جس میں 10 فوجی مارے گئے ہیں، میں ایک فوجی ہدف کو نشانہ بنایا گیا ہے، جو دہشت گردانہ کارروائی نہیں اور جنگ کو ایران کی سرزمین کے اندر لے جانا ایک اعلانیہ آپشن ہے، ایسے کاموں میں اگلے مرحلوں میں اضافہ ہوگا۔ اس سلسلے میں یہ بات اہم ہے کہ کچھ ہی عرصہ قبل سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہم جنگ ایران کی سرزمین کے اندر لے جائیں گے۔ ویسے تو بظاہر امریکہ نے اس واقعے کی مذمت کی ہے، لیکن دوسری طرف امریکہ کی اقوام متحدہ میں سفیر نکی ہیلی نے اس واقعے پر یہ کہنا بھی ضروری سمجھا کہ ایرانی حکمرانوں کو ملک کے اندر بدامنی کی وجوہات کے بارے میں سوچنا چاہیئے۔ انہوں نے ایرانی حکام کے بارے میں کہا کہ انہوں نے اپنے لوگوں کو بہت لمبے عرصے سے دبا کر رکھا ہوا ہے۔ انہیں اپنے گھر میں دیکھنا چاہیئے کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے، میرے خیال میں ایرانی عوام تنگ آچکے ہیں اور یہ اسی کا ردعمل ہے۔

ایک طرف تو امریکہ اور اس کے حواری ایرانی حکومت پر الزامات لگا رہے ہیں، دوسری طرف امریکہ کی طرف سے دہشتگردی کی مذمت بھی ہو رہی ہے، لیکن یہ امر بھی حقیقت رکھتا ہے کہ امریکہ مسلسل ایران کا ناطقہ بند کرنے کے لئے سرگرم عمل ہے۔ اعلانیہ طور پر ایرانی حکومت کے خاتمے کے لئے اس نے فنڈ کا اعلان کر رکھا ہے، جس کی منظوری وہ اپنے ریاستی اداروں سے لے چکا ہے۔ تاہم خوزستان پر اس کی خصوصی نظر کی بہت سی وجوہات ہیں، جن کا اظہار امریکہ کے نیشنل سکیورٹی کے مشیر جان بلیٹن کے اگست 2017ءکے اس مضمون سے بھی ہوتا ہے، جو نیشنل ریویو میں شائع ہوا، جس میں انہوں نے لکھا کہ ایران میں قائم نظام کے خاتمے کے لئے خوزستان اور کردستان سے کام شروع کرنا چاہیئے۔ خوزستان چونکہ عربی بولنے والوں کی اکثریت کا علاقہ ہے، اس لئے ایران مخالف عرب ممالک بھی اسے عرب نیشنل ازم کو ہوا دینے کے لئے آسان ہدف سمجھتے ہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کی رائے میں اس واقعے کا وقت بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ایک طرف اقوام متحدہ کی جنرل کونسل کا سالانہ اجلاس جاری ہے، جس میں دنیا بھر کے قائدین شرکت کرتے ہیں اور اگلے ہی روز ایرانی صدر کو بھی اس میں شرکت کے لئے روانہ ہونا تھا، دوسری طرف عشرہ محرم الحرام کے بعد دنیا بھر میں اربعین حسینیؑ کے موقع پر کربلا میں حاضری کے لئے ایک ولولہ پیدا ہو جاتا ہے اور زائرین کی کثیر تعداد ایران عراق سرحد سے ہی زیارت کے لئے داخل ہوتی ہے۔ اس بات کو گذشتہ روز جنرل اسمبلی سے امریکی صدر ٹرمپ کے خطاب سے تقویت ملتی ہے، جس میں انہوں نے ایرانی حکومت پر طرح طرح کے الزامات لگائے اور اس قدر جھوٹ بولے کہ ان کے سامنے بیٹھے ہوئے بہت سے عالمی راہنماء اپنی ہنسی اور مسکراہٹ کو چھپا نہیں سکے۔ یہاں تک کہ امریکی صدر کو کہنا پڑا کہ مجھے اس ردعمل کی توقع نہیں تھی لیکن خیر ہے۔ انہوں نے ایران کو دھمکیاں بھی دیں اور اس کا دانہ پانی بند کرنے کا پھر سے اعلان کیا۔ جواب میں ایران صدر نے کہا کہ بین الاقوامی سکیورٹی امریکہ کے داخلی مسائل کا بازیچہ اور کھیل نہیں، امریکہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس طاقت ہے، اس لئے حق پر بھی وہی ہے۔

اگر ہم ماضی کے واقعات پر نظر ڈالیں اور یہ دیکھیں کہ ایران عالمی طاقتوں اور خطے میں ان کے رجعت پسند دوستوں کی مسلسل کوششوں کے باوجود 8 سالہ جنگ سے کامیابی سے نکل آیا، ایران کے اندر استعماری پٹھوﺅں کے ہاتھوں ہونے والی ہولناک اور مسلسل دہشتگردی کے نتیجے میں سولہ ہزار سے زیادہ افراد کی شہادت کے باوجود اس نے امریکہ کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے، عراق جو کبھی اس کے سامنے صدام حسین کی قیادت میں معرکہ زن تھا، آج اسی کو دہشتگردی سے نجات دلانے میں ایران پیش پیش رہا ہے اور خطے میں اس کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے، جبکہ امریکہ اور اس کے حواری مختلف محاذوں پر شکست کھا رہے ہیں تو یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آخرکار داعش ہو یا الاحوازیہ تمام دہشتگرد گروہ نامراد ہوں گے۔ الاحوازیہ کو تو خاص طور پر سمجھنا چاہیئے کہ جب وہ ہمسائیگی میں صدام حسین جیسی حکومت کے ہوتے ہوئے مسلسل ناکام رہی ہے تو اب اس وقت خطے کی بدلی ہوئی صورتحال میں وہ کیسے کامیاب ہوسکتی ہے۔ ایران نے تو عراقی کردستان کو عراق سے علیحدہ ہونے کی اجازت نہیں دی، وہ اپنے خطوں کی کیونکر حفاظت نہیں کرے گا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button