مقالہ جات

مشرقی وسطی میں تیسری عالمی جنگ کی آہٹ ؟؟؟؟

شام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ رہا ہے، سب کچھ ختم ہونے والا ہے، پر امن طریقے سے یا پھر جنگ سے، شامی فوج ادلب پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہی ہے، اسے ایران اور روس کا تعاون حاصل ہے، اس کے ساتھ ہی حزب اللہ بھی اس کی مدد کے لئے تیار ہے۔

بحیرہ روم میں روس کے 25 سے زائد جنگی بیڑے پہنچ چکے ہیں جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ شام میں دہشت گردوں کے آخری ٹھکانے پر شامی فوج کی کاروائیوں کو روکنے کے لئے امریکا کے ممکنہ اقدام کا مقابلہ کرنے کے لئے ہیں۔

جس طرح سے بحیرہ روم اور خلیج فارس میں امریکا اور روس کے جنگی بیڑوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اس سے صاف محسوس ہو رہا ہے کہ دنیا کی یہ دونوں بڑی طاقتیں، علاقائی اور عالمی تصادم کے لئے جنگی بیڑوں کی تعداد بڑھا رہی ہیں۔
روس نے چین کے ساتھ مل کر بحیرہ روم میں اتنی بڑی فوجی مشقیں کی جس کی مثال گزشتہ 40 برسوں میں نہیں ملتی اور اسی وجہ سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ امریکا سے اس کا تصادم ممکن ہے۔ در اصل روسی قیادت نے حالات کو سمجھ لیا ہے اور وہ شام میں اپنی کامیابیوں کی قربانی کے لئے ہرگز تیار نہیں ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حوالے سے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ صدر بشار اسد کو ادلب پر حملہ نہیں کرنا چاہئے اور اس انسانی المیے میں روسی اور ایرانیوں نے شرکت کی تو بہت بڑی غلطی ہوگی کیونکہ اس میں لاکھوں افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔
امریکی صدر کے اس ٹویٹ سے جنگی کی آہٹ سنائی دے رہی ہے خاص طو پر اس لئے بھی کہ اس ٹویٹ کا جواب روسی صدر کے ترجمان نے دیا اور دھمکیوں کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے تاکید کی کہ ادلب میں مسلح افراد کی موجودگی کی وجہ سے شام میں قیام امن کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی رہی ہیں اور وہ ادلب کو روسی کے خلاف حملوں کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔

ٹرمپ نے غوطہ اور درعا کی آزادی کے لئے شامی فوج کی کاروائی کے وقت اس طرح کی دھمکی نہیں دی تھی بلکہ ان کی حکومت نے خاموشی اختیار کرکے ایک طرح سے موافقت ظاہر کی تھی، تو پھر اس بار ٹرمپ نے کیوں اس طرح سے دھمکی دی؟
اس سوال کا جواب دو تجزیہ نگاروں نے دیا ہے جن میں ایک امریکی اور دوسرا برطانوی ہے۔ ان دونوں نے ایک ہی بات کہی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب نے ٹرمپ کو اس طرح کا رخ اختیار کرنے کی ترغیب دلائی ہے کیونکہ یہ دونوں نہیں چاہتے کہ روس، ایران اور شام کے اتحاد کو کامیابی ملے۔

اسرائیل، شام سے ایران کو باہر نکالنے میں ناکام رہا ہے اور روس پر دباؤ ڈالنے کا اس کا مطالبہ بھی مؤثر نہیں رہا ہے اس لئے اسے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ادلب کو لے کر امریکی حملہ اس کے لئے آخری موقع ہے اور ہمیں تو لگتا ہے کہ اس بارے میں جان بولٹن کے حالیہ اسرائیل دورے کے دوران گفتگو ہوئی ہوگی۔
اس کی ایک علامت اسرائیلی وزیر جنگ کی دھمکی ہے جس میں انہوں نے ایرانی ٹھکانوں کو شام سے باہر بھی نشانہ بنائے جانے کی بات کہی ہے۔ مزہ ائیرپورٹ پر حالیہ حملہ بھی اسرائیل کے اسی الم کو بیان کرتا ہے۔

آنے والا دن بہت اہم ہوگا، اگر سیاسی سطح پر کوئی اتفاق نہیں ہو پایا تو یقینی طور پر جنگی ہوگئی تو بہت وسیع بھی ہو سکتی ہے۔ جمعے کو تہران میں روس ، ترکی اور ایرانی کا اجلاس، جنگ کا اجلاس بھی ہو سکتا ہے کیونکہ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ سنیچر سے شامی فوج ادلب میں کاروائی شروع کر سکتی ہے۔

ہماری دعا ہے کہ کوئی بھی سیاسی حل برآمد ہو، ہم دل پر ہاتھ رکھ کر حالات کا انتظار کر رہے ہیں، انے والے ایام، شام کے لئے بہت اہم ہیں اور جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ انہیں اگلے کچھ دنوں میں مشرق وسطی کا مستقبل بھی تعین ہو سکتا ہے۔

بشکریہ

رای الیوم

عبد الباری عطوان، مشہور عرب تجزیہ نگار

متعلقہ مضامین

Back to top button