مقالہ جات

ملائم ڈیپلومیسی ،مضبوط ڈیفنس نے سب کو مات دی ایک تفصیلی رپورٹ اور تجزیہ

ٹرائیکا اٹیک ،ہمارے لئےصورتحال ویسی کی ویسی ہے
دنیا بھر کے نیوٹرل تجزیہ کار اور حتی کہ امریکی پالیسی کو فالوکرنے والا میڈیا بھی ایک حدتک مجبور ہورہا ہے کہ شام پر ٹرئیکا اٹیک کے نتائج پر کھل بات کرے کہ اٹیک ٹرئیکا نے کیا لیکن فتح مد مقابل کی ہوگئی
جہاں اس فتح میں روسی ایرانی ملائم ڈیپلومیسی شامل رہی ہے تو دوسری جانب شام جیسے جنگ زدہ ملک کی ڈیفنس کا شاندار کردار شامل رہا ہے ۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ڈیپلومیسی اور عالمی سیاست کی دنیا میں مزاحمتی بلاک بغیر کوئی بھاری قیمت دیے غالب رہا ہے ۔
جبکہ ٹرائیکا کو بحیرہ احمر میں جس قدر ملٹری مومنٹ کرنی پڑی ہے صرف اسی کا خرچہ دیکھا جائے تو اس کے عشرہ عشیر بھی شام کا مادی نقصان دیکھائی نہیں دیتا جبکہ مارے جانے والے میزائل کی قیمت اربوں ڈالر کو چھو سکتی ہے ۔
مزاحمتی بلاک مختلف شکل صورت کے چلینجز کا اس قدر سامنا کرچکا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ بحران کو کیسے رام کیا جانا چاہیے جبکہ زمین پر اپنی برتری کو کیسے قائم رکھا جائے جو اس وقت شام کے مسئلے میں بنیادی کردار رکھتی ہے ۔
عالمی قانونی فورمز کو جس انداز سے مزاحمتی بلاک نے استعمال کیا ہےوہ بھی نہ صرف اپنی مثال آپ ہے بلکہ اس نے ایک بار پھر سے دنیا پر واضح کردیا ہے کہ کون ہے جو عالمی قوانین کو روندتا ہے اور اسےذاتی فائد ے کے لئے استعمال کرتا ہے ، کون ہے جو دنیا کے امن و سکون کو خطرے میں ڈالنے کے اقدامات کرتا ہے ۔
شام میں تین ملکی ناکام میزائل حملے کے بعد کی صورتحال اس قدر تیزی کے ساتھ سیاسی اور طاقت کے توازن کے میدانوں میں بدلتی جارہی ہے کہ اب تو اسرائیلی عسکری ماہرین اور تجزیہ کار بھی خود اپنے میڈیا میں بیٹھ کر کہنے لگے ہیں کہ ’’یہ حملے صرف اپنی ساکھ کو باقی رکھنے کے لئے انجام دیے گئے تھے،وہ حملہ بھی کررہے تھے اور پیوٹن سے خوفزدہ بھی تھے ،ہمیں انہوں نے مزید خطرے میں ڈال دیا ،اس سے ہماری تنہائی میں اضافہ ہوگا ‘‘
یدیعوت احرنوت اخبار میں اسرائیلی فوج میں ریزروجنرل اورقومی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ
Giora Eilandلکھتا ہے کہ امریکی جلد بازی کے سبب مجھے میزائل حملوں کے مثبت نتائج پر شک ہے ،وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں ‘‘
عرب میڈیا اخبار Yedioth Ahronothتل ابیب میں فوجی غیر سرکاری ترجمان، الیکس فشمن کی یہ بات نقل کررہا ہے کہ ’’صورتحال ویسی کی ویسی ہے ہم لوٹ کر پہلی جیسی سچوئشن میں آگئے ،اسرائیل ایران کے ساتھ مقابلے کے لئے اکیلا ہی میدان میں رہ گیا ہے ،اور اس وقت صورتحال بالکل بھی اچھی نہیں ہے ‘‘۔
اسرائیلی تجزیہ کارشام کے T4ائرپورٹ پر اسرائیلی طیارے کے میزائل اٹیک میں سات ایرانی عسکری مشاورین کے مارے جانے کے بعد کی صورتحال کے بارے میں لکھتا ہے کہ ’’اسرائیلی عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ ایران مقبوضہ جولان کی پہاڑیوں یا لبنان کے شعبا فارمز کے پاس پانچ کلومیٹر کے فاصلے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کورنٹ Cornettمیزائل داغ سکتا ہے ،ایرانی ڈرون طیاروں کے بھی حملے کرسکتے ہیں ،وہ مزید لکھتا ہے کہ اسرائیلی بڑے خبردار کررہے ہیں کہ ایرانی حملے میںاگر بڑا جانی نقصان ہوجاتا ہے تو ایک بڑی جنگ چھیڑ سکتی ہے ‘‘۔
دوسری جانب انہیں اس وقت اس بات کا بھی خوف لاحق ہوچکا ہے کہ روس اور شام میں ایس 300جیسا اہم میزائل سسٹم کا سودا نہ ہوجائے جیساکہ روسی کہہ چکے ہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ اس وقت اسرائیل کی سب سے بڑی پریشانی دو مسئلوں میں خلاصہ ہورہی ہے
الف:امریکہ کا شام سے اپنی فوجیں نکالنا
ب:شام کو روس کی جانب سے ایس 300دیا جانا جیساکہ روسی وزارت دفاع نے اعلان کردیا ہے کہ شام پر تین کے میزائل حملے کے بعد اب وہ روکاوٹ ختم ہوچکی ہے جو پہلے موجود تھی ۔
عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی اخبار ہارٹز میں امریکی امور کا تجزیہ کارہیمی شیلیف کا کہنا ہے کہ شام پر ٹرئیکا اٹیک نے بشار اسد کی مقبولیت میں اضافہ کردیا ہے اور اس اٹیک میں یہ اسد ہے جو فاتح بن کر سامنے آیا ہے اور عرب رائے عامہ اس وقت اسد ایک فاتح ہے ‘‘
ادھر اسرائیلی گھبراہٹ کا عالم یہ ہے کہ سابق خارجہ انٹیلی جنس سروس کا سربراہ کا کہنا ہے کہ ’’جو صورتحال پیدا ہوئی ہے وہ اچھی نہیں ایران ہماری سرحد کے اس قدر قریب آچکا ہے کہ یہ ایک زلزلہ سے کم نہیں ،یہ سب روس کے سبب ممکن ہوا ہے ،اور شائد ہمارا روس کے ساتھ بھی تصادم ہوسکتاہے ‘‘
دوسری جانب میڈیا انکشاف کررہا ہے کہ شام نے ڈیفنس کے لئے جن اینٹی ائرکرافٹ سسٹم کو استعما کیا اس میں سے ایک اہم سسٹم روسی ساختہ پینٹیر S1تھا جیسے چند ماہ قبل ہی روس نے شام کے حوالے کردیا تھا

متعلقہ مضامین

Back to top button