مقالہ جات

جارحیت کے 3 سال ،انصار اللہ ایک بڑی قوت بن کر ابھرآئی

ایک مختصر رپورٹ اور تجزیہ
26مارچ کو یمن پر جارحیت کے تین سال مکمل ہونگے اور یوں اس وحشیانہ جارحیت کے چوتھے سال کا آغاز ہوگا ۔
تو ان تین سالوں میں سعودی اتحاد نے یمن میں کیا پایا اور کیا کھویا ؟
منصور ہادی کی حکومت کی بحالی کے نعرے سے شروع کردہ اس جارحیت نے اپنے اہداف حاصل کرلئے ؟
عرب میڈیا میں نشر ہونے والی رپورٹس کے مطابق
آج صورتحال ایسی ہے کہ سعودی عرب کے سرحدی علاقے جیزان کے ایک بڑے حصے پر یمن کے انصار اللہ کا کنٹرول ہے جبکہ وہ دوسرے اہم علاقے نجرن کو کسی بھی وقت کنٹرول میں کرنے کے لئے مکمل طور پر تیار قیادت کے سگنل کے منتظر دیکھائی دیتے ہیں ۔
جنگ کا ہر گذارتا لمحہ سعودی افواج کے وقار کو بری طرح مجروح کررہا ہے جو مسلسل شکست کا سامنا کررہی ہیں ۔
گذشتہ تین سالوں میں یمنیوں نے سعودی عرب کے علاقے نجران کے آٹھارہ کلومیٹر مربع پر قبضہ کرلیا ہے جبکہ اس کے 127سے قریب ابراہم اور برڈلی ٹینک تباہ کئے ہیں ،عملے سمیت تباہ ہونے والی بکتر بند گاڑیوں بلڈوزرکی تعداد ایک الگ کہانی رکھتی ہے ۔
اس دوران وہ 180سے زائد سعودی فوجیوں کے ٹھکانوں بشمول اہم کمانڈ اینڈکنٹرول کے مراکز اسلحہ ڈپو کو تباہ کرچکے ہیں ۔
خود سعود میڈیا کے مطابق صرف اس سال جنوری سے لیکر مارچ تک یمنی سرحدکے سعودی علاقے میں 87سعودی آفیسر اور سپاہیوں کے مارے جانے کی اطلاع ہے ۔
آزاد زرائع کے مطابق اس جنگ میں اب تک سعودی عرب کے پانچ ہزار سے زائد فوجی اور آفیسرز مارے گئے ہیں ۔
امریکی ویب سائیٹ ڈیفنس ون کے مطابق سعودی عرب اپنے ملک کے جنوبی حصے میں تباہ ہونے والے ٹینکوں کے خلا کو پر کرنے کے لئے مزید ڈیڑھ سو ابراہم ٹینک امریکہ سے خریدنے جارہا ہے ۔
جبکہ اس دوران یمنی سودیت یونین کے زمانے کے اسلحے سے سعودی اتحاد کے کئی فائٹر طیاروں کو گرانے میں کامیا ب ہوئے ہیں ۔
اس دوران یمنی فو ج اور عوامی رضاکار کے ٹیکنکل یونٹ نے 11کے قریب سعودی اتحاد کے ڈرون طیاروں کو ہیک کرکے لینڈ کرنے پر مجبور کردیا ہے
واضح رہے کہ یہ ایسے جاسوس ڈرون طیارے تھے جو زمین پر پڑی سیگریٹ کی پیکٹ تک کو پرکھ سکتے تھے ،لیکن یمنی فوج اور عوامی رضاکار فورس کی ٹیکنکل ٹیم انہیں بڑی آسانی کے ساتھ ہیک کرنے میں کامیاب ہوئی ۔
کینڈا کی مشہور زمانے سنائپر گن کی ایک بڑی تعداد کو یمنی سعودی افواج سے چھینے میں کامیاب رہے ہیں کہا جارہا ہے کہ آج ان گنوں کی ایک بڑی تعداد یمن کے پاس موجود ہےکہ جسے سعودی علاقے نجران، عسیر اور جیزان کے سعودی مورچوں سے حاصل کی ہے
سعودی فوج کے کنٹرول ٹاور اور مورچوں سے حاصل کی جانے والی یہ سنائپر گن لیزر سے لیس اور 2800میٹر تک ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔
صرف یمن کے میدی صحرامیں مار ے جانے والے سعودی نواز فوجی سپاہیوں اور آفسروں کی مشترکہ تعدادساڑھے نو سو سے زائد جبکہ زخمیوں کی تعداد تین ہزار بتائی جارہی ہے جن میں سے 360ایسے اپاہیج فوجی بھی شامل ہیں جن کا علاج اس وقت کنگ سلمان ریلیف سینٹرفار اسپیشل ہیلب میں چل رہا ہے
جبکہ میڈی صحرا کے شمال میں سوڈان کی کرائے کی فوج کے 500سے زائد فوجیوں کے مارے جانے کی اطلاع ہے ۔
سعودی عرب کی افواج کی کارکردگی اس قدر صفر ہے کہ وہ اپنی سرحد کی حفاظت میں بھی بری طرح ناکام دیکھائی دیتیں ہیں یہی وجہ ہے کہ یمن سے القاعدہ اور داعش سوچ کے حامل افراد پر مشتمل ایک نئی فورس کو یمن کے علاقے مارب میں تربیت دی گئی اور نہیں سعودی سرحدی علاقوں میں تعینات کیا گیا ہے ۔
لبنانی نیوز پیپر الاخبار کا کہنا ہے کہ سعودی سرحدی علاقے نجران عسیر اور جیزان سعودی افواج کی متقل گاہ میں بدل چکے ہیں جبکہ میڈی صحرا کا علاقہ سعودی نواز صدر منصور ہادی کی افواج کے خون میں لت پت دیکھائی دیتا ہے ۔
اخبار لکھتا ہے کہ جنوبی یمن میں سعودی اتحادیوں کو انتہائی محدود کامیابی کی بھاری جانی اور مالی قیمت چکانی پڑی ہے ۔
دوسری جانب سعودی اتحاد میں شامل قوتوں کی آپسی اعتماد کا فقدان ہے کہ دن بدن گہرا ہوتا جارہا ہے جبکہ اس اتحاد میں شامل دو مرکزی ملک سعودی عرب اور امارات بھی مسلسل ناکامی کے بعد ایک دوسرے پر الزام تراشی کے ساتھ ساتھ ذاتی مفادات کی کشمکش میں لگ چکے ہیں
اخبار کے مطابق یمن کے جس حصے میں اماراتی فورسز کا قبضہ ہے وہ حصہ امریکی اور اماراتی جاسوسوں کی آماجگاہ بن چکا ہے جو یمنی شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ اور بے جارگرفتاریوں اور ٹاچرز سے اپنی پوزیشن کمزور کرتے جارہے ہیں ۔
ان تین سالوں کو اگر بغور دیکھاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ باجود روزانہ کی بنیاد پر درجنوں حملوں اور ممنوعہ ترین اسلحے کے استعمال اور مکمل محاصرے کے باجود انصار اللہ نے اپنی دفاعی قوت اورٹیکنکل صلاحیتوں میں واضح طور پر اضافہ کیا ہے ۔
گرچہ یمنیوںخاص کر حوثیوں کی تاریخ استقامت ،وفاداری اور شجاعت سے بھری پڑی ہے لیکن
قبائلی خوئی، ظاہری شکل و صورت اور چال ڈھال سے کوئی بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ وہ اس قدر جدید ٹیکنالوجی سے نہ صرف لیس ہونگے بلکہ اس کے بہترین استعمال کو بھی جانتے ہونگے ۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ایک طرف جہاں یمن کی اس جنگ نے سعودی اتحاد کی جنگی صلاحیتوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے وہیں پر انصار اللہ کے بارے میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انصار اللہ خطے کی ایک ایسی بڑی قوت ہے جو اگر دفاع سے نکل کر اٹیک کرنے کا سوچ لیتی ہے تو صرف چند ہفتوں میں دارالحکومت ریاض اور ابوظبی تک اسے پہنچنے میں کچھ زیادہ دقت پیش نہیں آئے گی ۔
اس جماعت کی جوان سال قیادت نے سیاسی اور عسکری میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کو منوالیا ہے اور کہا جارہا ہے کہ اس وقت عسکری و سیاسی ماہرین اس جوان سال قیادت کی سوچ اور حکمت عملیوں پر ریسرچ کرنے لگے ہیں ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button