مقالہ جات

اللہ والوں کو ،ڈی کوڈ کرنے کی کوشش

ڈی کوڈینگ حزب اللہ 27فروری2018 کو ابوظبی کے امارات پالیسی سینٹرمیں منعقدہ ایک کانفرنس اور نشستوں کا وہ عنوان ہے کہ جس میں امریکی یورپی اور عرب ممالک بشمول لبنان کے دانشوروں ،قلم کاروں ،پروفیسروںسیاستدانوں اور ماہرین نے شرکت کی ۔
اس دو روزہ کانفرنس اور نشستوں میں لبنانی جماعت حز ب اللہ کی ساخت اور ڈھانچے،اس کے مقامی اور علاقائی منصوبے اور مقاصد و اہداف کو موضوع بحث لایا گیا ۔
تو کیا وہ اس کانفرنس اور نشستوں میں اس جماعت کی مضبوطی کے اسباب اور کامیابی کے رازوں کو ڈی کوڈ کرسکے ؟
کیا اس نشست میں وہ راز کھل سکے کہ جس کے پچھے نہ صرف علاقائی و عالمی قوتوں کے مقابل مکمل کامیابی کے ساتھ کھڑی اور تسلسل کے ساتھ بری طرح شکست سے دوچار کرنے والی یہ جماعت پوشیدہ ہے؟
وہ کامیاب ہوچکے ہوں یا نہیں لیکن اس کانفرنس اور نشستوں سے ان کے خطرناک عزائم سامنے ضرور آئے ہیں جو نہ صرف اس جماعت کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں بلکہ اس نظریے اور عقیدے کے افراد کے لئے بھی انتہائی اہمیت کے حامل ہے جس کی تعلیمات کے بطن سے اس جماعت نے جنم لیا ہے
اس دو روزہ کانفرنس کی میزبان اور امارات پالیسی سنٹر کی انچارچ ابتسام الکتبی نے اپنے افتتاحی کلمات میں جو کچھ کہا اس سے واضح ہو رہا تھا کہ اس اجلاس کااصل مقصد کیا ہے
ان کا کہنا تھا کہ لبنانی جماعت حزب اللہ لبنان سے نکل کر ایک عالمی کھلاڑی میں بدل چکی ہے اور اب وہ عالمی سطح پر ایک تاثیر رکھتی ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ان نشستوں میں وہ حزب اللہ کی آئیڈیا لوجکل بنیادپر روشنی ڈالنے کی کوشش کرینگے ،نیز اس جماعت کی قیادت، تنظیمی ڈھانچہ، سیاسی اور عسکری کردار، اور اس کے مقاصداوران مقاصد کے حصول کے لئے ان کے طریقہ کارپر تحقیق اوراس کے مذہبی بیگ گرونڈ اور پہچان پر گفتگو ہوگی ۔
الف:اس سے پہلے بند کمروں اور خفیہ مراکز میں اس قسم کی ابحاث کی جاتیں تھیں اور ڈی کوڈ کرنے کی کوشش کی جاتیں رہی ہیں لیکن یہ پہلی بار ہے کہ کھلے عام ایک مسلم عرب ملک میں اس طرح کی ایک کانفرنس منعقد ہوگئی ہے ۔
ب:اس کانفرنس اور اجلاسوں میں کہا گیا کہ حزب اللہ کی قوت اس کے مذہب میں ہے لہذا ہمارا فوکس اس پر ہونا چاہیے ۔
شیعہ پہلے سے سامراجی ہتھکنڈوں کو جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کیونکہ بعض افراد کو شیعہ شناخت دے کردرجن بھر ٹی وی چینل کھولے خود شیعہ مسلک کیخلاف بھڑکانے کی کوشش کی جارہی ہے جیسا کہ سنی بھائیوں کو عالمی سامراجیت کے حامی بنانے کی کوشش بھی اسی طرح جاری ہے ۔
وہ کہتے ہیں عرب شیعوں کی عربی شناخت کو واپس بحال کرنے کے لئے ضروری ہے کہ شیعہ شناخت پچھے دھکیل دی جائے ۔
اس اجلاس میں امریکہ سے آئے ہوئے مشرق وسطی امور سے متعلق ادارہ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے ایک ماہرمائیکل کا کہنا تھا کہ ’’یہ جماعت اپنے وجود کو باقی رکھنے کے لئے مزاحمت کا نعرے لگاتی ہے ،ہمارے مطالعات سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ اس جماعت میں موسوی خاندان ان خاندانوں میں سے ہے کہ جنہوں نے سب سے بڑا اور اہم کردار اس جماعت میں ادا کیا ہے یہاں تک کہ اس خاندان کا ایک فرد جماعت کا سیکرٹری جنرل بھی بن گیا تھا‘‘
وہ آل سید شریف الدین عبدالحسین الموسوی کے خاندان کی بات کررہا تھا کہ کہ جن کے خاندان نے صدیوں پہلے اس وقت کے حکمرانوں کے ظلم و ستم کے سبب مدینہ و عراق سےلبنان کے علاقے جبل عامل ہجرت کی تھی ۔
سید موسی صدر ، باقرالصدر سے لیکر سید عباس موسی تک کا تعلق اسی سلسلہ سادات موسی سے ہے
بعض افراد نے اس نشست میں یہ تک کہا کہ حزب اللہ کو ختم کرنے کے لئے لبنان میں شیعیت کاہی خاتمہ کردو جبکہ بعض نے کہا کہ لبنانی شیعوں سے ان کی درست مذہبی شناخت کا خاتمہ کردو ۔
ج:وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ آج یہ سوچ شام عراق،فلسطین اور یمن تک پھیل چکی ہے
فلسطین میں موجود مزاحمت کا عنصر اسرائیلی ظلم و ستم اور ناجائز قبضے کے سبب ہے جیسا کہ یمن ،شام عراق میں مزاحمت کا پہلو اس وقت نمایاں ہوا جب یہاں پر ظلم و ستم اور پھر دہشتگردوں کو لاکر بسایا گیا ۔
لہذا جہاں ظلم ہوگا جہاں سامراجیت ہوگی وہاں مزاحمت کا جنم لینا اور پھر قوت پکڑا لینا ایک طبعی بات ہے
د :ان کا کھلے لفظوں کہنا تھا کہ انہیں اس جماعت کے اسلحے سے زیادہ سیاسی عمل سے خطرہ ہے خاص کر اس پر فوکس سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا دیکھائی دیتا ہے ۔
بعض افراد نے اس نشست میں کہا کہ اس جماعت کیخلاف ایک عالمی اور عربی مشترکہ فورم بنناچاہیے ۔
سوال یہ ہے کہ کیا مذہبی جماعتوں کو سیاسی عمل میں شامل ہونے کا کوئی حق نہیں ہے ؟
کیا جمہوریت کی تعریف میں اب اس بات کا اضافہ کرناہوگا کہ جمہوریت یا تو مورثی بادشاہت ہے عرب خلیجی ملکوں کی طرح یا پھر غیر مذہبی پارٹیاں ہیں ۔
ادھر دوسری جانب امارات میں ہونے والی ان نشستوں کیخلاف مختلف حلقوں کی جانب سے سخت ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے ۔
بہت سے عرب دانشوروں نے اسے عالمی سامراج کی خوشنودی حاصل کرنے کا اقدام سے تعبیر کیا ہے تو بعض کا کہنا تھا کہ یہ بات اب ہر خاص و عام کے لئے واضح ہوچکی ہے کہ خطہ دو بڑے حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے ایک وہ جو عالمی سامراج اور خطے میں اسرائیل کے حامی ہیں اور دوسرا وہ حصہ جو ان کے مد مقابل کھڑا ہے ۔
لبنان سے شرکت کرنے والے سیاسی تجزیہ کار محمد علی مقلد کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں جس وقت دعوت دی گئی تو عنوان سے ہم کچھ اور سمجھ بیٹھے تھے لیکن مجھے کم ازکم ان کے مقاصد کا پوری طرح علم نہ تھا کہ وہ کرنا کیا چاہتے ہیں ‘‘
سوشل میڈیا میں حزب اللہ ڈی کوڈینگ کی خاطر انجام دی جانے والی کانفرنس اور گفتگو کی نشست پر کڑی تنقید دیکھائی دی ۔
ٹیوٹر پر ان نشستوں کے جواب میں لکھا گیا کہ ’’اگر حزب اللہ کو ڈی کوڈ کرنا چاہتے ہو تو پہلے قرآن مجید کی اس آیت ایمان والوں میں سے ایسے آدمی بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اسے سچ کر دکھایا،کی گہری تفسیر کو سمجھو ۔
کسی نے لکھا کہ جس نے تم سب کو ڈی کوڈ کیا اور تمہارے آلہ کار داعش کو ڈی کوڈ کیا ہے اسے تم کیا ڈی کوڈ کرپاوگے ۔جبکہ بعض کا کہنا تھا کہ جسے پوری عالمی صیہونزم ڈی کوڈ نہ کرسکی اسے عیاش بادشاہ کیا ڈی کوڈ کرپاینگے ۔
جبکہ بعض کا کہنا تھا کہ اس اللہ والی اس جماعت کے کوڈ اور راز چودہ سال پہلے کے واقعہ کربلا میں پوشیدہ ہیں جس وقت تم واقعہ کربلا کو سمجھو گے اس دن تم اسے بھی ڈی کوڈ کرپاوگے ،لیکن ہمارا یقین ہے جب کربلا کو سمجھوگے تو تم بھی اس جماعت کایا تو حصہ بنوگے یا پھر اس جیسا بنوگے ۔
خاص اور عام افراد کے جذبات میں موجود گہرائیوں سے ہٹ کر اگر دیکھا جائے تو یہ ہماری آج کی اس مادی دنیا کی ایک کھلی حقیقت ہے کہ انسانی اعلی معیارات اور قدروں کی خاطر جدوجہد کرنا ،ظلم کی چکی میں پسنے والوں کے ساتھ پوری طاقت کے ساتھ خود کو دواو پر لگا کر کھڑا رہنا ایک انہونی بات بنتی جارہی ہے کیونکہ یہ اعلی قدریں آج کی دنیا کے بہت سے افراد کے لئے ناقابل فہم ہیں ۔
ٹیوٹر پر کی جانے والی یہ ٹیویٹ سو فیصد درست ہے کہ اگر کوئی اس جماعت کو ڈی کوڈ کرنا چاہتا ہے تو اسے پہلے قرآن مجید کے کوڈ کو سمجھنا ہوگا اور اگر کوئی قرآن مجید کے کوڈ کو نہیں جانتا تو پھر ان کانفرنسوں اور نشستوں کی مثال اس گدھے کی سی جس پر بہت ساری کتابیں لاد دی جائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button