مقالہ جات

دنیا میں لبرل ڈیموکریسی کا مستقبل

تحریر: محمد کاظم انبارلوئی

امریکہ کے 300 شہروں میں امریکی عوام سڑکوں پر نکل کر یہ نعرہ لگاتے رہے: "مسٹر ٹرمپ! اپنا منہ بند کرو اور عوام کو درپیش مشکلات حل کرو”۔ اسی طرح ان مظاہروں کے دوران عوام نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا: "ہم جمہوریت پر نظر ثانی کرنے کیلئے اپنا ووٹ استعمال کریں گے”، "مزاحمت کریں اور پھر ووٹ دیں”، "ہم دوسروں میں جوش پیدا کرنے کیلئے سڑکوں پر نکلے ہیں”، "ہم واپس لوٹ گئے ہیں اور مزاحمت کریں گے”۔ ان مظاہروں میں عوام کی شرکت اس قدر زیادہ تھی کہ لاس اینجلس کے میئر نے اس شہر میں ہونے والے مظاہرے میں شریک افراد کی تعداد پانچ لاکھ تک بتائی جبکہ نیویارک پولیس کا کہنا تھا کہ ان کے شہر میں ہونے والے مظاہرے میں دو لاکھ افراد شریک تھے۔ عوام پکار رہے تھے: "کانگریس، ٹرمپ کا احتساب کرو”۔

روزنامہ گارڈین امریکہ میں ٹرمپ حکومت کا ایک سال مکمل ہونے سے متعلق اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے: "پورے ملک میں افراتفری پھیل چکی ہے”۔ یہ اس امریکہ کی صورتحال ہے جو ایک سپر پاور کے طور پر جانا جاتا ہے اور اس کا صدر اپنے ہی نائبین اور وزراء کے بقول ایک "احمق” اور "بیوقوف” شخص ہے جو "ایک گائے کی حد تک بھی شعور نہیں رکھتا”۔ یہ اس ملک کی صورتحال ہے جس کے صدر کی اخلاقی بے راہروی سے متعلق روزانہ کسی نہ کسی خاتون کی جانب سے شرمناک حقائق فاش ہوتے نظر آتے ہیں۔ مظاہرین اونچی آواز میں یہ نعرے لگا رہے تھے: "ٹرمپ نالائق ہے، اسے استعفی دینا چاہئے”۔ دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ عوامی احتجاج کے ردعمل میں اپنے ٹویٹر پیغام میں لکھتے ہیں: "پورے ملک میں بہت اچھا موسم ہے۔ پیدال چلنے کیلئے بہت اچھا موقع ہے۔ باہر نکلیں اور گذشتہ 12 ماہ کے دوران حاصل ہونے والی تاریخی کامیابیوں، بے مثال مواقع اور دولت کا جشن منائیں”۔

امریکی صدر نے اپنی کارکردگی کے خلاف سڑکوں پر مظاہرہ کرنے والے لاکھوں مظاہرین کی تحقیر کی۔ وہ بھی ایسے وقت جب امریکی حکومت بجٹ کے بارے میں سینیٹ اور وائٹ ہاوس کے درمیان اختلافات کے باعث تعطل کا شکار ہے۔ یہ خود کو سپر پاور کہلانے والے ملک میں حکومت داری کی ایک معمولی سی جھلک ہے۔ تقریباً ایک ماہ پہلے ایران میں بھی کچھ افراد سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاجی مظاہرے کئے۔ عدالتی، پولیس اور سکیورٹی اداروں کی جانب سے اعلان کردہ تازہ ترین اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مظاہرین کی کل تعداد 50 ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ امریکہ کے اسی احمق صدر اور اس کی وسیع و عریض سفارتی ٹیم نے ایران میں ہونے والے مظاہروں کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھانے کی کوشش کی جبکہ اس سے زیادہ احمق بعض یورپی رہنماوں نے بھی امریکہ کا ساتھ دیا۔ سلامتی کونسل میں روس کے نمائندے نے انہیں بہت اچھا جواب دیا اور کہا: "اگر ایسی ریت پڑ گئی تو سلامتی کونسل کو ہر روز امریکی عوام کی جانب سے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مظاہرہ کرنے پر ہنگامی اجلاس طلب کرنا پڑے گا!”۔

البتہ خود سلامتی کونسل نے بھی امریکہ کے اس مطالبے کو مذاق قرار دے کر ایجنڈے سے خارج کر دیا۔ ٹرمپ کو توقع تھی کہ عالمی برادری اس کی اس سفارتی بیوقوفی کی حمایت کرے گی۔ ایران میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں اور امریکہ میں ہونے والے عوامی احتجاج کے درمیان ایک بنیادی فرق موجود ہے، وہ یہ کہ امریکہ میں عوامی مظاہروں کے پیچھے کسی امریکہ مخالف بیرونی قوت یا انٹیلی جنس ایجنسی کا ہاتھ نہیں تھا جبکہ ایران میں ہونے والی بدامنی میں امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کے جاسوسی ادارے ملوث تھے جو دہشت گرد اور شرپسند عناصر کی حمایت کر رہے تھے۔ یہ حکومتیں حتی بین الاقوامی قوانین کی پابندی کی خاطر ہی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور کھلم کھلا ایران کے داخلی امور میں مداخلت کی مرتکب ہوئیں اور شرپسند عناصر کی کھلی حمایت سے بھی دریغ نہ کیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاوس سے چند قدم کے فاصلے پر اور اسی طرح ملک کے تین سو شہروں میں دسیوں لاکھ مظاہرین کی آواز تو سن نہیں پائے لیکن کوسوں دور ایران میں اکا دکا شرپسند عناصر کی آواز انہیں بہت اچھی طرح سنائی دی۔ وہ شرپسند عناصر جنہوں نے مساجد اور امام بارگاہوں کو آگ لگائی اور بیگناہ لوگوں کو بے رحمی سے قتل کیا۔ ٹرمپ ان دہشت گرد عناصر کی مدد کیلئے حتی اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا اجلاس بلانے کیلئے بھی کوشش کرتے رہے۔ مغربی دنیا کے سیاسی فلاسفرز جو لبرل ڈیموکریسی کے مبلغ ہیں اس سوال کا جواب دیں کہ کیا اکیسویں صدی میں موجودہ امریکی صدر کے پاگلوں والے اقدامات اور حرکتوں سے حکومت داری کا ایک منطقی اور پسندیدہ ماڈل پیش کیا جا سکتا ہے؟ کیا اب لبرل ڈیموکریسی کے پاس اپنے مدمقابل دینی جمہوریت کے ماڈل، جسے انقلاب اسلامی ایران نے دنیا والوں کو متعارف کروایا ہے کے مقابلے میں کہنے کیلئے کچھ باقی بچا ہے؟

مغرب کے سیاسی فلاسفرز نے اتنی محنت اور تگ و دو کے بعد یہ بتایا کہ حکومت کرنے کا طریقہ کار کیا ہے۔ کیا وہ تھوڑی اور محنت اور تگ و دو کر کے یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ "کس قسم کا شخص حکومت کرنے کے قابل ہے؟”۔ ایک زنا کار، کرپٹ، جھوٹے، فریب کار، عہد شکن اور اخلاقی اصولوں سے عاری شخص کو وائٹ ہاوس بھیج کر دنیا میں لبرل ڈیموکریسی کی کس قسم کی تصویر پیش کی گئی ہے؟ اگر ٹرمپ کسی رات شراب کی مستی میں ایٹمی جنگ کے کنٹرول روم میں چلا جائے اور کسی حکومت جیسے شمالی کوریا کو سیدھا کرنے کے بہانے ایٹمی میزائل کا بٹن دبا دے تو کیا ہو گا؟ کیا قحبہ خانہ اور سٹہ بازی کے اڈے چلانے کا تجربہ ایک ملک چلانے کیلئے کافی ہے؟ ان سوالات کا جواب ان افراد کو دینا چاہئے جو ایسے افراد کو صدارتی انتخابات میں شرکت کی اجازت دیتے ہیں اور اس طرح دنیا بھر میں لبرل ڈیموکریسی کی عزت کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button