مقالہ جات

شام میں امریکی ارادے اور فتنہ کردستان

دولت اسلامیہ یا داعش کے عراق وشام میں خاتمے کے بعد جس طرح عراق میں فتنہ کردستان کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی گئی اور جسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا بالکل اسی طرح اب ترک سرحد پر واقعہ شام کے کردونشین علاقوں میں بھی فتنہ کردستان سر اٹھاتا دیکھائی دے رہا ہے ۔
ایک طرف شام میں موجود امریکی فورسزکرد جنگجووں کو مدد فراہم کررہی ہیں تو دوسری جانب ترکی سرحدی علاقے عفرین اور منبج میں کردجنگووں کو کچلنے کی خاطر اپنی فورسز کو شام کے اندر بھیجنا چاہتا ہے ۔
جبکہ پہلی بار شام کی حکومت کی جانب سے ترکی اور امریکہ دونوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ شام کی خود مختاری کی خلاف وزری سے باز آئیں ۔
شام کی وزارت خارجہ اور مشترکہ آپریشن روم کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات میں واضح طور پر دیکھاجاسکتا ہے کہ وہ شام میں موجود امریکی فورسز اور سرحدی علاقوں میں ترک فورسز کی مداخلت کے بارے میں سختی کے ساتھ خبردار کررہے ہیں ۔
شامی اتحادیوں کے مشترکہ آپریشن روم سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ مناسب وقت پر شام میں موجود امریکی فورسز کیخلاف اقدامات اٹھائے جاینگے ۔
واضح رہے کہ شام شروع سے ہی اپنی سرزمین پر موجود امریکی فورسز کی موجودگی کو غیر قانونی اور جارح فورسز کہتا آیا ہے اور امریکی فورسز شام کی عراق و اردن کے ساتھ متصل سرحد کے التنف جیسے اہم علاقے کے قریب موجود ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ شام میں داعش کے خاتمے کے بعد اب امریکی فورسز کی موجودگی کا کیا جواز بنتا ہے ؟
اور آخر امریکی چاہتے کیا ہیں ؟
اس سوال کا جواب امریکی سیکرٹری خارجہ نے سٹینفورڈ کی سالانہ کانفرنس میں کھلے لفظوں دیا تھا کہ امریکی شام میں اپنی فورسز کی موجودگی کے لئے کیا بہانے رکھتے ہیں
ان کی باتوں میں تین نکات واضح تھے ،داعش کی واپسی کو روکنا ،ایرانی اثر ورسوخ کا خاتمہ ،شامی صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانا ۔
اس وقت شام کے شمال میں نہرفرات کے مشرقی حصے کے ساتھ امریکی مارینز کی تقریبا ایک ہزار کے قریب تعداد موجود ہے جووہاں ایک مستقل فوجی اڑہ بنانے کی کوششوں میں ہیں تاکہ ایک مستقل کردریاست تشکیل دی جائے ۔
واضح رہے کہ شام میں کردجنگجووں کی تعداد تقریبا تیس ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے کہ جنکی عسکری ٹریننگ امریکی مارینز کے ہاتھوں ہورہی ہے ۔
شام میں کرد الگ ریاست کی تشکیل کسی بھی حال میں نہ صرف ترکی کے لئے ناقابل قبول ہے بلکہ اس ریاست کو عراق اور ایران بھی قبول نہیں کرسکتے ہیں ۔
ترک حکومت مسلسل کہتی آئی ہے کہ ترکی میں ہونے والی دہشتگردانہ کاروائیوں کے پچھے کرد جنگجووں تنظیمیں وائی پی کے ،پی وائی ڈی اور پی کے کے ملوث ہے ۔
زرائع ابلاغ کے مطابق ترکی اپنی سرحدکے ساتھ واقعہ عفرین کے نشین علاقوں میں ان جنگجووں کے ٹھکانوں کی مکمل معلومات رکھتا ہے لیکن اس کے سامنے سے سب سے بڑی روکاوٹ شامی حکومت کی جانب سے مخالفت کی شکل میں ہے کہ جس نے ترکی کو خبردار کیا ہے کہ اس کا کسی بھی قسم کا اقدام شام کی خودمختاری کی خلاف ورزی شمار ہوگا ۔
ترک فورسز اس وقت تک کرد جنگجووں کیخلاف کوئی اقدام نہیں کرستی جب تک اسے شام کی حکومت کی جانب سے اجازت نہ ملے کیونکہ ترکی جانتا ہے کہ اس کا ہراقدام شام اور اس کے اتحادیوں کو بڑھکانے کے مترادف ہوگا ۔
اب تک صورتحال کے مطابق ترکی نے خود کو صرف سرحد کے اس پار گولہ باری تک محدود رکھا ہوا ہے اور شائد وہ بیگ ڈور چینلز سے شام کے اتحادیوں سے بات چیت کی کوشش کررہا ہے ۔
اسی اثنا میں ترکی میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت نے شام کے علاقے عفرین میں ترک ممکنہ آپریشن کو لیکر کڑی تنقید کی ہے،ان کا کہنا ہے کہ عفرین میں مداخلت کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی
اپوزیشن رہنما کیلدار اوگلو کا کہنا ہے کہ عفرین کا علاقہ باب علاقے جیسا نہیں کہ شلیڈ آف فرات کے نام سے آپریشن کیا اور ستر سے زائد ترک فوجیوں کی جانیں گنوانی پڑی ۔
واضح رہے کہ شلیڈ آف فرات نامی آپریشن سے پہلے ترکی نے شام اور اس کے اتحادیوں سے اجازت حاصل کی تھی جبکہ امریکی فورسزکے ساتھ بھی ہم آہنگی ہوچکی تھی ۔
ترکی کے حالیہ عزائم کے بارے میں روس بھی خبردار کرچکا ہے اور ان کوششوں کو ایک بے سود کوشش کہنے کے ساتھ ساتھ تاکید کیا ہے کہ ترک اس قدام سے کسی بھی قسم کو کوئی فائدہ ترکی کو حاصل نہیں ہوگا ۔
ادھر ترکی کے ان عزائم کے بارے میں امریکہ کا بھی کہنا ہے کہ ترکی کا اقدام خطے کے امن کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔
کردوں کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ بنتا جارہا ہے کہ جس کی کوئی واضح سمت دیکھائی نہیں دیتی ایک طرف کرد روس کے ساتھ بھی تعاون کرتے دیکھائی دیتے ہیں تو دوسری جانب وہ امریکیوں کے ساتھ بھی کھڑے ہیں جبکہ وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ شام کی حکومت کے ساتھ براہ راست ٹکراو پیدا کریں
ترکی ایک جانب اس بلاگ کی جانب جھکاو رکھتا ہے جو شام ایران اور روس پر مشتمل ہے تو دوسری جانب کردوں کے ایشو کو لیکر اسی بلاک کی مخالفت کا سامنا بھی کررہا ہے ۔
یوں لگتا ہے کہ کردوں کا مسئلہ ایک ایسا فتنہ بنتا جارہا ہے کہ جو آگے جاکر کسی بھی قسم کے بڑے تصادم کا پیش خیمہ بن سکتا ہے خاص کر کہ شام میں موجود امرکی فورسزاور امریکی اعلان شدہ عزائم کے پیش نظر یہ بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ شام کی زمین کسی بھی وقت ایک بڑے تصادم کا نظارہ پیش کرے گی ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button