اپنے ملک کی حکومت سے تعاون رہبر معظم کی ہدایت کے عین مطابق ہے، آغا علی رضا پناہیان
شیعیت نیوز: امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے سالانہ مرکزی کنونشن میں "عالمی مہدویت امید بشریت کانفرنس” کا اہتمام کیا گیا جس میں آغا پناہیان نے بذریعہ ویڈیو لنک شرکت کی جبکہ آئی او پاکستان کے سابق چیئرمین لال مہدی خان، اصغریہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر قمر عباس،علامہ غلام عباس ریئسی، آئی ایس او پاکستان کے مرکزی صدر سید سرفراز نقوی، جے یو آئی کے ضیاء اللہ شاہ بخاری سمیت دیگر مقررین نے خطاب کیا۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آغا علی رضیا پناہیان نے کہا کہ پاکستان کے نوجوان ماضی کی طرح مغربی ثقافت کو ترک کرکے دنیا کے لئے آئیڈیل بن سکتے ہیں ، فردی و تنہا انداز میں کام کرنا آسان ہے لیکن تنظیمی کام کرنا مشکل ہے لیکن تنظیمی و منظم انداز میں برکت ہے، انہوںنے کہاکہ اس آیت کو آپ کی آرگنائزیشن کے اعزاز میں آپ لوگوں کو ہدیہ کرتا ہوں یایہا الذین امنوا اصبِروا وصابِروا ورابِطوا واتقوا اللہ لعلم تفلِحون (آلعمران، 200)
آغا علی رضا پناہیان نے بذریعہ ویڈیو لنک کنونشن کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دشمنان بشریت دشمنان اسلام بھی ہیں انہوں نے کوشش کی کہ پاکستان میں دہشت گردی پھیلے لیکن فرقہ واریت کو آپ کی بصیرت کی وجہ سے پھیلنے نہیں دیاگیاانہوں نے کہا کہ یمن بحرین شام میں ہم دنیائے اسلام مشکلات کا شکار ہونے کے باجود کامیابیوں سے ہمکنار ہوہے ہیں۔ ۔امام حضرت علی فرمایا کہ اپنی نگاہ بابصیرت رکھیں اور دشمن کی آخری صفوں پر نظر رکھیں اور اس حدیث کا آج معنیٰ اور مفہوم یہ ہے کہ ہم آئندہ و مستقبل کیلئے اپنی پلاننگ کریں ۔آغا پناہیان نے کہا کہ دشمن کے مقابلے میں جو آج ہمیں کامیابی نصیب ہورہی ہے اس کی توقع خط مقدم میں لڑنے والے انقلابی لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے
یمن میں جو ہمیں کامیابی ملی وہ دس سال پہلے تصور بھی نہیں کی جاسکتی تھی ۔دشمن نے جو بھی چال چلی ہے وہ اس میں ناکام ہوا ہے ،ہمیں یہ تحلیل کرنی ہے کہ کیا ہم دس سال بعد کہاں کھڑے ہیں ہم مظلوم امت ہیں جو کامیابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔اما م خمینی اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ امریکہ کی کوئی بھی غلطی قابل قبول نہیں آج دشمن اس بات کا یقین رکھتا ہے کہ وہ ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے اوروہ ایک ضعیف ارادہ کے ساتھ
ہمارے مقابلہ میں کھڑا ہے۔آپ میں سے ہر ایک جوان امریکہ مردہ باد کا نعرہ دنیا میں ایک اثر رکھتا ہے اور ایک جادوانہ اثر رکھتا ہے ۔یہ اشعار اس قدر اثر عظیم ہیں تو آپ کا عمل کس قدر اثر انگیز ہوگا؟ آپ کا یہ عمل مظلومیت کے ساتھ ہو تو ہمیشہ کیلئے پائیدار ہوگا۔سورہ مبارکہ میں ارشاد خداوندی ہے جو خدا کی راہ میں مارے جاتے ہیں ان کا عمل کبھی ضائع نہیں ہوگا۔ہمارے تمام اعمال اتحاد سے ہو تو ہمارا اعمال کا اثر دوگنا ہوجائے گا ۔سورہ مبارکہ میں خدا فرماتا ہے کہ ہم دشمن کو نابود کر دیں گے یہ بھی ارشاد ہو ا خدا مدد کرے گا ۔امام زمان کے ایک تحریر میں بیان کیا کہ اگر ہمارے شیعہ باہم متحد ہوجاکر ولایت کے محور پر کام کرے تو وہ کامیاب ہوجائیں گے انہوںنے کہا
فردی و تہائی کام کرنا آسان ہے تنظیمی کام کرنا مشکل ہے لیکن منظم انداز میں کام میں برکت ہے
قرآن مجید کی آیت نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو
اس آیت کو آپ کی آرگنائزیشن کے اعزاز میں آپ لوگوں کو ہدیہ کرتا ہوں
یایہا الذین امنوا اصبِروا وصابِروا ورابِطوا واتقوا اللہ لعلم تفلِحون (آلعمران، 200)
خدا فرماتا ہے کہ اے جو ایمان لائے ایک ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ میں رہ کر امور انجام دیں ۔یہاں رابطہ سے مراد جب بھی امام کی نصرت کرنا چاہتے ہیں تو اپنی تمام کوششوں سے منظم انداز میں امام کی مدد کریں ۔ہمیں اپنے کے اتحاد کے اہمیت نہیں دینی چاہئے ان کے قلوب منتشر اور ظاہری طور پر یہ ایک ہیں جیسا کہ ایسا حدیث میں بھی ہے ۔منظم انداز میں کام کریں مشکلات بھی ہونگی ۔مشکلات ان کیلئے ضرور ہے ان کیلئے جن کے دل میں آئمہ کی مودت ابھی مکمل طور پر راسخ نہیں ہوئی ان مشکلات کی بدولت ن کی پرورش ہوگی ۔رسول خدا کی حدیث ہے کہ آپ آخر زمان کے فتنوں سے گھبرائیں نہیں یہ فتنے دور ہوجائیں گے ۔گزشتہ برس میں فتنوں کی آمد سے حقائق واضح ہوجاتے تھے ۔آج کے زمانہ میں چند ہی مہینوں میں فتنے آتے رہتے ہیںجن سے حقائق روشن ہوجاتے ہیں ۔آپ نوجوانوں پر افتخار کرتا ہوں ۔آپ کا احساس بھی وہی احساس ہونا چاہیے جو مباہلہ کے روز اہلبیت ع کا احساس کامیابی تھا
انہوں نے سوال کے جواب میںکہا کہ آپ کا اپنے ملک کی حکومت کے ساتھ تعاون مسائل کے حل کے لئے بہتر رہے گا رہبر معظم نے حزب اللہ کو بھی عیسائی حکومت کے ساتھ کو تعاون کی نصیحت کی۔( واضح رہے کہ پاکستان میں کچھ افراد حکومت سے تعاون کو ظاغوتی نظام کی اطاعات قرار دیتے ہیں اور اپنے اس نظریے کو رہبر معظم سے منسلک کرتے ہیں تاہم، رہبر معظیم کے قریبی آغا پناہیان نے اس نظریہ کو رد کیا ہے)
انہوں نے اپنے پیغام میںکہاکہ مغربی تمدن کو ترک کریں تو دنیا کیلئے ماڈل بن سکتے ہیں جیسا کہ آپ نے ماضی میں بھی مغربی ثقافت کو قبول نہیں کیا ۔آپ فکر و استدال کے ساتھ اور کوششوں کے ساتھ مغربی اثر کو ختم کرسکتے ہیں۔غرب زدگی دنیائے اسلام کی ایک مشکل ہے جس کا ہم سب کو مشکلات کا سامناہے ہمارا نعرہ کلمہ طیبہ ہے تو اس شعار کی بدولت استعمار کو شکست دیں سکتے ہیں۔