مقالہ جات

28 رجب: امام حسین (ع) کے سفر کربلا کا آغاز

امام حسین(ع) نے معاویہ کی موت کے بعد یزید کی بیعت کو جائز نہيں سمجھا اور آپ کی حکومت و زمامداری قبول کرنے کے سلسلے میں اہل کوفہ کی دعوت کے پیش نظر مکہ سے کوفہ روانہ ہوئے لیکن آپ کو کربلا میں کوفیوں کی عہد شکنی کا سامنا کرنا پڑا اور آخر کار عاشورا سنہ 61 ہجری کو کربلا کے میدان میں دو لشکروں کے مابین ہونے والی جنگ میں آپ اور آپ کے قلیل ساتھی جن کی تعداد 72 افراد جام شہادت نوش کرگئے اور اہل بیت اور اصحاب میں سے آپ کے پسماندگان یزیدی لشکر کے ہاتھوں اسیر ہوئے اور کوفہ اور شام بھجوائے گئے۔

یزید کی بیعت سے انکار اور اس کے نتائج
نصف رجب سنہ 60 ہجری کو معاویہ کی موت کے بعد، لوگوں نے[1] یزید کے ہاتھ پر بیعت کی۔[2]یزید کو بر سر اقتدار آنے کے بعد ـ اس کی بیعت کے لئے معاویہ کی دعوت مسترد کرنے والے چند افراد سے بیعت لینے کے سوا ـ کوئی دوسری فکر لاحق نہ تھی۔[3] اسی بنا پر اس نے اس وقت کے والیِ مدینہ ولید بن عتبہ بن ابی سفیان کو ایک خط لکھا اور اس کو معاویہ کی موت کی خبر دی اور ساتھ ہی ایک چھوٹا اور مختصر خط بھی بھجوایا جس میں یزید نے ولید کو ہدایت کی تھی کہ "حسین بن علی، عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر سے زبردستی بیعت لو اور جو نہ مانے اس کا سر قلم کرو”۔[4] ان مکتوبات کے پہنچتے ہی ایک اور مکتوب بھی یزید کی طرف سے پہنچا جس میں اس نے والی مدینہ کو حکم دیا تھا کہ یہ خط وصول کرتے ہیں میرے حامیوں اور مخالفین کے نام میرے لئے بھجوادو اور حسین بن علی(ع) کا سر بھی، خط کے جواب کے ساتھ میرے لئے روانہ کرو۔[5] چنانچہ ولید نے مروان سے مشورہ کیا؛[6] اور مروان بن حکم کی تجویز پر انہيں دارالامارہ بلوایا۔[7] ولید نے عبداللہ بن عمرو بن عثمان بن عفان کو امام حسین(ع)، ابن زبیر، ابن عمر اور عبدالرحمن بن ابی بکر کے پاس روانہ کیا کہ [8] انہیں حاکمِ مدینہ کے پاس بلا دے؛ تاہم امام(ع) اپنے 30[9] ساتھیوں کے ہمراہ ساتھیوں کے ہمراہ مدینہ کے دارالامارہ پہنچے۔[10] ولید نے معاویہ کی موت کی خبر سنائی اور پھر یزید کا خط پڑھ کر سنایا جس میں اس نے حکم دیا تھا کہ "حسین(ع)، سے میرے لئے بیعت لو”۔ چنانچہ ولید نے امام حسین(ع) سے کہا کہ بیعت کریں! تاہم امام حسین(ع)، نے مہلت مانگی اور ولید نے بھی مہلت دے دی۔[11] امام(ع) نے ولید سے فرمایا: "کیا تمہیں یہی پسند ہے کہ میں در پردہ، بیعت کروں؟ میرے خیال میں تمہارا مقصد بھی یہ ہے کہ میری بیعت عوام کی آنکھوں کے سامنے ہو”۔ ولید نے کہا: ہاں! میرا مقصد بھی یہی ہے۔[12] امام(ع)، نے فرمایا: "پس، کل تک مجھے فرصت دو تا کہ میں اپنی رائے کا اعلان کروں۔[13]

حاکم مدینہ نے دوسرے روز شام کے وقت اپنے افراد امام(ع) کے ہاں بھجوایا تاکہ آپ(ع) سے جواب وصول کرے؛۔[14] تاہم امام(ع) اس رات کے لئے بھی مہلت ماگی اور ولید نے پھر بھی آپ(ص) کو مہلت دی۔۔[15] شہر مزید پر امن نہ رہا تھا چنانچہ امام حسین(ص) نے مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔[16] امام حسین(ع) اسی رات [یعنی اتوار کی رات مدینہ چھوڑ کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔[17]

مدینہ سے ہجرت مکہ کی طرف عزیمت
رسول اللہ(ص) مشرکین قریش کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے مکہ سے ہجرت کرگئے تھے تو فرزند رسول(ص) کو ان ہی وجوہات اور ان ہی مشرکین کی اولاد کی سازشوں کی بنا پر مدینہ چھوڑ کر مکہ اور پھر عراق کی طرف ہجرت کرنا پڑی جنہوں نے امام حسین(ع) کو قتل کرکے کہا: کاش میرے بدر میں مارے گئے آباء و اجداد آج زندہ ہوتے اور میرے اس کارنامے کو دیکھ کر کہتے تیرے ہاتھ شل نہ ہوں؛ یعنی مدینہ سے مکہ اور عراق کی طرف امام حسین(ع) کی ہجرت اسلام کے دعویداروں کی سازشوں کا نتیجہ تھی۔ یہاں اس ہجرت کے مختلف مراحل اختصاراً بیان کئے جارہے ہیں:

ترک وطن
امام(ع) نے مدینہ سے نکلنے کا ارادہ کیا؛ رات کے وقت اپنی والدہ ماجدہ اور بھائی کی قبور پر حاضری دی اور نماز بجا لائی اور وداع کیا اور صبح کے وقت گھر لوٹ آئے۔[18] بعض تاریخی ذرائع نے بیان کیا ہے کہ امام(ع) نے دو شب مسلسل اپنے جد امجد کی قبر کے پاس رہے۔[19]

وصیت، بھائی کے نام
محمد بن حنفیہ کو معلوم ہوا کہ بھائی حسین(ع) عنقریب سفر پر جارہے ہیں تو انھوں نے آ کر وداع کیا۔ امام(ع) نے اپنی وصیت ان کے نام پر لکھی جس کا مضمون کچھ یوں تھا: "إِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِْصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ وَأَسيرَ بِسيرَةِجَدّى وَأَبى عَلِىِّ بْنِ أَبيطالِب”۔

ترجمہ: میں اپنا وطن کسی شر و فساد پھیلانے اور ظلم و ستم کرنے کی خاطر نہیں چھوڑ رہا ہوں بلکہ مدینہ سے میری روانگی کا مقصد یہ ہے کہ اپنے نانا [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی امت کی اصلاح کروں؛ اور امر بالمعروف کروں اور نہیں عن المنکر کروں (نیکی کا حکم دوں اور برائیوں سے روکوں) اور اپنے نانا رسول اللہ(ص) اور بابا علی بن ابی طالب(ع) کی سیرت پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہوں۔[20]

مکہ کی طرف روانگی
امام حسین(ع) اٹھائیس رجب کو رات کے وقت[21] اور بروایت دیگر تین شعبان سنہ 60 ہجری کو[22] اپنے خاندان اور اصحاب کے82 افراد کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئے۔[23] اس سفر میں محمد بن حنفیہ کے سوا[24] امام حسین(ع) کے اکثر اعزّاء و اقارب ـ منجملہ آپ کے بیٹے، بیٹیاں، بھائی، اور بھتیجے ـ آپ کے ساتھ تھے۔[25] بنو ہاشم کے علاوہ، آپ کے 20 صحابی بھی آپ کے ساتھ روانہ ہوگئے تھے۔[26]

امام حسین(ع) اپنے قافلے کے ساتھ مدینہ سے نکل گئے اور اپنے [بعض] قریبی اقرباء کی مخالفت کے باوجود مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔[27]

مکہ کے راستے میں آپ اور افراد قافلہ نے عبداللہ بن مطيع، سے ملاقات کی۔ امام حسین(ع) پانچ روز بعد 3 شعبان سنہ 60 ہجری کو مکہ میں داخل ہوئے[28] اور اہلیان مکہ اور حُجاجِ بیت اللہ الحرام نے آپ کا شاندار استقبال کیا۔[29]

مدینہ سے مکہ کی طرف سفر کا راستہ
15 رجب سنہ 60 ہجری معاویہ کا انتقال بسوئے یوم الحساب؛ 28 رجب سنہ 60 ہجری امام(ع) کی مدینہ سے روانگی براستۂ ملل، ذوالحلیفہ، السیالہ، عرق الظبیہ، الروحاء، الإثابہ، العرج، لحى جمل، السقیاء، الأبواء، الہرشا کی گھاٹی، الرابغ، الجحفہ، قدید، خلیص، عسفان، مر الظہران، الثنیتین، مكۃ المكرمہ، (3 شعبان المعظم سنہ 60 ہجری امام حسین(ع) مکہ پہنچ گئے)، یہی وہ راستہ ہے جو امام حسین علیہ السلام نے پانچ دن میں طے کیا۔

بشکریہ: وکی شیعہ 

ابن سعد؛ الطبقات الکبری، خامسه1، ص442؛ احمد بن یحیی البلاذری؛ انساب الاشراف،ج3، ص155 و شیخ مفید؛ الارشاد، ج2، ص32۔
Jump up ↑ ابن سعد؛ الطبقات الکبری، خامسه1، ص442؛ احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص155 و شیخ مفید؛ ج2، ص32۔
Jump up ↑ محمد بن جریرالطبری، تاریخ الأمم و الملوک(تاریخ الطبری)، ج5، ص338۔
Jump up ↑ ابومخنف الازدی، مقتل الحسین(ع)،ص3؛ الطبری، وہی، ص338؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، صص9-10؛ الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، ص180 اور علی بن ابی الکرم ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج4، ص14۔
Jump up ↑ شیخ صدوق؛ الامالی،ص152؛ ابن اعثم؛ وہی ماخذ، ص18 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص185۔
Jump up ↑ ابومخنف؛ وہی ماخذ، صص3-4؛ الدینوری، وہی ماخذ، ص227 و الطبری، وہی ماخذ، صص338-339 اور رجوع کریں: ابن اعثم، وہی ماخذ، ص10؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص181 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص14۔
Jump up ↑ الطبری، وہی ماخذ، ج5، صص338-339؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص10؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص181 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص14۔
Jump up ↑ الدینوری، وہی ماخذ، ص227؛ الطبری، وہی ماخذ، ص339؛ ابن اعثم؛ الفتوح، وہی ماخذ، ص11 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص14۔
Jump up ↑ ابن اعثم؛ مقتل الحسین(ع)، وہی ماخذ، ص18 و سید بن طاوس؛ اللہوف، تہران، جہان، 1348ش، ص17۔
Jump up ↑ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص183۔الدینوری، وہی ماخذ، ص227؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص183 و ابن شهرآشوب؛ وہی ماخذ، ص88
Jump up ↑ شیخ مفید؛ الارشاد، ج2، ص33۔
Jump up ↑ الدینوری، وہی ماخذ، ص228؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص32 و عبدالرحمن بن علی ابن الجوزی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، ج5، ص323۔
Jump up ↑ ابومخنف، وہی ماخذ، ص5؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص33 و ابن اعثم؛ مقتل الحسین(ع)، وہی ماخذ، ص19۔
Jump up ↑ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص34۔
Jump up ↑ الطبری، وہی ماخذ، ص341 و شیخ مفید؛ وہی ماخذ، ص34۔
Jump up ↑ ابن اعثم؛ الفتوح، وہی ماخذ، ص19 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص187۔
Jump up ↑ احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص160۔
Jump up ↑ ابن اعثم، وہی ماخذ، صص19- 20 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص۔187
Jump up ↑ ابن اعثم، وہی ماخذ، صص18-19۔
Jump up ↑ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص21و الخوارزمی، وہی ماخذ، صص188-189۔
Jump up ↑ البلاذری، وہی ماخذ، ص160؛ الطبری، وہی ماخذ، ص341 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص34۔
Jump up ↑ ابن اعثم، وہی ماخذ، صص21-22 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص189۔
Jump up ↑ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص69۔
Jump up ↑ ابوحنیفه احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص228؛ الطبری، وہی ماخذ، ص341 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص16۔
Jump up ↑ الدینوری، وہی ماخذ، ص228 و شیخ صدوق، وہی ماخذ، صص152-153۔
Jump up ↑ شیخ صدوق، وہی ماخذ، ص152۔
Jump up ↑ ابن اعثم؛ وہی ماخذ، ص22 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص189۔
Jump up ↑ البلاذری، وہی ماخذ، ج ص160؛ الطبری، وہی ماخذ، ص381 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص35۔
Jump up ↑ البلاذری، وہی ماخذ، ص156؛ ابن اعثم، وہی ماخذ،ص23؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص36۔

متعلقہ مضامین

Back to top button