مقالہ جات

ٹرمپ پالیسیاں اور عالم اسلام

ٹرمپ کی عالم اسلام اور ایران کے ایٹمی معاہدے کے بارے میں پالیسی اور اسرائیل کی یک طرفہ حمایت کے نتائج کی وجہ سےامریکی عوام نئے صدر کے حولے سے پریشانی کا شکار ہیں ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ امریکہ کس رخ پر سفر کرنے کو جا رہا ہے امریکی صدر ٹرمپ کی پالیسیوں نے نہ صرف اپنے ملک کے عوام کو پریشان کر رکھا ہے بلکہ دنیا بھر میں اس وجہ سے ایک اضطراب اور بے چینی کی فضا بن چکی ہے خاص طور پر عالم اسلام یہ سوچنے پر مجبور دکھائی دے رہا ہے کہ اس حوالے سے امریکہ میں مقیم مسلمانوں کا مستقبل کیا ہو گا ۔ ٹرمپ کے بر سر اقتدار آتے ہی امریکہ میں تشدد پسندانہ واقعات رونما ہونا شروع ہو چکے ہیں حال ہی میں امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں امریکی انتہا پسند عناصر نے ایک مسجد کو نذر آتش کر دیا جبکہ اس سے قبل بھی متعدد انتہاپسندنہ رویوں پر مشتمل واقعات دیکھنے کو ملے جن میں باحجاب مسلمان خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔یہ سب کچھ صدر ٹرمپ کی انتہاپسندانہ پالیسیوں کا سبب نظر آرہا ہے ۔ خود امریکی صدر اپنی زبان سے یہ کلمات ادا کر رہے ہیں کہ وہ شدت پسندی پر یقین رکھتے ہیں ۔ امریکی صدر کا تارکین وطن اور اور سات مسلم ممالک کے لئے امریکی ویزے پر پابندی بھی صدر ٹرمپ کی شدت پسندانہ سوچ کی عکاس ہے ۔
اس وقت دنیا بھر کے سربراہان مملکت اس رویے پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں امریکہ کے اندر بھی ملک کی اہم سیاسی شخصیات ، بیوروکریٹس اوردانشور ٹرمپ پالیسیوں کو امریکی شناخت کے منافی قرار دے رہے ہیں دنیا بھر سے ماہر تجزیہ نگار ٹرمپ پالیسیوں کو دنیا کے لئے خطرہ قرار دے رہے ہیں ۔لبنان کے مشرق وسطی کے مشہور تجزیہ نگار عبد المطلب الحسینی نے جن کے جرمن جریدے فوکس میں متعدد مقالے شائع ہو چکے ہیں، امریکا کی نئی حکومت کے اسلام مخالف موقف اور اسرائیل کی یکطرفہ حمایت کے نتائج کی بابت خبردار کیا ہے۔
انہوں نے امریکی سفارتخانے کی تل ابیب سے بیت المقدس منقلی پر مبنی ٹرمپ کے اعلان کو عالم اسلام کے لئے اشتعال انگیز قدم قرار دیا جو امریکا اور عالم اسلام کے تعلقات کو متاثر کر سکتا ہے۔لبنانی تجزیہ نگار نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ امریکا کے سابق صدر باراک اوباما نے 2009 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد قاہرہ میں مسلمانوں اور عالم اسلام سے نیا تعلقات شروع کرنے کا وعدہ کیا تھا، کہا کہ ان کے اس بیان سے مشرق وسطی کے اختلافات حل کرنے کے بارے میں نئی امیدیں پیدا ہوئیں لیکن یہ امیدیں زیادہ دیر تک باقی نہیں رہیں اور ناامیدی میں تبدیل ہوگئیں۔
عبد المطلب الحسینی کا کہنا تھا کہ ٹرمپ اسرائیل کےتعلق سے اور خود اپنی پارٹی کے ارکان کے درمیان انتہا پسند کی حیثیت سے جانے جاتےہیں، وہ اسرائیل کے موقف کی سو فیصد حمایت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ٹرمپ نے اپنے وعدوں کو پورا کیا تو شدید کشیدگی پیدا ہو جائے گی، عالم اسلام اس صورتحال کو کبھی بھی قبول نہیں کرے گا۔انہوں نے امریکا کے نئے صدر کے وعدوں کے پورا ہونے کی بابت خبردار کیا اور اس کو القاعدہ اور داعش جیسے انتہا پسند گروہوں کے لئے کامیابی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ٹرمپ نے اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کی تو اس سے مصر اور امریکا کے تعلقات اور اسی طرح اسرائیل اور خلیج فارس کے عرب ممالک کے تعلقات متاثر ہو جائیں گے۔چنانچہ اس وقت عالم اسلام کو خصوصیت کے ساتھ اس صورت حال کو دیکھنا ہوگا اگر تو ٹرمپ پالیسیاں مسلمانوں کو متحد کردیں اور امریکہ کو عالمی برادری میں تنہا کر دیں تو یہ بات مسلم امہ کی تقویت کا باعث بن سکتی ہے یہی خطرہ امریکیوں بھی نظر آرہا ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button