مغربی میڈیا کا شام میں گٹھ جوڑ اور ملکی مفادات کی اصل کہانی
اگر آپ نے شام کے شہر حلب میں شامی فوج کی کامیابی کی خبریں ذرا توجہ سے دیکھی ہیں تو آپ کو متضاد خبریں ملیں گی۔ ٹوئٹر اور فیس بک پر کیے جانے والے یہ تبصرے اور اس سلسلے میں پوسٹ کی جانے والے تصویریں اتنی متصادم ہیں کہ آپ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے کہ سچائی کس کی جانب ہے۔
حلب کی فتح کے بعد مغربی میڈیا نے بشار الاسد کی فوج کی بربریت کا جو نقشہ کھینچا ہے اس سے لگتا ہے کہ حلب کی فتح سے قبل شاید وہاں سب ہی چین سے رہ رہے تھے۔ مگر بشار الاسد کی افواج کی بربریت کا نقشہ کھینچنے والے میڈیا کی حقیقت کیا ہے؟؟؟ بجائے اس کے کہ دہشت گردوں کی شکست پہ جشن منایا جاتا۔ مغربی میڈیا اس پہ سوگ منا رہا ہے۔
ایک آزاد صحافی وینیزہ بیلے کی آنکھوں سے دیکھیں تو شاید آپ کو پورا سچ نظر آ جائے۔ حیرت ہے کہ وینیزہ بیلے کے مقابلے میںمغربی میڈیا بلال عبدالکریم کی تصاویر اور کہانیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے جس کا نہ تو شام سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی وہ غیر جانب دار ہے بلکہ بلال عبدالکریم کا تعلق دہشت گردوں کے گماشتہ سے ہی ہے۔ اس ویڈیو میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ نام نہاد صحافی کس طرح دہشتگردوں کے کی تشہیر کرتا ہے حتیٰ کہ خود کش بلٹ پہننے والے کی وضاحت بھی کر رہا ہے۔ اپنے آخری ویڈیو میں اس نے سیب کھانے کی ویڈیو دکھائی ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ الحمداللہ ہو حلب سے نکل کر باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے میں ہے۔
کریم ایک امریکی نژاد صحافی جس کو صرف معتدیل شامی اپوزیشن کے مفادات کے تحفظ کے لیے بھیجا گیا ہے۔ دوسری جانب ایک سفید ہلمٹس نامی تنظیم ہے جس کے باتی رعد الصالح نامی شخص ہیں اور جو صرف اور صرف کارپوریٹ مقاصد کے لیے کام کررہی ہے۔ وہائٹ ہیلمٹس نامی اس تنظیم کو زیادہ فنڈنگ امریکہ کی طرف سے ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ مغربی میڈیا کریم اور وہائٹ ہیلمٹس نامی اس تنظیم کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔
مگر ایک آزاد اور غیر جانبدار صحافی ایوا بارٹلے اور وینیزہ بیلے کی خبروں کو مکمل نظر انداز کر رہے ہیں اس لیے ہم اپنے قاریئن سے التجا کریں گے کہ وہ اس صحافی کو ٹویٹر پر فولو بھی کریں اور ان کی مختلف پروگرامز میں حلب سے متعلق کی گئی گفتگو کو بھی پرکھیں تو اپکو دونوں صحافیوں کے درمیان فرق معلوم ہو جائے گا۔
مثلاً وہائٹ ہیلمٹ نامی تنظیم میں شام میں ایک ہی بچی کو تین دفعہ مختلف واقعات پر شامی فوجیوں سے بچانے کی فوٹیج نشر کی جو کہ سراسر جھوٹ اور دروغ گوئی پر مبنی تھا۔ اسی طرح اسی سال اپریل میںایک ہسپتال جس کا نام القدس تھا اس پر روسی طیاروں کے حملے سے مکم تباہی اور ہلاکتوں کی خبریں پورے یورپی اور مغربی میڈیا نے شائع کیں جبکہ حقیقت یہ ہے اس خبر کے کچھ ماہ بعد ہی گارڈین اخبار نے خبر شائع کی کہ القدس ہسپتال کیمیکل ہتھیاروں کا شکار مریضوںکا علاج کر رہاہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ شامی فوج کی جانب سے بربریت اورظلم کی سبھی کہانیاں مغربی میڈیا کی تیار کردہ ہیں تا کہ اسد کی فوج کو دنیا میں بدنام کیا جا سکے۔بشکریہ شفقنا نیوز