مقبوضہ فلسطین

کشمیریوں کی چیخیں امریکہ بھارت سٹریٹجک تعلقات کے نیچے دب گئیں

شیعیت نیوز: معتبر انگریزی روزنامہ گریٹر کشمیر نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا ’سنیچر کی صبح پولیس نے سرینگر سے شائع ہونے والے سبھی بڑے اخبارات کے دفاتر پر چھاپہ مار کر اخبارات کو ضبط اور چھاپہ خانوں کو مقفل کردیا۔ اس دوران کیبل ٹی وی نشریات کو بھی معطل کیا گیا ہے۔ سنیچر کو علی الصبح پولیس نے ہمارے دفتر پر دھاوا بول دیا۔ ہمارے اردو روزنامہ کشمیر عظمی کی پچاس ہزار کاپیاں ضبط کرلیں اور چھاپ خانے کو سیل کردیا، اور گریٹر کشمیر کی چھپائی روک دی۔‘انگریزی روزنامے رائزنگ کشمیر، کشمیر آبزرور، کشمیر مانیٹر اور دوسرے معتبر اخبارات کے دفاتر پر بھی پولیس نے چھاپے مار کر ان کی اشاعت روک دی ہے۔ کیبل ٹی وی کی نشریات بھی بند کردی گئی ہے۔ گذشتہ کئی روز سے بعض بھارتی نیوز چینلز کے خلاف عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ عوامی حلقوں کا خیال ہے کہ یہ چینلز کشمیر کی خبروں کو توڑ مروڑ کرپیش کرتے ہیں۔ بھارت بھر میں سول سروس امتحانات میں اول درجہ حاصل کرنے والے اعلیٰ افسر شاہ فیصل نے ان چینلز پر تنقید کرتے ہوئے فیس بک پر لکھا ’جب حکومت اپنے ہی شہریوں کو لہولہان کرتی ہو اور ٹی وی چینلز حقائق کو مسخ کرتے ہوں اور حالات بحال کرنے میں مشکلات قدرتی امر ہے۔‘ کشمیر سے غیر جانبدار تجزیوں کا باہر آنا مشکل ہے مگر جو کچھ بھی معلوم یا نامعلوم ذرائع سے سامنے آ رہا ہے اس نے ایک بات تو ثابت کر دی ہے کہ بھارت کے تمام تر ظالمانہ ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیری آزاد فضا میں سانس لینے کے حق سے محروم ہونے کیلئے تیار نہیں ہے۔ آگ و خون اور لہو کے دریا پار کر کے کشمیریوں نے ایک بار پھر اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ وہ فولادی ارادے رکھنے والے عوام ہیں۔ آزادی اظہار پر تمام تر پابندیاں لگانے کے باوجود بھارت اپنا مکروہ چہرہ دنیا سے چھپانے میں ناکام ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال نئی دہلی میں کشمیریوں کے حق میں ہونے والا احتجاج ہے۔ اس سے قبل بھارت کی مختصر تاریخ میں ایسا کوئی مثال نہیں ملتی کہ کشمیریوں کے حق میں کسی قسم کا احتجاج بھارت کے اندر ہوا ہو۔ بھلے یہ احتجاج کتنے ہی چھوٹے پیمانے پر ہوا ہو مگر ایک آواز ضرور اٹھی ہے۔ حریت پسند قلیل تعداد میں ہوں یا کثیر میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنا جذبہ اگلی نسل میں یا کچھ نہ کچھ غیرت مند لوگوں میں منتقل کر جاتے ہیں۔ کشمیر میں آزادی اظہار پر پابندی ، اخبارات کے دفاتر سیل ، ٹی وی نشریات بند ، کرفیو نافذ کرنے کے باوجود اگر بھارت ناکام ہے تو عقل کے اندھوں کو اب یہ سوچنا چاہئے کہ صرف طاقت کا استعمال مسئلے کا حل نہیں۔ آزادی کی خواہش پر لوگ جان قربان کرتے ہیں مگر سمجھوتہ نہیں کرتے۔ آزاد فضا میں سانس لینے کے جذبے انسان سے ایسے کام کروا جاتے ہیں جنہیں تصور میں لانا محال ہوتا ہے۔ کشمیر کی تحریک آزادی کے پس پشت پاکستان کا نام جوڑنا بھارت مسئلے کا حل سمجھتا ہے مگر کشمیر کے بچے بچے کا سڑکوں پر آنا اس کھوکھلی دلیل کی مکمل نفی کرتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ بھارت کشمیریوں کے ساتھ ساتھ اپنی بقا کیلئے بھی انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا حق دے ورنہ لاشیں گرتی رہیں گی اور یہ تشدد صرف مقبوضہ وادی تک محدود نہیں رہے گا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button