پاکستان

علامہ رمضان توقیر کی عوام نے پٹائی کیوں کی؟ حقائق سامنے آگئے !!

شیعیت نیوز: ڈیرہ اسماعیل خان میں گذشتہ روز شہید شاہد شیرازی کی شہادت کے بعد سے جاری احتجاجی دھرنا جو عید کے دوسرے دن تک جاری رہا ، اور انتظامیہ سے مذاکرات کے بعد ختم ہوا ،لیکن اس دوران ایک افسوس ناک واقعہ بھی پیش آیا جب علامہ رمضان توقیر نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا جس پر گذشتہ رات اپنی عید قربان کر کے سڑکوں پر بیٹھے عوام مشتعل ہوگئے اور انہوں نے علامہ رمضان توقیر کے خلاف نعرے بازی شروع کردی اورانہیں پر حملہ کیا، عینی شاہدین کے مطابق اسٹیج پر موجود شہید شاہد شیرزای کے والد اور مجلس وحدت مسلمین و آئی ایس او کے مرکزی رہنماوں نے مشتعل عوام کے ہجوم سے انہیں باخیرت نکال کرانکے مدرسہ پہنچایا ، ان مشتعل ہجوم میں ناصرف نوجوان و بزرگ شامل تھے بلکہ خواتین نے بھی علامہ رمضان توقیر پر جوتے برسائے۔

اس واقعہ کے بعد شیعہ علماٗ کونسل نے باقاعدہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان اور آئی ایس او پاکستان کے خلاف پروپگینڈا کا آغاز کردیا،حدتو یہ ہے کہ شیعہ علماٗ کونسل جیسی ملی جماعت کے مرکزی رہنماوں نے حقائق جانے بغیر اپنے بیانات داغنے شروع کردیااور باقاعدہ اپنی مخالف جماعت سمیت آئی ایس او پاکستان کے جوانوں کے لئے اپنے بغض کا کھل کر اظہار کیا، یہاں تک کہ ایک رہنما نے یہ تک کہا کہ علامہ رمضان توقیر پر حملہ آئی ایس او کے مرکزی صدر علی مہدی اور ایم ڈبلیو ایم کے علامہ اعجاز بہشتی نے کیا، اس قسم کے بیانات ہی شیعہ علماٗ کونسل کے جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں جو وہ قوم کی ہمدرد اور ہم وقت میدان میں رہنے والی تنظیموں کے خلاف دے کر ۲۵ سالوں سے اپنی گوشہ نشی اور ڈیرہ اسماعیل خان میںعلامہ رمضان توقیر کے کردار کو چھپا نے کے لئے کررہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عوام نے علامہ رمضان توقیر پر حملہ کیوں کیا؟ چلیں اگر مان لیا جائے کہ یہ ایم ڈبلیو ایم اور آئی ایس او کے لڑکوں نے کیا تو وہ خواتین کون تھیں جنہوںنے بھی علامہ رمضان توقیر پر جوتے برسنے میں اپنا حصہ ڈالا، حقیقت جاننے کے لئے ہمیں ماضی کے گوشوں میں جانا ہوگا اور دیکھنا ہوگاکہ علامہ صاحب سے ڈیرہ اسماعیل خان کی عوام انتے شدت سے ناراض کیوں ہیں؟

ڈیرہ اسماعیل خان گزشتہ دس سالوں سے شیعہ مسلمانوں کی مقتل گاہ ہےیہاں گزشتہ سالوں میں روزانہ کی بنیاد پر شیعہ مسلمانوں کو قتل کیا جاتا رہایہاں تک کہ جب کسی مومن کی نماز جنازہ منعقد ہوتی تو اس میں بھی تکفیری دہشتگر د حملہ کرتے اور کئی اور مومنین کو شہید کردیتے ، نوبت یہاں تک آگئی تھی کہ لوگوں نے جنازے پڑھنا چھوڑ دیے تھے، تکفیری اعلان کرتے پھرتے تھے کہ یا تو سنی ہوجا و یا مرنے کے لئے تیار ہوجاو، کسی زخمی کو ہسپتال لے کر جایا جاتا تو ہسپتال میں دھماکہ ہوجاتا ، صورتحال یہ ہوگئی تھی لوگ نقل مکانی کرکے بھکر کی جانب حرکت کرنے لگے تھے، جبکہ چند مومنین نے تو اپنا مذہب تک تبدیل کرلیا تھا، ڈیر ہ اسماعیل خان کے حالات کا ذمہ دار اور تکفیری دہشتگردوں کی سرپرستی مولانا فضل الرحمن کی جماعت اور انکا بھائی کررہا تھا جیسے شیعہ مسلمانوں نے ووٹ دیدکر اسمبلی تک پہنچا یا تھا اور ان شیعہ مومنین نے اس تکفیری دہشتگرد کو ووٹ مولانا رمضان توقیر کے کہنے پر دیاکیونکہ اس وقت اسلامی تحریک متحدہ مجلس عمل کا حصہ تھی، جس دوران ڈیرہ اسماعیل خان میں یہ قتل و غارت گری جاری تھی اس وقت علامہ رمضان توقیر صاحب عوام کو مشکلات میں ڈال کر ڈیرہ اسماعیل خان سے باہر رہتے یا اگر ہوتے بھی تو سیکورٹی میں گھومتے لیکن عوام بے چاری مررہی تھی، یہ وہ دور تھا جب مجلس وحدت مسلمین کا وجود عمل میں نہیں آیا تھا، لیکن اس وقت بھی شیعہ علماٗ کونسل نے کوئی حکمت عملی تربیت نہیں دی کہ ڈیرہ کے مومنین کے حوصلے بلند کیئے جائیں اور انکو خوف سے باہر نکال کر دوبارہ میدان میں لایا جائے، ایسے موقع پر آئی ایس او پاکستان نے کوشیش کی اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک بڑی کانفرنس کا انعقا د کیا جبکہ آئی ایس او ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن کے زیادہ تر رہنماوں کو شہید کردیا گیا تھا ، اس کانفر نس میں ملک بھر سے علماٗ کرام کو دعوت دی گئی تاکہ ڈیرہ کے مومنین کے حوصلوں کو بلند کیا جاسکے اس کانفرنس میں علامہ سید ساجد علی نقوی بھی مدعو تھے اور وہ آئے مگر افسوس جب انہوں نے تقریر کے دوران ڈیرہ اسماعیل خان کی عوام سے شکوہ کیا کہ یہاں یہ حالا ت ہوچکے ہیں مجھ آپ نے خبر تک نا دی ، آپ مجھے خط لکھ کر بتا سکتے تھے کہ ہمارے ساتھ یہ کچھ ہورہا ہے، اس وقت بھی عوام اشتعال میں آگئی اور کہا کہ اپکی تنظیم کے ایک رہنما ڈیرہ اسماعیل خان سے ہی تعلق رکھتے ہیں کیاانہوں نےآپکو نہیں بتایا؟ خیر اس کے علاوہ بھی کئی مقامات پر علامہ رمضان توقیر کی خیانت سے عوام غیض و غضب کا شکار تھی جس نے عید کے ورز اپنے غضہ کے اظہار کردیا،یہ عوامی ردعمل تھا کوئی منعظم منصوبہ نہیں لیکن شیعہ علماٗ کونسل کے دوست اسے منعظم منصوبہ قرار دیدکر اپنی غلطیوں پر پانی ڈالنے کی کوشیش کررہے ہیں۔

ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک مومن نےمیسج کیا کہ علامہ رمضان توقیر ڈیرہ کی عوام کے درمیان اپنی پوزیشن سے واقف تھے انہیں بھی چاہئے تھا کہ وہ شہید کے والد سے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کرواتے تاکہ یہ صورتحال نا پیش آتی، عوام جو پوری رات دن سڑکوں پر بیٹھی رہی اورآپ رات اپنے گھر میں سو کر صبح آکر کہیں کہ دھرنا ختم کرو تو عوام کو غضہ تو آنا ہے، اسی طرح علامہ رمضان توقیر کی جانب سے بغیر مذاکرات دھرنا ختم کرنے کی بھی کوشیش کی گئی اور انہوں نے باہر سے مومنین کی ہمداری لئے آئے ہوئے علماٗ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ یہ حالات خراب کرنے آگئے ہیں لہذا دھرنا ختم کیا جائے لیکن اس وقت شہید کے والد نے استقامت کا مظاہر ہ کیا کہ جب تک بات نہیں سنی جائے گی دھرنا ختم نہیں ہوگا،عوام اس بات پر بھی علامہ رمضان توقیر سے ناراض تھی، ماضی اور دھرنے والے دن ہونے والی کچھ حرکتوں نے عوام کو شدید رد عمل دکھانے پر مجبور کیا۔

جلتی پر تیل کا کام شیعہ علماٗ کونسل کے مرکزی صد ر علامہ ساجدعلی نقوی کے ڈرائیور ریاض حسین ترک کی جانب سے شہید شاہد شرازی کے بارے میں اپنے سوشل میڈیا اکا ونٹ سے استعمال کیئے جانے والے الفاظ نے کیا جس میں اس شخص نے شہید کی شہادت پر مسرت کا اظہار کیا، یہ تمام عوامل عوام کے صبر کو لبریز کرگئے اور یہ سانحہ پیش آیا ، شیعت نیوز ٹیم بھی ان پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتی ہےلیکن شیعہ علماٗ کونسل کی جانب سے اس مسئلہ کو بنیاد بناکر دیگر اختلاف رکھنے والی تنظیموں کے خلاف پروپگینڈ ا بھی قابل مذمت ہے جس کے رد میں یہ رپورٹ شائع کی گئی۔

13624758_1073636379371016_522055565_n.jpg

واضح رہے کہ یہ وہ رمضان توقیر ہیں جب مولانا فضل الرحمن کے لاہور ایک پروگرام میں عوام نے علامہ ساجد نقوی اور شیعہ مسلمانوں کے خلاف نعرے لگا ئے اور علامہ رمضان توقیر صاحب بجائے وہاں سے احتجاجاً واک آوٹ کرنے کے مولوی فضل الرحمن کے منانے پر واپس آگئے ،یہ ویکھ کر یہ محسو س ہوتا ہے کہ انہیں اتحاد شیعہ سے زیاد ہ مولوی فضل الرحمن سے اتحاد کی فکر ہے جو ڈیرہ اسماعیل خان میں ہزاروں شیعہ جوانوں کا قاتل ہے، دوسری جانب حال ہی میں گذشتہ ماہ دو شہید وکلاٗ بھائیوں کی شہادت کے خلاف علامہ رمضان توقیر کے ایک خاص اور شیعہ علماٗ کونسل کے ڈویژنل ذمہ دار نے احتجاج کرنے والے مومنین سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ شہر کا امن تباہ کررہے ہیں اور یہی بیان علامہ صاحب نے شہید شاہد کے جنازے پر دھرنے دینے والوں کے لئے بھی ادا کیے، یہ سارے معمالات عوام کی آنکھوں کے سامنے ہیں جو وہ ابھی بھولے نہیں،لہذا ایسے میں عوام جو ردعمل دے سکتے تھے انہوں نے دیا، اسے کسی تنظیم یا ادارے یا شخصیت پر ڈالا اپنے جرم کو چھپانے کے معترادف ہے۔

لہذاعوام کو چاہئے کہ وہ بلاوجہ کے پروپگنڈا پر کان نا دھریں اور ہم یہ تحریر نا لکھتے اگر سامنے کی جانب سے غلط پروپگنڈا نا کیا جارہا ہوتا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button