مقالہ جات

لبنان، سعودی بادشاہت کے پاگل پن کا نیا ہدف

سعودی عرب پر حکمرانی کرنے والی وہابی بادشاہت نے ایک اور مرتبہ فلسطین کی آزادی کے ایجنڈا کو پس پشت ڈالتے ہوئے بلکہ اسے ناکامی میں تبدیل کرنے کے لئے جعلی ریاست اسرائیل کے مخالفین کو سزا دینے کی ٹھان لی ہے۔ اس مرتبہ ہدف لبنان ہے، چونکہ معلوم ہے کہ فلسطین پر غاصبانہ تسلط جمانے والی نسل پرست صہیونیت کے ناجائز تسلط سے لبنان کو حزب اللہ کے جوانوں نے آزاد کروایا تھا، اس لئے سعودی بادشاہت نے حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کو سزا دینے کے لئے بعض اقدامات کا آغاز کیا ہے۔ یہ تو سبھی کو معلوم ہوچکا ہے کہ سعودی عرب نے لبنان کو چار بلین ڈالر مالیت کی دفاعی امداد منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن اس کی وجہ شاید آپ کے علم میں نہ ہو۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ قاہرہ میں عرب لیگ کے وزراء کا ایک اجلاس 10جنوری ہوا تھا تو وہاں لبنان کے وزیر جبران باسل نے ایران میں سعودی سفارتخانے پر حملے کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ وجہ سعودی بادشاہت نے اعلانیہ بتائی لیکن اصل وجوہات اور بھی ہیں۔ جبران باسل ایک مسیحی عرب سیاستدان ہیں۔ اس وقت وہ لبنان کے مارونی عیسائیوں کی جماعت فری پیٹریاٹک موومنٹ (التیار الوطنی الحر) کے سربراہ ہیں۔ اس جماعت کے بانی مشعل عون ہیں، جو لبنان کی فوج کے سربراہ رہ چکے ہیں اور آج کل صدارتی امیدوار ہیں۔ حزب اللہ نے ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ یہ لبنان کی سیاست میں گذشتہ ایک عشرے سے حزب اللہ کے باقاعدہ اتحادی ہیں۔
سعودی بادشاہت کا اصل ہدف یہ ہے کہ حزب اللہ کو اس کے مضبوط گڑھ میں نقصان بھی پہنچایا جائے، لیکن یہ نقصان داخلی تقسیم کے ذریعے پہنچے۔ سبب اس کا یہ ہے کہ حزب اللہ یمن اور شام میں صہیونیت کے ایجنڈا سے متصادم موقف رکھتی ہے۔ یمن میں حزب اللہ کی حمایت کی حامل حوثی زیدیوں کی حرکت انصار اللہ کی وجہ سے سعودی فوجی عزائم ناکام ہوچکے ہیں۔ ایک سال ہونے والا ہے لیکن یمن جنگ کا نتیجہ سعودی عرب کے حق میں نہیں آسکا۔ اس پر مستزاد یہ کہ یورپی پارلیمنٹ نے سعودی بادشاہت پر یہ الزام لگایا ہے کہ اس کی فضائی بمباری کا نشانہ یمن کے نہتے شہری بن رہے ہیں۔ یورپی پارلیمنٹ نے سعودی عرب کو اسلحے کی فراہمی پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ بعض حلقوں کی رائے یہ ہے کہ لبنان کی دفاعی امداد روک کر وہ یمن جنگ کا نقصان کسی حد تو پورا کرنے کے قابل ہوجائے گا۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ لبنان کو سعودی امداد سے حاصل ہونے والے ہتھیار حزب اللہ تک بھی پہنچنے کا امکان تھا، اور صہیونی اسرائیل کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ ایسا ہو، اس لئے امریکا سے کہہ کر یا براہ راست سعودی عرب سے کہہ کر یہ امداد روکوا دی ہو۔
سعودی مائنڈ سیٹ یہ ہے کہ حزب اللہ اس وقت دو محاذوں پر مصروف ہے، ایک یہ کہ وہ براہ راست صہیونی حملوں کی زد پر ہے اور دوسرا یہ کہ وہ شام میں بشار الاسد کی حمایت و مدد کرنے وہاں بھی موجود ہے، اس لئے اس وقت اسے دباؤ میں لایا جاسکتا ہے۔ ایسے نازک وقت میں فرقہ وارانہ تنازعات حزب اللہ کے مفاد میں نہیں۔ چونکہ ٹائمنگ یہ ہے کہ حزب اللہ پر صہیونی اسرائیل کے حامی ممالک خاص طور پر امریکا اور بعض یورپی ممالک نے دباؤ میں اضافہ کیا ہے تو سعودی عرب سعد حریری کے مارچ 14 گروپ کے ذریعے اختلافات کو تصادم میں تبدیل کرنا اور پروپیگنڈا جنگ کے ذریعے رائے عامہ کو حزب اللہ کے خلاف تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ صرف یہی ایک تقسیم نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر سعودی عرب کے سفیر برائے لبنان جو پاکستان سے وہاں تعینات کئے گئے تھے، انہوں نے لبنان میں پناہ گزین فلسطینیوں کی صفوں میں موجود تکفیری گروہوں کے ذریعے فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں اجلاس بلوا کر انہیں بھی لبنان کی حکومت کی پالیسیوں اور حزب اللہ کے خلاف تیار رہنے کی ہدایت کی ہے۔ خاص طور پر عین الحلوہ کیمپ کہ جہاں 2007ء میں بھی ایک گروہ نے فسادات کئے تھے۔
اس منظر نامے کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے سعودی عرب نے جو اقدامات کئے ہیں، ان میں سرفہرست پچھلے مہینے لبنان کے ایک ہزار سے زائد شہریوں کے ریذیڈنسی پرمٹ منسوخ کر دیئے ہیں، یعنی اب وہ سعودی عرب میں رہ نہیں سکتے۔ ان متاثرہ افراد کی اکثریت مسیحی عرب اور شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس ایک فیصلے سے لبنان کی وہ 250 کمپنیاں متاثر ہوں گی، جو سعودی عرب میں مصروف کار ہیں۔ اب انہیں تین ماہ کا وقت دیا جائے گا کہ وہ ملک چھوڑ جائیں۔ مزید 90 خاندانوں کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ وہ بوریا بستر باندھ لیں۔ چار کمپنیوں کو حزب اللہ کے ساتھ تعلق کی بنا پر دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے۔ لبنان میں سعودی سفیر علی عواد العسیری نے فرانسیسی خبر رساں ادارے سے بات چیت کی، جو لبنان کے روزنامہ السفیر میں 24 فروری کو شایع ہوئی۔ اس کے مطابق انہوں نے کہا کہ اگر لبنان کی حکومت بعض اقدامات انجام دے تو لبنانیوں کو سعودی عرب سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔ ان اقدامات کی وضاحت میں انہوں نے کہا کہ اگر حکومت میں شامل ایک جماعت کی غلطیوں کی اصلاح کی جائے گی تو سعودی عرب اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے گا۔
بحرین، متحدہ عرب امارات اور کویت نے بھی سعودی عرب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے لبنان کے شہریوں کے خلاف بعض اقدامات کئے ہیں۔ ان میں بینک تعلقات معطل کرنا سرفہرست ہے۔ انہوں نے لبنان کی بینکوں سے شراکت داری اور لبنان میں اپنے قومی بینکوں کی شاخوں کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔ ان بینکوں نے لبنان کے مسیحی عرب اور شیعہ مسلمان تاجروں کے بینک اکاؤنٹس اور اثاثے منجمد کر دیئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ مزید اقدامات کے لئے بھی سعودی عرب پر تول رہا ہے۔ ان اقدامات میں شامل ہیں: لبنان کے مرکزی بینک میں رکھے اپنے ڈیپازٹس واپس لینا اور دیگر شہریوں کو بھی لبنان کی بینکوں سے ڈیپازٹس نکلوانے کی ہدایت کرنا؛ لبنان میں سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لینا اور جاری منصوبوں میں سرمایہ کاری سے رک جانا، لبنانیوں کو نئے سعودی ویزا دینے سے انکار کرنا، سعودی عرب اور لبنان کے مابین بینکاری سودے اور تبادلے روک دینا، دونوں ممالک کے درمیان فلائٹس آپریشن معطل کر دینا، سارے لبنانیوں کے رہائشی اجازت نامے منسوخ کرکے سبھی کو ملک بدر کر دینا، امپورٹ ایکسپورٹ ختم کر دینا، سفارتی روابط منقطع کرکے لبنان کا سفیر ملک بدر کرنا، ان کا سفارتخانہ بند کرنا اور اپنے سفیر کو واپس بلوا کر اپنا سفارتخانہ وہاں بند کر دینا اور خلیج فارس کی عرب ریاستوں کے شیوخ سے بھی ایسا کرنے کا مطالبہ کرنا۔ یہ سب کچھ کرنے کی سعودی عرب نیت رکھتا ہے۔
سعودی عرب لبنان کی حکومت اور افواج پر دباؤ ڈال کر انہیں بشار الاسد اور حزب اللہ کے خلاف اپنے منصوبوں میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس کا منصوبہ یہ ہے کہ ترک سعودی اتحادی افواج ترکی کے ساتھ شام کے سرحدی صوبوں میں یلغار کرکے یہ جواز فراہم کریں کہ دہشت گرد یہاں سے نکل کر لبنان کی سرحدی پٹی پر جمع ہوں اور اس کے ساتھ ہی شام کے مہاجرین بھی ترکی کی بجائے لبنان کی سرحدی پٹی کی طرف نقل مکانی کریں۔ یعنی یہ جنگ لبنان کی سرحدوں پر منتقل کی جائے۔ سعودی عرب کا یہ پاگل پن اپنی جگہ، لیکن اگر اس سازش پر عمل ہوگیا تو جعلی ریاست اسرائیل کو تحفظ حاصل ہوگا اور مسلمان اور عرب باہم دست و گریباں ہوں گے اور اس کی زد میں اسرائیل کے مخالف عرب مسیحی بھی آئیں گے۔ لیکن یہاں خیر کا ایک پہلو یہ ہے کہ لبنان کے عدم استحکام کی وجہ سے وہاں جو 15 لاکھ پناہ گزین ہوں گے، وہ لامحالہ لبنان چھوڑنے پر خود کو مجبور پائیں گے۔ یعنی وہ یورپ کا رخ کریں گے اور یورپ کے بعد ان کی اگلی منزل امریکا ہوگی۔ لبنان کے فوجی و سفارتی ذرائع اور باخبر صحافی و دانشور اس منظر نامے سے آگاہ ہیں۔ یورپی ممالک اور امریکا پناہ گزینوں کی اتنی بڑی تعداد کو خوش آمدید کہہ نہیں سکتے، اس لئے وہ سعودی عرب کو اس پاگل پن سے باز رہنے کا کہیں گے۔ پھر یہ بھی تو ممکن ہے کہ بشار الاسد کی حکومت اور اس کے اتحادی دہشت گردوں کو اس طرح گھیریں کہ فرار کے لئے صرف صہونیت کے زیر قبضہ علاقہ چھوڑا جائے اور یہ جنگ وہاں داخل کر دی جائے اور اسے عرب اسرائیل جنگ میں تبدیل کر دیا جائے۔ عرب رائے عامہ کسی طور فلسطین سے خیانت کرنے والوں کے حق میں نہیں۔ اس لئے سعودی پاگل پن میں تبدیلی کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button