مقالہ جات

شام میں سرگرم دہشت گرد عناصر کے حامیوں کی بنیادی ترجیحات

گذشتہ چار ماہ سے ایران، روس اور شام کی جانب سے تکفیری دہشت گرد عناصر کے خلاف جاری مشترکہ فوجی کاروائی، شام میں سرگرم دہشت گرد عناصر کی حامی قوتوں اور امریکا کی صدر بشار اسد کی حکومت کی سرنگونی پر مبنی اسٹریٹجی کے سامنے بڑا چیلنج ثابت ہوئی۔ لیکن گذشتہ چند ہفتوں کے دوران امریکا اور اس کے اتحادیوں کی حکمت عملی کے مقابلے میں ایک اور بڑا چیلنج معرض وجود میں آیا جب حلب کے شمالی محاذ پر شام آرمی اور رضاکار فورسز کو کئی بڑی کامیابیاں نصیب ہوئیں جن میں سے ایک دو اہم شیعہ شہر نبل اور الزھراء اور ان کے اردگرد چند قصبوں کی آزادی تھی۔ نبل اور الزھراء کے گرد دہشت گرد عناصر کا محاصرہ تھا جسے ایک بڑے فوجی آپریشن کے ذریعے توڑا گیا۔ یہ آپریشن چار بنیادی ارکان پر مشتمل تھا جن میں "مسلسل اور برتر گولہ باری کی طاقت”، "فوجی مہارت اور سرپرائز”، "بامقصد اور دقیق منصوبہ بندی” اور "شجاعانہ اور خطروں کا مقابلہ کرنے والا بسیجی کلچر” شامل ہیں۔
 اس عظیم فتح کے نتائج شام میں سرگرم دہشت گرد عناصر اور مغربی سیاسی اور فوجی حکام کی زبانی سننے میں آ رہے ہیں جو ایک جیسے ہیں اور دونوں ایک بڑے چیلنج اور اسٹریٹجک نقصان کی باتیں کر رہے ہیں۔ یعنی اگر جنیوا ۳مذاکرات سے پہلے چار ماہ پر مشتمل آپریشن دہشت گرد عناصر کے فوجی ڈھانچے کو نابود کر چکا تھا لہذا وہ سعودی ٹیم کی جانب سے جنگ بندی اور فوجی آپریشن روک دیے جانے کی پیشگی شرط کے ساتھ جنیوا آئے تھے، تو اب یہ دہشت گردوں یا ان کے حامیوں کی اسٹریٹجک ضرورت نہیں بلکہ بقا کی درخواست ہے۔ شمالی محاذ پر تل رفعت کی جانب نبل اور الزھراء آپریشن کا تسلسل جس کے دوران شام آرمی اور رضاکار فورسز کرد اور کوہستانی علاقوں کے قریب واقع قصبے دیر جمال کو آزاد کروانے میں مصروف ہیں، درحقیقت حلب کے شمال مغربی حصے کی صورتحال میں مکمل تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ شام آرمی اور رضاکار فورسز کا تل رفعت کو اپنے کنٹرول میں لینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ترکی کی سرحد سے صرف 13 کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچ چکے ہیں۔ اس فاصلے سے مسلسل گولہ باری کے ذریعے ترکی سے باب السلام تک تمام امدادی راستوں اور اسلحہ فراہمی کو مسدود کیا جا سکتا ہے جس کے باعث اس خطے سے النصرہ فرنٹ، احرار الشام اور القاعدہ سے وابستہ دوسرے تکفیری دہشت گروہوں سے وابستہ عناصر سے پاک کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح داعش اور النصرہ فرنٹ کی جانب سے باب السلام کی سرحد کے ذریعے خام تیل شام سے ترکی اسمگل کرنے جیسے اقدامات کا بھی روک تھام ممکن ہو سکتا ہے۔
مذکورہ بالا صورتحال کو حلب کے مشرقی اور جنوب مغربی محاذ اور شام کے دیگر خطوں میں جاری جنگ کی صورتحال سے ملا کر دیکھا جائے تو دہشت گرد گروہوں اور ان کے حامی ممالک کی فوجی اور سیاسی ترجیحات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ حدس و گمان شام میں جنگ بندی کیلئے آئندہ ہونے والے مذاکرات اور اسی طرح دہشت گرد گروہوں اور ان کے حامی ممالک کے ردعمل کی پیشین گوئی کرنے میں مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ جو چیز واضح ہے وہ یہ کہ سیاسی راہ حل کیلئے دہشت گرد گروہوں اور ان کی حامی قوتوں کی فوری اور ضروری ترجیحات شدید متاثر ہوئی ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ان کا اصلی ترین مطالبہ شام میں جاری اپنے خلاف ہوائی اور زمینی حملوں کو فوری طور پر متوقف کروانا ہے۔ وہ اپنے اس مطالبے کو "انسان دوستی” پر مبنی اقدامات کے لبادہ میں لپیٹ کر بیان کرتے ہیں اور براہ راست یا بالواسطہ طور پر روس اور شام آرمی کے حملوں کو بلاجواز ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دہشت گرد گروہوں اور ان کے حامی ممالک نے جنگ کے میدان میں اسٹریٹجک مشکلات کے باعث آئندہ جنیوا مذاکرات کیلئے یہ مطالبہ پیش کر رکھا ہے۔ دہشت گردوں کے حامی ممالک یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ "معتدل” کے نام سے انہیں نجات دلا سکتے ہیں۔ لہذا میونخ میں حاضر ایران، روس اور شام کے سفارتی وفود اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر تھے کہ دہشت گردوں کے مقابلے میں ہر قسم کی جنگ بندی انہیں دوبارہ منظم ہونے کا موقع فراہم کر دے گا۔ جنگ بندی صرف ایسے گروہوں سے امکان پذیر ہے جو حقیقتا معتدل ہیں۔ شام میں معتدل گروہوں کی بڑی علامت یہ ہے کہ تکفیری دہشت گرد گروہ انہیں بھی نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی گروہ خود کو معتدل ظاہر کرتا ہے جبکہ حقیقت میں اس کا تکفیری دہشت گرد گروہوں سے الحاق ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے اور ایسے گروہ سے جنگ بندی نہیں کی جا سکتی۔
اس وقت شام میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کے حامی ممالک کی پہلی ترجیح جنگ بندی کروا کر روس اور شام آرمی کے حملوں کو روکنا ہے۔ اس کے بعد ان کی اگلی ترجیح دہشت گرد گروہوں کو مالی اور فوجی امداد پہنچانے کیلئے نئے راستوں اور جدید طریقوں کی تلاش ہے۔ اسی طرح وہ دہشت گرد عناصر کی حوصلہ افزائی کر کے ان کی ہمت بڑھانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ سعودی عرب یا دوسرے ممالک کی جانب سے شام میں زمینی فوج بھیجنے پر مبنی پروپیگنڈے کا مقصد شام میں سرگرم دہشت گرد عناصر کو حوصلہ دینا اور انہیں نابود ہونے سے بچانا ہے لیکن ہمیں تمام احتمالات کو سامنے رکھنا چاہئے۔ شام میں زمینی فوج بھیجنے کے مختلف اہداف و مقاصد ہو سکتے ہیں جیسے داعش سے مقابلے کے بہانے شام میں فوجی موجودگی پیدا کر کے مذاکرات میں ان سے بہرہ برداری کرنا یا چند ممالک پر مشتمل فوجیوں کی شام میں موجودگی کو یقینی بنانا۔ جنگ بندی انتہائی محدود ہونی چاہئے جو صرف معتدل گروہوں سے برقرار کی جائے جبکہ تکفیری دہشت گرد عناصر کے خلاف جاری آپریشن بھرپور انداز میں جاری رہنا چاہئے۔ وسیع پیمانے پر جنگ بندی شام آرمی اور اس کے حامیوں کے خلاف سازش ثابت ہو سکتی ہے جبکہ ایسی صورت میں دہشت گرد عناصر اور ان کے حامیوں کو سنہری موقع ہاتھ آ جائے گا۔

متعلقہ مضامین

Back to top button