مقالہ جات

عالم اسلام میں دہشتگردی کے اسباب

برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر لارڈ نذیر کا کہنا ہے کہ بیرون دنیا کو اسلامک فوبیا ہو چکا ہے، جس کو ختم کرنے کیلیے کاوشیں کر رہے ہیں۔ لارڈ نذیر کا کہنا تھا کہ فرانس پر حملے میں یورپ ملوث ہے لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہندوستان میں انتہا پسندی قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اور دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین قابل احترام ہیں۔ لارڈ نذیر نے عالمی برادری سے عراق، ایران، افغانستان اور کشمیر میں مسلمانوں کے قتل کی تحقیقات انٹرنیشنل کورٹ سے کرانے کا مطالبہ کیا۔ دنیا اب ایک عالمی بستی ہے۔ اس کی کوئی بھی روش اب یکطرفہ اور بلا ردعمل نہیں رہتی۔ اس عالمی بستی کے سب باسی ایک دوسرے سے براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔ بحیثیت انسان اگر ہم اپنا اور دنیا کا مستقبل محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو ہم سب کو اپنے اپنے رویئے پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ آج کی دنیا میں اگر کوئی ایک فریق بھی ظلم، ہٹ دھرمی اور قتل و غارت پر بضد رہا تو یقیناً وہ خود بھی اس کا نشانہ بن کر رہے گا۔ ایک مسلمان ہونے کے ناتے حقیقی ذمہ داری ہماری ہے کہ ہم خود بھی حق شناس بنیں اور ظلم و ہلاکت پر تلی دنیا کو بھی حق سے آشنا کرتے رہیں۔ آج کی دنیا میں جان پر کھیل جانا یا دوسروں کی جان لے لینا کوئی بڑا کمال نہیں، اصل کمال یہ ہے کہ ہم اسلام کا روشن اور حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرسکیں۔ امریکہ اور اس کے گماشتوں کا کردار ہے جو فکری اور عملی، دونوں محاذوں پر سیاسی عمل کو پٹڑی سے اُتارنے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف کچھ عسکریت پسند گروہ بھی حالات کو بگاڑنے کے لئے بڑی چابک دستی کے ساتھ تباہ کاریوں اور خون خرابے میں سرگرم ہیں۔ ادھر حکومت کا یہ حال ہے کہ وہ اس خطرناک کھیل کا مقابلہ کرنے کے لئے پورے شعور اور زمینی حالات کے ادراک کے ساتھ ایک فعال پالیسی اختیار کرنے کے بجائے گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہے۔

جنگ عظیم اول کے بعد عالمِ اسلام کو استعماری طاقتوں نے تقسیم در تقسیم کیا اور برطانیہ، فرانس، اٹلی اور دیگر ممالک نے مسلم ممالک پر قبضے کئے۔ فرانس اور برطانیہ نے ۱۹۱۷ء میں اسرائیل کے قیام کی راہ ہموار کی اور خطے کی تقسیم کے نتیجے میں آزاد مسلم ممالک وجود میں آئے۔ اس تقسیم کا مقصد آزاد مسلم ممالک کے درمیان خانہ جنگی کروانا اور ان کی معدنیات پر ہاتھ صاف کرنا تھا۔ خزانے لوٹ کر اپنے ممالک میں پہنچائے گئے۔ جب مسلمانوں کی تہذیب اور زبان کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو ہر خطے میں ایسے لوگ اٹھے جنھوں نے ان استعماری طاقتوں کے خلاف طویل جدوجہد کرکے آزادی کی شمعوں کو روشن اور خوابیدہ مسلمانوں کو بیدارکیا۔ پاکستان سے لیبیا تک آزاد ممالک وجود میں آگئے۔ اقوام متحدہ کے نقشے پر جگہ جگہ مسلم ریاستیں نمودار ہوئیں اور انھوں نے وحدت و ترقی کا سفر شروع کیا۔ ان ریاستوں میں قدرت کے عنایت کردہ پوشیدہ ذخائر تھے۔ تیل کے سمندر اور سونے و ہیرے جواہرات کے ذخائر دریافت ہوئے۔

ترقی و خوش حالی کی طرف مسلمانوں کا گلوبل مارچ شروع ہوا تو سامراجی قوتوں نے پہلا وار پاکستان پر کر کے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنادیا۔ عراق، جہاں کی فوج اور کرنسی دونوں مضبوط تھیں، اسے پہلے ایران اور پھر کویت سے لڑایا اور پھر اس پر براہ راست حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، اور کارپٹ بمباری کے ذریعے وہاں کی فوج کو منتشر اور وحدت کو پارہ پارہ کیا۔ عراقی صدر صدام حسین کو پھانسی دی اور شیعہ سُنّی فسادات شروع کروا کر ملک کو تقسیم کر دیا۔ افغانستان نے روسیوں کے خلاف طویل جہاد میں ۱۵ لاکھ شہداء کی قربانی دے کر آزادی حاصل کی، مگر ابھی شہداء کا خون خشک نہیں ہوا تھا اور افغان قوم نے آزادی کی بہار نہیں دیکھی تھی کہ اس پر بھی ۵۲۔بی بم بار طیاروں سے بمباری ہوئی اور ۴۶ممالک کی فوجوں نے امریکی قیادت میں افغانستان کو قبرستان بنا دیا۔ لیبیا میں براہ راست کارروائی کر کے وہاں نظام کو درہم برہم کیا گیااور اس وقت وہاں پر مسلح تنظیمیں ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہی ہیں۔ شام میں لاکھوں مسلمان شہید کر دیے گئے اور تباہی کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ ہر طرف یہی استعماری قوتیں مدد دے رہی ہیں اوران کی سازشوں سے اس وقت تقریباً اسلامی ممالک میں باہمی جنگیں جاری ہیں۔

عالمی استعماری قوتیں ہمیشہ سے اسلامی ممالک میں جمہوریت کی حوصلہ شکنی کرتی رہی ہیں اور ہر جگہ بادشاہوں اور فوجی آمریت کو سپورٹ کیا ہے۔ آمرانہ حکمرانی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ مفید مطلب حکومتوں کو بروے کار لایا گیا ہے۔ جہاں بھی عوام حق راے دہی کے ذریعے اپنے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں، وہاں اسے سازشوں کے ذریعے سبوتاژ کر دیا جاتا ہے۔ الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ الیکشن میں جیت گیا، مگر اسے اس لیے تسلیم نہیں کیا گیا کیوں کہ اس کی منزل اسلام تھی۔ فوج کے ذریعے وہاں جمہوریت کا گلا دباکر ۸۰ہزار کارکنان کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ فلسطین میں حماس کی جیت کو تسلیم نہیں کیا گیا اور تبصرہ کیا گیا کہ دو سَروں والا سانپ ہے جس کے ایک سر پر ووٹ ہے اور دوسرے پر گولی۔ مصرکو طویل عرصے کے بعد جمہوری حکمران ملا تو اس کے خلاف سازش کی گئی اور فوج کو استعمال کرکے ہزاروں کارکنان کو شہید کرنے کے بعد صدر محمد مرسی کو ہزاروں کارکنان کے ساتھ جیل میں ڈال دیا گیا۔ پاکستان میں بھی امریکا اور یورپ نے ہمیشہ فوجی آمریت کی حمایت کی۔ جمہوریت کے مقابلے میں آمریت کو ترجیح اور جمہوری حکمرانوں کے مقابلے میں فوجی ڈکٹیٹروں کو زیادہ امداد دی کیونکہ پارلیمنٹ کی موجودگی میں وہ فوائد نہیں لیے جا سکتے جو ڈکٹیٹر سے لیے جا سکتے ہیں۔ جمہوری حکومت، عوام اور اداروں کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے، جب کہ ڈکٹیٹرکی جڑیں عوام میں نہیں ہوتیں اور وہ مغرب کا محتاج ہوتا ہے۔

امریکا اور اس کے مغربی حواری چاہتے ہیں کہ عالمِ اسلام میں جنگ ہو اور مسلمان آگے بڑھ کر تعلیم و ترقی کے میدان میں ان کا مقابلہ کرنے کے بجائے آپس میں دست و گریباں رہیں اور ایک دوسرے سے لڑکر تباہ ہوتے رہیں۔ اس وقت جہاں جہاں جنگ ہو رہی ہے تو یہ ان کی باقاعدہ طویل منصوبہ بندی کی وجہ سے ہے۔ امریکا اور مغرب کی اسلحہ سازی کی صنعت ان کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔ اسی لیے وہ جنگوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور اپنے لیے نئی مارکیٹ تلاش کرتے ہیں۔ جنگ ہو تو ان کی اسلحہ انڈسٹری ترقی پاتی اور زرمبادلہ کماتی ہے۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے پاس کتاب اور دلیل کی قوت ہے اور مغرب کی جنگی مشینری کا مقابلہ اسی سے کیا جاسکتا ہے ۔ ضروری ہے کہ امریکا و یورپ کی سازش کا شکار ہونے کے بجاے نئی نسل کے ہاتھ میں قلم اور کتاب دی جائے اور لائبریریوں اور لیبارٹریوں کو آباد کیا جائے۔ مسلمانوں کا شان دار ماضی ان کے شان دار مستقبل کی نوید ہے۔ مغرب کے زوال پذیر سرمایہ دارانہ نظام کے مقابلے میں ان کے پاس عدل و انصاف پر مبنی اسلامی نظام ہے۔

2011ء میں عالم عرب کے کئی ممالک میں آمریت سے نجات کی لہر اُٹھی۔ تیونس، مصر، لیبیا، شام اور یمن میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ ان میں سے ہر ملک کے حالات مختلف اور تفصیل طلب ہیں۔ لیبیا تیل کے سمندر پر واقع ایک بڑا ملک تھا۔ ناٹو افواج میدان میں کود پڑیں اور قذافی پر پل پڑیں۔ وہاں کھیل ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ اسلامی قوتوں کو اقتدار میں آنے سے روکنے کے لیے ملک کے ایک حصے کو مسلسل انتشار کا شکار رکھا جا رہا ہے۔ لیکن ملک کا ایک بڑا علاقہ جنگ سے محفوظ ہے۔ شام مقبوضہ فلسطین کے پڑوس میں واقع ایک اہم تاریخی ملک ہے۔ اس کے ایک حصے جولان (گولان) پر صہیونی ریاست نے قبضہ کررکھا ہے۔ شامی حکومت نے مختلف فلسطینی تنظیموں کو وہاں رہنے کی اجازت دے رکھی تھی اور اس حقیقت سے بھی سب آشنا ہیں کہ صہیونی ریاست کو جب بھی حقیقی خطرہ لاحق ہوگا، اس میں شام کا کردار بہت اہم ہوگا۔ گذشتہ چار سال سے جاری شام کی خانہ جنگی نہ صرف اب ایک علاقائی جنگ کی صورت اختیار کر گئی ہے، بلکہ اس آگ میں فرقہ واریت اور علاقائی نفوذ کی دوڑکا تیل بھی چھڑکا جارہا ہے۔ بدقسمتی سے عراق میں امریکی افواج کی آمد کے بعد وہاں عرب کرد اور شیعہ سنی تقسیم اتنی گہری کردی گئی۔ قبائلی سرداروں، ان کے مسلح جتھوں اور صدام حسین کے سابق فوجیوں نے بھی داعش کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا۔ عراق میں الاخوان المسلمون کے ایک بزرگ رہنما، اخوان کی سیاسی تنظیم حزب اسلامی کے سابق سربراہ اور بغداد یونی ورسٹی کے علاوہ عالم عرب کی کئی جامعات میں شریعت اسلامی کے سابق پروفیسر، ڈاکٹر محسن عبدالحمید کے مطابق داعش کے خلیفہ ابوبکر البغدادی کا نام ایاد السامرائی ہے اور وہ ان کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ کسی نے جنابِ بغدادی سے پوچھا کہ آپ کے استاد ڈاکٹر محسن عبد الحمید نے آپ کی بیعت نہیں کی، اگر وہ آپ کے ہاتھ آگئے تو کیا آپ انھیں بھی ذبح کردیں گے؟ خلیفہ صاحب نے جواب دیا بہرحال وہ میرے استاد ہیں، میں خود تو انہیں ذبح نہیں کروں گا، لیکن اگر میرے کسی ساتھی نے ایسا کر دیا تو میں اسے منع نہیں کروں گا۔ داعش کا فکر و فلسفہ جاننے کے لیے شاید اس سے زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ داعش کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سمجھنے میں کوئی دقت نہیں کہ عالم اسلام میں دہشت گردی کو فروغ دینے میں امریکہ کا بنیادی کردار ہے

متعلقہ مضامین

Back to top button