مقالہ جات

کیا الازھر بھی بک گیا؟

مسلمانوں کی قدیمی دینی درسگاہ جامعۃ الازھر کے سربراہ شیخ الازھر نے سانحہ کے منی کےبعد آخر کار اپنی خاموشی توڑتے ہوئے سعودی عرب پر تنقید کرنے کے بجائے آل سعودکی تعریف و تمجید کی اور آل سعود کو سانحہ منی کا ذمہ دار قراردینے سے صاف انکار کردیا۔ شیخ الازھر احمد الطیب نے آل سعود کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ٹیلیفون پر رابط کرکے سانحہ منی اور مسلمانوں کی مصیبت سے سیاسی اھداف کے لئے غلط اور غیر اخلاقی فائدہ اٹھائے جانے کی مذمت کی اور کہا کہ الازھر اور اس کے علما سعودی عرب کی حمایت اور اسکی کوششوں پر شکریہ اداکرتے ہیں۔ الازھر کے نائب سربراہ نے بھی یہ دعوی کیا کہ سعودی عرب نے کامیابی سے حج کے انتظامات کئے ہیں اور الازھر اس آزمائش کی گھڑی میں ریاض کے ساتھ ہے۔
واضح رہے کہ سانحہ منی میں سعودی عرب کو کلین چٹ دیتے ہوئے بھی اور اسے کسی بھی طرح کے سازشی اقدام سے بری کرتے ہوئے بھی سعودی عرب پر تساہلی اور غفلت کی بنا پر سانحہ منی میں مقصر ہونے کا الزام لگایا جاسکتا ہے۔ یہ سعودی عرب کی تساہلی اور بدانتظامی ہی تھی جس کی وجہ سے ہزاروں حاجیوں کو جاں سے ہاتھ دھونا پڑا۔
ویکی لیکس نے اپریل دوہزار بارہ میں سعودی عرب کے تعلق سے ایک دستاویز جاری کی تھی جس میں انکشاف کیا گيا تھا کہ شیخ الازھر نے جامعۃ الازھر میں تقریب مذاہب کانفرنس کرانے سے پہلے سعودی عرب سے اجازت لی تھی اور اس بات کی تردید خود الازھر نے بھی نہیں کی ہے جس سے الازھر کے ایک مستقل مذہبی ادارہ ہونے پر شکوک پیدا ہوجاتے ہیں اور لوگ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ کہيں الازھر بھی سعودی دربار سے وابستہ نہ ہوگيا ہو۔ اس مسئلے کے پیش نظر عراق کی شیعہ عوامی فورسز کے بارے میں الازھر کا موقف جاننا خالی از لطف نہ ہوگا الازھر نے گذشتہ مارچ میں یہ دعوی کیا تھا کہ عراق کی عوامی فورس ان عام سنی شہریوں کا قتل عام کررہی ہے جو داعش اور دیگر دہشتگرد گروہوں سے وابستہ نہیں ہیں۔ البتہ بغداد کی جاناب سے مصر کے سفیر کو وزارت داخلہ طلب کرنے کے بعد قاہرہ کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ الازھر کا موقف کسی بھی طرح سے سیاسی موقف نہیں کہا جاسکتا اور صرف ایک مذہبی ادارے کا موقف ہے جو اھل سنت کے حقوق کے دفاع کی غرض سے بیان کیا گيا ہے۔دراصل الازھر کے اس موقف سے قاہرہ نے خود کو الگ کرلیا۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ مصری سیاسی رہنما محمد البرادعی نے نے کہا تھا کہ الازھر کے شیوخ پر بے حد دباؤ ہے تھا کہ وہ عراق کی عوامی فورسز کے خلاف بیان جاری کریں اور سعودی عرب نے اس بیان کے عوض الازھر کو تین ارب ڈالر کا عطیہ دیا ہے۔
ان مسائل سے صاف ظاہر ہے کہ الازھر جیسا ادارہ بھی خود مختار نہیں بلکہ وابستہ ہے اور ایرانی ڈائرکٹر کی فلم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلم کے بارے میں الازھر کا موقف بھی شاید آل سعود سے وابستگي کی بنا پر ہی سامنے آیا ہے۔
یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب بھی الازھر کو اپنے اقدامات کا جواز پیش کرنے کےلئے استعمال کررہا ہے اور اس نے اس کے لئے الازھر کو بے پناہ پیسہ دینے کا بھی وعدہ کرلیاہو۔
ادھرالازھر بھی چاہتا ہے کہ وہ عالم اسلام میں سب سے بڑے مذہبی ادارے کی حیثیت سے پہچانا جائے،اس ھدف کے لئے اسے سعودی عرب کی مالی امداد کی ضرورت ہے شاید اسی وجہ سے شیوح الازھر یہ بار بار کھ رہے ہیں کہ ان کا ادارہ سعودی عرب کے ساتھ ہے۔ الازھر خود کو سعودی عرب کے علماء کا رقیب سمجھتا ہے۔ وہابی علماسے الازھر کی رقابت رہی ہے اور اپنا موقف ضرور بیان کرتا ہے لیکن کوئي ضروری نہیں ہے کہ یہ موقف شیعہ مسلمانوں کے خلاف ہی ہو بلکہ الازھر کو عالم اسلام کی قیادت کا دعوی ہے اور اسے یہ پوزیشن حاصل کرنے کے لئے سعودی عرب کی مالی امداد کی ضرورت ہے۔ مختلف حلقوں کو اپنے سیاسی اھداف کے لئے استعمال کرے کا یہ معنی نہیں ہے کہ سعودی عرب سیاسی، قانونی اور تکنیکی سوالوں کا جواب نہ دے ۔ سعودی عرب کو ان سوالوں کا واضح جواب دینا ہوگا اور یہ ذمہ داری قبول کرنی ہوگي کہ اس کی تساہلی سے ہزاروں افراد کی جان گئي ہے۔ آل سعود نے اس مرتبہ بھی پہلے کے واقعات کی طرح ہی سانحہ منی کو نمٹادیا ہے اور عالمی سطح پر اپنے خلاف غم و غصے کو کم کرنے کی کوشش کررہی ہے یہانتک کہ الازھر کو اپنی حمایت پر مجبور کرکے کشیدگي میں کمی لانا چاہتی ہے تا کہ عالمی رائے عامہ سانحہ منی کو بھول جائے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button