مقالہ جات

ایران امریکہ تعلقات کا مستقبل؟

ایران اور پانچ عالمی طاقتوں کے درمیان ایٹمی معاہدہ ہونے کے بعد جو موضوع عالمی سیاست میں سب سے زیادہ زیر بحث ہے وہ ایران اور امریکہ کے مستقبل کے تعلقات ہیں ۔ایک حلقہ یہ کہتا ہے کہ تین عشروں کے اختلاف کے بعد ایران اور امریکہ سفارتی تعلقات بحال کرلیں گے اور سب کچھ ٹھیک ہو جائیگا ایک گروہ کا یہ کہنا ہے کہ ممکن ہے تعلقات ٹھیک ہو جائیں لیکن اس مین کوئی خاص گرمجوشی نہیں ہوگی۔ایک حلقہ یہ بھی دعوی کرتا ہے کہ اس معاہدہ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور دونوں اپنی اپنی پوزیشن پر رہیں گے لیکن ممکن ہے کشیدگی کی سطح پہلی کی طرح نہ ہو۔ایران کے اندر بھی اس پر اختلاف نظر سامنے آرہا شاید اسی بنا پرامریکی صدر اوباما کا کہنا ہے کہ ایران اور پانچ جمع ایک گروپ کے ایٹمی معاہدے سے ایران اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری لانے کا موقع فراہم ہوا ہے۔ باراک اوباما نے ہفتے کو سی این این چینل کے ساتھ انٹرویو میں کہا ہے کہ ایٹمی معاہدہ اس حتمی ھدف کی زمین ہموار کرے گا جو تہران اور واشنگٹن کے تعلقات سے عبارت ہے۔
امریکہ نے ماضی میں ایران کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے بہت سے مواقع گنوائے ہیں اور اس زمانے میں ایران کے ساتھ مستقبل میں تعلقات قائم کرنے کی بات محض لفاظی ہی کیوں نہ ہو اس کا حقیقت سے بہت زیادہ فاصلہ ہے۔ ایران اور امریکہ کے درمیان بہت سے تلخ مسائل ہیں جنہوں نے کئي برسوں سے دونوں ملکوں کے تعلقات پر سایہ ڈال رکھا ہے اسی وجہ سے ان رکاوٹوں پر حقیقت پسندی سے نظر ڈالنی چاہیے۔ صدر اوباما یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ ایران سے دشمنی نہيں چاہتے لیکن وہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کا دفاع کرتے ہوئے ایران کو بدستور خطرہ بنا کر پیش کررہے ہیں اور اس زاویے سے دعوے کررہے ہیں کہ مشرق وسطی میں ان کا اگلا قدم ایران کی علاقائی پالیسیوں کے حوالےسے نام نہاد تشویشوں کو دور کرنا ہے۔ امریکہ نے علاقے میں اپنے روایتی اتحادیوں اور ایران کے ہمسایہ ملکوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں بدستور اربوں ڈالر کے ہتھیار فراہم کرتا رہے گا تا کہ ان کے بقول ایران کے خطروں کے مقابلے میں ان کی سکیورٹی کو تقویت ملتی رہے۔امریکہ کی اس پالیسی کے معنی علاقائي ملکوں کے درمیان تفرقے اور بے اعتمادی کے بیج بونا ہے۔ اوباما نے سی این این سے اس انٹرویومیں کہا کہ ہم نے اس حکومت کے ساتھ مذاکرات کئے ہیں جو مردہ باد امریکہ کا نعرہ لگاتی ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں کہا کہ کس وجہ سے ایرانی قوم یہ نعرہ لگاتی ہے؟ ایران کے خلاف امریکہ کے دشمنانہ اقدامات کی ماہیت کو سمجھنے کے لئے نہ صرف گذشتہ تین دہائیوں بلکہ گذشتہ نصف صدی پر نگاہ ڈالی ہوگی۔ ایران کے خلاف امریکہ کے اقدامات محض فوجی بغاوت اور امریکی سفارتخانے کی جاسوسی کی سرگرمیوں تک محدود نہیں ہیں۔اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعدامریکہ نے پہلا قدم یہ اٹھایا تھاکہ امریکی بینکوں میں موجود ایران کے اثاثوں کو منجمدکرکے ایران کے خلاف اقتصادی محاصرے اور ایران کو الگ تھلک کردیاجائے، یہی نہیں امریکہ نے گذشتہ برسوں میں ایران میں عدم استحکام لانے کے لئے بہت سے اقدامات کئے ہیں۔ امریکہ نے انیس سو اکاسی میں ایران کے مشرقی صحرا طبس میں فوجی مداخلت کی تھی اس کے علاوہ مسلط کردہ جنگ میں صدام کی بھر پور حمایت بھی کی تھی۔ امریکہ کے جنگي جہاز وینسنس نے جولائي انیس سو اٹھاسی میں ایران کے مسافر طیارے پرمیزائل حملہ کرکے ایک اور مجرمانہ کاروائي انجام دی تھی۔امریکہ کے اس گھناونے اقدام کے نتیجے میں دو سو نوے مسافر جاں بحق ہوئے تھے۔ امریکہ کے سابق صدر جارج بش نے سن دوہزار میں اپنی ایک تقریر میں ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے بارے میں یہ دعوی کیا تھا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام مشرق وسطی میں ایٹمی ہولوکاسٹ
کا سبب بن سکتا ہے۔ امریکہ کے یہ تمام دشمنانہ اقدامات گذشتہ نصف صدی میں امریکہ کے سیاہ کارناموں اور ملت ایران سے اس کی دشمنی کے چندنمونےاور ثبوت ہیں اور ہرگز ملت ایران کے ذہن سے محو نہیں ہوسکتے۔ اس وقت اگرچہ اوباما کوشش کررہے ہیں کہ ان کی روش پہلے کے صدور سے مختلف ہے لیکن انہوں نے عملا یہ ثابت کردیا ہے کہ ایران کے بارے میں ان کے نظریات اور ان سے پہلے کے صدور کے نظریات میں کوئي فرق نہیں ہے۔ اوباما کی پالیسیاں دراصل وہی ماضی کی پالیسیاں ہیں اور وہ ان ہی پالیسیوں کے زاویے سے ایران کو دیکھتے ہیں لھذا ایٹمی معاہدے کے بعد ایران اور امریکہ کے تعلقات کے بارے پیشین گوئي کرنے کے لئے بہت سے امور کو مد نظر رکھنا ہوگا اور آئندہ آنے والا وقت ہی اس سلسلے میں کوئي فیصلہ کرسکے گا۔ اسی وجہ سے ایران اور امریکہ کے درمیان اس وقت صرف ایٹمی مسائل پر گفتگو ہوئي ہے، اس موضوع سے ہٹ کر دونوں ملکوں میں کوئي بات چیت نہیں ہوئي۔ امریکہ کے تعلق سے ایران کی نگاہ اسی وقت بدلے گي جب امریکہ عملی طور پر اپنے رویئے میں تبدیلی لائے گا۔ اسی تناظر میں عید فطر کے خطبے میں رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ امریکہ کے مقابلے میں ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کی سیاست کسی بھی صورت تبدیل نہیں ہو گی فرمایا تھا کہ ہم دو طرفہ مسائل، خطے اور دنیا کے مسائل کے بارے میں امریکا سے کسی بھی قسم کے مذاکرات نہیں کریں گے مگر ایٹمی مسئلے جیسے استثنائی موضوعات میں کہ ماضی میں بھی اس طرح کے مذاکرات کئے گئے ہیں۔

آپ نے دہشتگرد اور بچوں کی قاتل صیہونی حکومت کی حمایت اور حزب اللہ لبنان کے فداکار مجاہدین کو دہشتگرد قرار دینے کی امریکی سیاست پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ خطے میں ایران اور امریکا کی سیاست میں ١٨٠ ڈگری کا اختلاف ہے بنا بر ایں یہ کس طرح ممکن ہے کہ انکے ساتھ مذاکرات کئے جائیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button