دہشتگردمدارس کی صحیح تعداد معلوم نہیںرحمان ملک
شیعت نیوز۔پاکستان میں دہشت گردی سے نمٹنے کے قومی ادارے نیکٹا کے رابطہ کار نے تسلیم کیا ہے کہ ملک میں مدارس کی صحیح تعداد کا علم نہیں ہے اور اندازے کے مطابق مختلف دینی مکاتبِ فکر کے تقریباً 18 ہزار سے 29 ہزار مدارس کام کر رہے ہیں۔
جمعرات کو اسلام آباد میں نیکٹا کے رابطہ کار حامد خان نے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ امور کے اجلاس میں دہشت گردی کے خاتمے کے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے بارے میں بریفنگ دی۔
انھوں نے بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تین ہزار سے زائد ایسے افراد کی شناخت ہوئی ہے جو ملک دشمن سرگرمیوں میں کافی متحرک ہیں۔
سینیٹر رحمان ملک کی صدارت میں ہونے اجلاس میں نیکٹا کے رابطہ کار حامد خان نے بریفنگ میں بتایا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایسے مشبتہ اکاؤنٹ بند کر دیے ہیں جن میں دو ارب روپےسے زائد کی رقم پڑی ہوئی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اطلاعات ملی تھیں کہ ان اکاؤنٹوں میں موجود رقم شدت پسندی میں استعمال ہوتی ہے۔
نیکٹا کے رابطہ کار نے کمیٹی کے اراکین کو بتایا کہ شدت پسندی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت اب تک 46 ہزار سرچ آپریشن کیے گئے ہیں اور 49 ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ گرفتار ہونے والوں میں سے کتنے افراد مختلف جیلوں سے رہا ہوئے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ شدت پسند کے ساتھ روابط ثابت ہونے پر 300 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں آٹھ ہزار سے زائد افراد کو انسداد دہشت گردی کے فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا ہے جن کی نگرانی کی جا رہی ہے۔
اجلاس کے دوران بتایا گیا کہ اب تک ملک بھر میں 137 افراد کو پھانسی دی گئی ہے جس کے جیلوں کے اندر اور باہر مثبت اثرات پڑے ہیں۔
اجلاس میں حکام نے تسلیم کیا ہے کہ حکومت کو ملک بھر میں مدارس کی تعداد کا علم نہیں ہے۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ کچھ رپورٹ کے مطابق مدارس کی تعداد 18000 سے 29000 تک ہے۔
اجلاس میں موجود سینیٹر صالح شاہ کا کہنا تھا کہ مدارس پر الزامات عائد کیے جاتے ہیں کہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے افراد ان مدارس سے پکڑے جا رہے ہیں جبکہ حال ہی میں کراچی میں شدت پسندی کے واقعات میں گرفتار ہونے والے افراد کا تعلق کالجوں اور یونیورسٹیوں سے ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والے افراد انھی تعلیمی اداروں میں ہیں اور حکومت کو ان اداروں پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔
کمیٹی کے رکن سینیٹر چوہدری تنویر کا کہنا تھا کہ حلومت کو چاہیے کہ شدت پسند تنظیموں کی پشت پناہی کرنے والی سیاسی جماعتوں کو بھیبےنقاب کیا جائے۔
قائمہ کمیٹی کے چیئرمین رحمان ملک نے افغانستان کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر ملا فضل اللہ کو پاکستان کے حوالے کرے، تاکہ ملک میں شدت پسندی کے واقعات میں کمی آئے۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں اسلحے کے سوا دو لاکھ اور پنجاب میں دس ہزار لائسنس منسوخ کیے گئے ہیں اور سندھ اور بلوچستان میں بھی اس بارے میں کام ہو رہا ہے۔