پاکستان

جنگ مسئلے کا حل نہیں، یمن بحران کا پرامن حل، مشترکہ کوششیں کرینگے، پاکستان، ایران

پاکستان اور ایران نے یمن میں جاری بحران مذاکرات کے ذریعے پرامن انداز میں حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور اس سلسلے میں دونوں ملکوں نے اس ضمن میں مشترکہ کوششیں جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ پاکستان کے دورہ پر آئے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز کیساتھ دوطرفہ مذاکرات کئے، جس دوران یمن کی صورتحال ایجنڈا پر غالب رہی۔ دونوں قائدین نے دفتر خارجہ میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا۔ سرتاج عزیز نے یمن میں (ان کے بقول) باغیوں کو اسلحہ کی فراہمی روکنے کی ضرورت اجاگر کی جبکہ ایرانی وزیر خارجہ نے یمن میں حملے روکے جانے کا مطالبہ دہرایا۔ پریس کانفرنس کے دوران سرتاج عزیز نے کہا کہ یمن میں جاری بحران عالمی اور علاقائی ہر سطح پر سخت باعث تشویش ہے۔ خونریزی کے خاتمہ کیلئے فریقین کو مذاکرات کی راہ اختیار کرنا ہوگی اور لچک دکھانا ہوگی۔ سرتاج عزیز نے کہا یہ بحران ختم کرنے کیلئے (ان کے بقول) باغیوں کو اسلحہ کی فراہمی روکنے اور یمن میں فریقین کے درمیان مذاکرات شروع کرانے کیلئے سلامتی کونسل کی قرارداد لانے کی تجویز ہے، تاکہ یمن میں قانونی حکومت کا خاتمہ کرنیوالے گروپوں کیخلاف پابندیاں عائد کی جا سکیں۔ یمن میں صرف جنگ بندی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرنا بھی ضروری ہے۔

اسلامی جمہوری ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا کہ چار اقدامات کے ذریعے یمن بحران ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ سب سے پہلے یمن میں جنگ بندی کی جائے، وہاں انسانی بنیادوں پر مدد فراہم کی جائے، یمن کا مسئلہ وہاں عوام خود حل کریں، فریقین کے درمیان مذاکرات کرانے کیلئے سہولت کار کا کام کیا جائے، یمن میں وسیع البنیاد حکومت قائم ہونی چاہیے۔ یمن میں متحارب گروپوں کے درمیان مذاکرات کیلئے پیشگی شرط نہ رکھی جائے، غیر ملکی بمباری کا سلسلہ بند کی جائے، یمنی گروپوں کو باہم مذاکرات کے لئے مجبور کیا جائے کیونکہ یمن میں القاعدہ اور داعش پہلے ہی قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ایران یا سعودی عرب کو مسئلے کا فریق بننے کے بجائے یمنی گروپوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اپنے 4 نکات پاکستانی، ترک اور اومان کے رہنماوں کے سامنے رکھے ہیں۔ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں، مسئلہ کا سیاسی حل کی تلاش ضروری ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ ایران کو یمن کی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیئے تو جواد ظریف نے کہا کہ ہم تو یمن میں بمباری نہیں کر رہے۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ پارلیمنٹ جو بھی سفارشات دیگی، حکومت اس پر پوری طرح عمل کریگی۔ اب تک کی بحث میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ارکان پارلیمنٹ یمن کی اندرونی جنگ میں پاکستان کی مداخلت نہیں چاہتے، انکی رائے ہے کہ پاکستان کو کسی جارحانہ کارروائی کا حصہ نہیں بننا چاہیئے۔ پارلیمنٹ میں یہ اتفاق بھی دکھائی دے رہا ہے کہ سعودی عرب کی سالمیت یا علاقائی یکجہتی کو لاحق کسی خطرے کی صورت میں اس کا بھرپور دفاع کیا جائیگا۔ قبل ازیں سرتاج عزیز نے افتتاحی بیان میں کہا کہ ایرانی وزیر خارجہ سے انکی دوطرفہ امور علاقائی و بین الااقوامی معاملات پر بات ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان، ایران کے ایٹمی پروگرام پر پی فائیو پلس ون کے ساتھ معاہدے کا خیرمقدم کرتا ہے۔ ایران پر عائد پابندیاں اٹھنے کی صورت میں پاکستان، ایران تجارتی تعلقات کو فروغ ملے گا۔ پاکستان نے ایران کے ساتھ بارڈر منیجمنٹ بہتر بنانے پر زور دیا ہے۔ گیس پائپ لائن منصوبے کو مدد ملے گی۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں داعش اور القاعدہ کے خطرے سے تشویش ہے، ایران پاکستان کیساتھ ملکر ان مسائل کا حل چاہتا ہے، ایران اور پاکستان کے درمیان سیاسی مشاورت بڑھانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ ایران کے آٹھ سرحدی محافظوں کے مارے جانے کا مسئلہ بہت اہم ہے، پاکستان نے اس پر افسوس کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ چیلنجز اور مواقع موجود ہیں۔ ایران، افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری کا خیرمقدم کرتا ہے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ ایرانی وزیر خارجہ سے دوستانہ تعلقات کے فروغ پر بات چیت ہوئی۔ پاکستان اور ایران کا دہشتگردی کے خلاف تعاون پر اتفاق ہے، چاہتے ہیں کہ مسلم امہ میں اتحاد قائم ہو۔ یمن میں جاری بحران ختم ہونا چاہیے، یمن کی صورتحال پر پاکستان کو تشویش ہے، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف دونوں ملک یکساں موقف رکھتے ہیں، ہم نے خطے میں امن پر بات چیت کی۔ ایران، پاکستان گیس پائپ لائن سمیت دو طرفہ تعلقات کو آگے بڑھائیں گے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہماری بات چیت کا محور دو طرفہ تعلقات اور علاقائی امن تھا، یمن کا مسئلہ جنگ سے حل نہیں ہوگا، یمن میں فوری سیز فائر کیا جائے۔ وہاں فضائی اور زمینی حملے بند کئے جائیں، ہم نے پاکستان کے ساتھ سرحدی انتظام کو موثر بنانے پر اتفاق کیا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق ایران اور پاکستان نے یمن کی جنگ کا مذاکرات کے ذریعے حل نکالنے کے لئے کام کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ ہمیں خطے میں مشترکہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ یمن کی صورتحال پر پاکستان کو تشویش ہے۔ پاکستان اور ایران کا دہشت گردوں کیخلاف تعاون پر اتفاق ہوا ہے۔ یمن میں جاری بحران ختم ہونا چاہئے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کیخلاف دونوں ممالک یکساں موقف رکھتے ہیں۔ ایران سے گیس پائپ لائن سمیت دوطرفہ تعلقات آگے بڑھائیں گے۔ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا کہ پاکستان میں دوبارہ آمد پر خوشی ہے۔ اسلام خون خرابے کا درس نہیں دیتا، خطے عوام کے مفاد میں تعلقات آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان گہرے روابط ہیں۔ یمن کے مسئلے کا پرامن حل ضروری ہے۔ اس سے قبل ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف پاکستان کے دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچے۔ وہ وزیراعظم نواز شریف سمیت دیگر اعلٰی حکام سے ملاقاتیں کرینگے اور انہیں یمن کی صورتحال پر ایرانی موقف سے آگاہ کرینگے۔ ایرانی وزیر خارجہ آرمی چیف راحیل شریف سے بھی ملیں گے۔

جواد ظریف نے کہا کہ پاکستان اور ایران کو یمن کے بحران کے حل کیلئے باہمی تعاون کرنا چاہئے۔ مسئلے کے سیاسی حل کیلئے ملکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یمن کے عوام پر بمباری نہیں ہونی چاہئے۔ جواد ظریف نے کہا کہ یمن میں فضائی اور زمینی حملے بند کئے جائیں، فوری جنگ بندی کی جائے۔ اسلامی ممالک کو چاہئے کہ وہ یمن میں فوری جنگ بند کرائیں اور مذاکرات کے ذریعے حکومت کے قیام میں یمن کے عوام کی مدد کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسی پر بمباری نہیں کر رہے، ہمارے وہاں پر جہاز نہیں ہیں۔ ایران جنگ روکنا چاہتا ہے، ہم یمن میں جنگ بندی کے لئے ہر ممکن طریقے سے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ ہم کوشیش کر رہے ہیں کہ اسلامی ممالک کے تعاون سے اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان سعودی عرب کی "علاقائی سالمیت” کا دفاع کرے گا لیکن یمن کے بارے میں فیصلے میں ایران سے بھی مشاورت کی جائے گی۔ جواد ظریف نے کہا کہ یمن میں اتفاقِ رائے سے حکومت قائم کرنے میں تمام اسلامی ممالک کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ ہمارا کردار سہولت کار کا ہونا چاہیے۔ اقتصادی تعلقات کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ کے ساتھ 22 رکنی وفد پاکستان آیا ہے۔ نیشن کے مطابق دونوں ملکوں کا یمن میں سیز فائر پر اتفاق ہے تاہم میکنزم پر اختلاف ہے۔

آن لائن کے مطابق پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن کے منصوبے کو مکمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایران پاکستان کو فنی، تکنیکی اور مالی امداد فراہم کریگا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف سے وزیر تجارت خرم دستگیر اور وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی کی اہم ملاقات ہوئی، وزارت خارجہ میں ہونے والی ملاقات میں پاکستان ایران گیس پائپ لائن کے حوالے سے خصوصی بات چیت ہوئی۔ ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان میں توانائی کے بحران کے خاتمے کیلئے مکمل یقین دلایا بلکہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن کو مکمل کرنے کیلئے فنی، تکنیکی اور مالی امدادکی فراہمی کی پیشکش کی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button