پاکستان

الیکشن 2013ء، پاراچنار کے شیعہ سنی شانہ بشانہ

sajid tori۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اگر ایک طرف سیاسی بنیاد پر الیکشن لڑنے سے اُمیدواروں کو شدت پسندوں کے حملوں کا خطرہ ہے تو دوسری طرف فرقہ وارانہ فسادات سے متاثرہ قبائلی علاقے کُرم ایجنسی کے سُنی اور شیعہ مسلک کے لوگوں کو الیکشن نے ایک پلیٹ فارم پر متحد کر دیا ہے۔ کُرم ایجنسی میں قومی اسمبلی کی دو نشستیں ہیں، جس میں این اے 37 اپر کُرم اور این اے 38 لوئر کُرم شامل ہیں۔ اپر کُرم میں پانچ دیہات پر مُشتمل 20 سے 22 فیصد تک کی آبادی سُنی مسلک کے مسلمانوں کی ہے، باقی 80 فیصد کے قریب آبادی شیعہ مسلک کے مسلمانوں کی بتائی جاتی ہے۔ این اے 38 لوئر کُرم میں تقریبا 98 فیصد سُنی مسلک کے لوگ ہیں، جہاں شیعہ مسلمانوں کی آبادی نہایت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں صرف 4 دیہات شیعہ مسلک کے آبادی پر مشتمل ہیں۔

حلقہ این اے 37 سے نامزد اُمیدوار اور پیپلز پارٹی کے رہنما حامد حُسین طوری نے ایک غیر ملکی نیوز ادارے کو بتایا کہ یہ پہلی دفعہ ہے کہ سُنی شیعہ مسلک کے لوگ کسی سیاسی پارٹی کے نامزد اُمیدوار کے جھنڈے تلے ایک ہوگئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حلقہ این اے 37 سے پیپلز پارٹی کے علاوہ تحریکِ انصاف، مسلم لیگ (ن) جمعیت علمائے اسلام، جماعتِ اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی کے اُمیدوار ایک دوسرے کے مقابلے میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا خود تعلق شیعہ مسلک سے ہے لیکن ان کے حامیوں میں سینکڑوں ایسے لوگ شامل ہیں، جن کا تعلق اہل سُنت سے ہے لیکن سیاسی پارٹی کی بنیاد پر وہ ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اپر کُرم کے اسی حلقے این اے 37 سے تحریک انصاف کے اُمیدوار حفیظ اللہ جن کا تعلق اہل سُنت سے ہے، نے تسلیم کیا کہ سیاسی پارٹیوں کی بنیاد پر الیکشن مُہم کے دوران سُنی شیعہ مسلک کے لوگ ایک جھنڈے تلے انتحابی مُہم چلا رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی الیکشن ہوچکے ہیں لیکن اس میں سُنی شیعہ ایک دوسرے سے دور تھے، اب کسی ایک سیاسی پارٹی سے وابستگی کی وجہ سے دونوں فرقوں کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارہ چنار میں شیعہ مسلک کے جوان ایک سیاسی کارکُن کی حیثیت سے اپنی جیب پر ان کے بینرز لگا رہے ہیں، جو ایک انتہائی خوش آئند اور واقعی تبدیلی کی بات ہے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کے کارکُن سجاد حُسین نے مذکورہ ادارے کو بتایا ہے کہ قبائلی علاقوں میں سیاسی پارٹیوں کی بنیاد پر الیکشن لڑنے کی اجازت کے بعد سے فرقہ وارانہ نفرت میں بُہت کمی واقع ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ صرف ایک گاؤں میں نہیں بلکہ پوری ایجنسی میں یہ تبدیلی سامنے آئی ہے۔ سجاد حُسین کے مطابق جہاں سُنی شیعہ مسلک کے لوگ ایک دوسرے کے دُشمن تھے، آج ایک دوسرے کے قریب آ گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پورے علاقے میں ایک تبدیلی کی فضا ہے۔ البتہ علاقے کے لوگوں کی سیاسی اُمیدواروں سے کافی اُمیدیں وابستہ ہے، اگر وہ ان پر پورا نہیں اُترے تو اس کا نتیجہ بُہت خراب ہوگا۔

یاد رہے کہ کرم ایجنسی گذشتہ پانچ چھ سالوں سے فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں رہا ہے جسکے نتیجے میں اب تک سینکڑوں افراد ہلاک، زخمی اور بے گھر ہوچکے ہیں اور حال ہی میں یہاں پر سنی اور شیعہ مسالک کے درمیان امن معاہدہ طے پایا ہے اور یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پہلی دفعہ کُرم ایجنسی سے دونوں فرقوں کے لوگوں کی جانب سے اچھی خبر مل رہی ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button