دنیا

وہابیت کاعالمی فتنہ؛ انڈونیشیا میں شیعہ عالم دین کی رہائشگاہ پر دہشت گردوں کا حملہ

shiitenews_shie_alim_indoneshiaاطلاعات کے مطابق وہابیوں نے مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا سمیت مشرق بعید میں بھی شیعیان اہل بیت (ع) کے خلاف ریشہ دوانیوں کا آغاز کردیا ہے اور وہ انڈونیشیا میں اہل تشیع پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں۔
نیوز ایجنسی کے مطابق 10 اپریل کو مشرقی جاوا کے علاقے میں واقع مادورا جزیرے کے علاقے سمپانگ میں شیعہ عالم دین کی رہائشگاہ 100 شدت پسندوں کے حملے کا نشانہ بنی۔ دہشت گرد تیز دھار آلوں سے مسلح تھے۔  مکتب تشدد و دہشت گردی پر یقین رکھنے والے ان دہشت گردوں نے عالم دین کی رہائشگاہ میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر پولیس نے انہیں ایسا نہ کرنے دیا۔
قابل ذکر ہے کہ یہ خبر کافی پرانی ہے لیکن ہمیں آج ہی موصول ہوئی ہے اور ایک شیعہ خبررساں ادارے کے عنوان سے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ شیعیان اہل بیت (ع) کی مظلومیت و استضعاف سے دنیا کے پیروان آل محمد (ص) کو آگاہ کردیں۔
رپورٹ کے مطابق اس حملے میں کوئی زخمی نہیں ہوا۔
انڈونیشیا میں وہابیت کے اثر و رسوخ کے اثبات کے لئے یہی کافی ہے کہ کل سینکڑوں افراد نے ایبسینتیا (Absentia) کے علاقے میں عالمی دہشت گرد اسامہ بن لادن کی غائبانہ نماز جنازہ میں شرکت کی جبکہ اسامہ بن لادن نے امریکی سے آئی ای کے ایک اہلکار کی حیثیت سے القاعدہ کی بنیاد رکھی تھی اور طالبان دہشت گردوں کے ساتھ انسانیت کے قتل اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب میں شریک تھے۔ مختلف ممالک میں دہشت گرد تنظیمیں بھی القاعدہ سے مل گئی تھیں جو فرقہ واریت اور انسانیت کشی جیسے جرائم میں ملوث ہیں اور ان سب کا مرجع وہابی مکتب کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔
یہاں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ القاعدہ اور طالبان اور ان سے وابستہ دہشت گرد ٹولوں کو آل سعود سے مالی حمایت ملتی ہے اور امریکہ میں 20 سال تک آل سعود کے سفیر کے منصب پر فائز رہنے والے "بندر بن سلطان” – جن کے اسرائیل کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں اور اسرائیل کے خلاف جدوجہد کرنے والے مجاہدین پر دہشت گرد کاروائیوں میں ملوث ہیں ـ حتی کہ عراق جیسے ممالک میں القاعدہ کی قیادت کا تعین کرتے ہیں اور سعودی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کو – القاعدہ کے دہشت گردوں کی حیثیت سے – ان ممالک میں بھجواتے ہیں تا کہ القاعدہ سعودی اور صہیونی اہداف کے حصول کے لئے مسلسل کوشاں رہے۔
امریکہ اور صہیونی ریاست کے مفادات کے لئے دہشت گردی کی کاروائیاں کرنے والے تمام دہشت گرد ٹولے القاعدہ سے بلاواسطہ اور آل سعود سے بلاواسطہ طور پر وابستہ ہیں۔ القاعدہ اور ماتحت ٹولوں کی امریکہ اور صہیونی ریاست کے مفادات کے لئے کام کرنے کے لئے اس سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ حال ہی میں امریکہ کی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے اس بات کا باضابطہ طور پر اقرار کرلیا ہے کہ سی آئی ای نے سوویت روس کی طاقت توڑنے کے لئے ان دہشت گرد ٹولوں کو وجود بخشا ہے اور ان کے لئے افرادی قوت جمع کرنے کے لئے ہزاروں دینی مدارس بنانے میں امریکہ نے براہ راست تعاون کیا ہے۔
انڈونیشیا سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق 10 اپریل کو مشرقی جاوا کے علاقے میں واقع مادورا جزیرے کے علاقے سمپانگ میں شیعہ عالم دین کی رہائشگاہ 100 شدت پسندوں کے حملے کا نشانہ بنی۔ دہشت گرد تیز دھار آلوں سے مسلح تھے۔ مکتب تشدد و دہشت گردی پر یقین رکھنے والے ان دہشت گردوں نے عالم دین کی رہائشگاہ میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر پولیس نے انہیں ایسا نہ کرنے دیا اور اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
20 اپریل کو سینکڑوں افراد نے وہابیوں کی تحریک پر مشرقی جاوا کے مرکزی علاقے بنگیل میں ـ جو پسروروان (Pasuruan) کے قریب واقع ہے – اٹارنی جنرل کے محکمے کی طرف جلوس نکالا اور ان تنظیموں پر پابندی کا مطالبہ کیا جو انڈونیشیا میں مکتب تشیع کی تبلیغ کرتے ہیں۔
مظاہرین "پیمودا اہل السنة بنگیل” (Pemuda Ahlussunah Bangil) یا "نوجوانان اہل السنہ بنگیل” کے جھنڈے تلے مطاہرہ کررہے تھے جو نماز جمعہ کے بعد شہر کے اسکوائر میں اکٹھے ہوئے اور پھر شہر میں مظاہرہ کیا۔ انھوں نے پلے کارڈ اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر شیعہ اسلام کے خلاف قابل اعتراض نعرے درج تھے۔ مظاہرین ان افراد کے گھروں اور ان کے دفاتر کے سامنے سے بھی گذرے جو ان کے بقول تشیع کو فروغ دے رہے ہیں۔
مظاہرین کے لیڈر حبیب اوماس اسگاف (Habib Umas Assegaf) نے وہابی اور دہشت گرد تکفیری ٹولوں کی طرح، الزام لگایا: شیعہ اسلام بدعت گزار ہے جو "متعہ” جیسے "غضبناک کردینے والے اعمال” کی ترویج کررہے ہیں۔
انھوں نے وہابی مکتب کی طرف سے نکاح مسیار کے فروغ اور میعادی ازدواج کی نفی کی وجہ سے مسلمانوں میں زنا کے رواج کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا اور یہ بھی نہیں کہا کہ متعہ اسلامی ازدواج ہے جس کے قوانین و ضوابط نکاح دائم کی مانند ہیں اور ابتدائے اسلام میں یہ نکاح رائج رہا اور زبیر بن عوام کا بیٹا عبداللہ بن زبیر ـ جو ان حضرات کے نزدیک قابل احترام بھی ہیں ـ متعہ کی اولاد ہیں اور یہ کہ یہ نکاح خلیفہ اول کے دور میں رائج رہا لیکن دوسرے خلیفہ نے اسے حرام قرار دیا جبکہ کسی کو بھی حلال محمد (ص) حرام کرنے اور حرام محمد (ص) کو حلال کرنے کا حق حاصل نہیں ہے اور حلال محمد (ص) تا قیامت حلال اور حرام محمد (ص) تا قیامت حرام ہے اور یہ ہے حلال محمد (ص) کو حرام کرنا اور حرام محمد (ص) کو حلال کرنا بدعت کا عینی مصداق ہے۔
اس وہابی تشدد پسند شخص نے ـ جو انڈونیشیا جیسے پر امن اسلامی ملک کو بھی وہابی اور تکفیری غلاظت سے پر کرنا کا تہیہ کئے ہوئے ہیں ـ دھمکی دی کہ اگر شیعہ تنظیموں پر پابندی نہ لگائی گئی تو وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں عوام کو سڑکوں پر لائیں گے۔
بنگیل میں اٹارنی جنرل آفس کے "آسیس ویدارتو (Asis Widarto)” مظاہرین کے نمائندوں سے ملاقات میں کہا کہ وہ مظاہرین کے خدشوں پر غور کریں گے۔
انھوں نے مظاہرین کے نمائندوں سے کہا کہ وہ ایسے ثبوت فراہم کریں جو ثابت کریں کہ شیعہ مکتب بدعت گزار ہے اور اگر وہ ایسا کریں تو وہ ان دستاویزات کو آنے والے اگست کے مہینے میں "عوامی عقائد کے نگران ادارے (ٹِم پاکم = Tim PAKEM)” کے سپرد کریں گے۔ عوامی عقائد کا نگران ادارہ پولیس افسروں، ملکی وکلاء اور قانوندانوں اور قومی وحدت بورڈ ((Badan Kesatuan Bangsa (Bakesbang) سے تشکیل پائے گا۔
22 اپریل کو "قومی علماء بورڈ” کے "ھاسییم مزادی” (Hasyim Muzadi) نے بنگیل کا دورہ کیا تا کہ ماحول کو پرسکون بنادیں۔ انھوں نے بنگیل میں متعدد علماء سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ اسلام کے مختلف مکاتب و مذاہب کے بارے میں تحقیق کریں اور اس مطالعے کا آغاز خوارج سے کریں اور یہ سلسلہ تشیع پر مکمل کرلیں۔
انھوں نے بنگیل اور پسروروان کے عوام سے کہا کہ عقل و منطق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں کیونکہ شیعہ اور سنی اختلافات کو جنگ جھگروں سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
رپورٹ کے مطابق انڈونیشی نیشنل یونٹی نے حال ہی میں عراق میں شیعہ اور سنی کے درمیان اختلافات حل کرنے کے لئے کوششوں کا آغاز کیا ہے لیکن وہ انڈونیشیا میں ایسا نہیں کررہی ہے۔
بنگیل میں قومی وحدت کے شعبہ نوجوانان کے اہلکار فہرور روزی (Fahrur Rozi) نے بھی اس موقع پر خطاب کیا۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ اس گروپ کے اراکین شیعہ مخالف اقدامات میں کبھی شریک نہیں ہونگے اور عوامی عقائد پر نگرانی کرنے والے گروپ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کونسا عقیدہ بدعت ہے یا بدعت نہیں ہے۔
نیشنل یونٹی کے دوسری گروپ کے سربراہ زین السواری (Zainal Suwari) نے کہا کہ ان کے اراکین نے مظاہروں میں شرکت نہیں کی ہے۔
29 اپریل کو ھاسییم المزادی نے شیعہ مسلمانوں سے کہا کہ وہ اصحاب رسول (ص) کے بارے میں کوئی بری بات نہ کیا کریں جبکہ اہل تشیع نے کبھی بھی ایسی بات نہیں کی ہے ورنہ وہابی مظاہرین اپنے احتجاج کے موقع پر ان باتوں کی طرف بھی ضرور اشارہ کرتے۔
المزادی نے کہا کہ انڈونیشیا میں شیعہ اور سنی مسلمانوں کو تقسیم کرنا وسیع عالمی سازش کا حصہ ہے کیونکہ وہ اسلام کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اور ہم اس سازش کو عراق اور فلسطین میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button