سعودی عرب

سعودی خاندان میں بغاوت کا امکان

saudia kingsرپورٹ کے مطابق القدس سے شائع ہونے والے اخبار المنار نے سعودی عرب میں اپنے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ سعودی خاندان کے اندر بغاوت کا قوی امکان پایا جاتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق سعودی خاندان کے قریبی ذرائع نے کہا ہے کہ بادشاہی خاندان میں اس منظرنامے کا نفاذ مغربی انٹیلجنس اور سفارتی حلقوں کے لئے غیرمتوقعہ نہ ہوگا یونکہ یہ حلقے قبل ازیں سعودی خاندان کی دوسری نسل کے شہزادوں کے درمیان شدید کشمکش کا آشکارا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اور انھوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس رسہ کشی میں شریک شہزادوں میں بعض بہت زيادہ طاقتور ہیں اور ان کے پاس کافی اختیارات ہیں۔
ان ذرائع نے یہ امکان بھی ظاہر کیا ہے کہ اس وقت اقتدار کی جنگ میں شریک سعودی دھڑے آپس میں متحد ہوجائیں اور دربار کے پرانے کارکنوں، محافظین نیز بیمار بادشاہ اور بیمار ولیعہد کو تخت اقتدار سے اتار کر حکومت سے نکال باہر کریں اور خود اقتدار کو سنبھالیں۔
اس سال جون کے مہینے میں بھی ایک امریکی تجزیہ نگار "سید علی واصف” نے پریس ٹی وی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ آل سعود کے اندرونی اختلافات بہت سنجیدہ ہیں اور سعودی سیکورٹی ایجنسیوں نے ایک بغاوت کو ناکام بنایا ہے۔ جس کے بعد سابق نائب وزیر دفاع خالد بن سلطان کو نظربند کیا گیا تھا جنہیں بعد میں اس کے عہدے سے برطرف کیا گیا۔ اور یہ کہ اس بغاوت میں بعض شہزادے ملوث تھے جو اقتدار کی نوجوان نسل کو منتقلی کے خواہاں ہیں۔
واصف نے کہا تھا کہ مسئلہ صرف سعودی خاندان تک محدود نہیں ہے بلکہ تشدد پسند وہابی تفکرات کے حامی حلقے بھی کافی حد تک طاقتور ہیں جو اسلام کی ذاتی اور خودخواستہ تفسیر کرتے ہیں۔ سید علی واصف کا کہنا تھا: نوجوان سعودی شہزادوں کی نظریں مغرب پر لگی ہوئی ہیں اور وہ وہابیت کی پرانی تعلیمات کو مکمل طور نافذ کرنا نہيں چاہتے جس کی وجہ سے اس وقت اس خاندان کے درمیان ایک حقیقی جھگڑا چل رہا ہے۔
اکتوبر 2012 کو بھی ایک امریکی مطالعاتی ادارے نے کہا تھا کہ خلیج فارس کی ساحلی ریاستوں میں بغاوت کا امکان ان ریاستوں میں تناؤ کا سبب بن گیا ہے۔
عرب امریکہ مطالعاتی مرکز کے مطابق: مثال کے طور پر سعودی نیوز چینل "العربیہ” نے قطر کے شیخ حمد کے خلاف ایک بغاوت کو ناکام بنائے جانے کی اطلاع دیتے ہوئے خبر دی تھی کہ امریکی ہیلی کاپٹروں نے حمد بن خلیفہ اور اس کے اہل خاندان کو خفیہ مقام پر منتقل کیا۔ اور اس کے بعد متعدد فوجی افسران حراست میں لئے گئے۔
امریکی تھنک ٹینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ حال ہی میں سعودی حکومت کے خلاف سابق لیبیائی حکمران معمر قذافی کے ساتھ قطر کے وزیر اعظم حمد بن جبر آل ثانی کا مکالمہ شائع ہونے کے بعد آل سعود اور آل ثانی کے درمیان اختلافات شدید ہوگئے ہیں۔ حمد بن جبر نے کہا تھا کہ قطر آل سعود کی حکومت کا تختہ الٹنے کے درپے ہے اور ایک دن ضرور آئے گا جب قطر قطیف اور الشرقیہ پر قبضہ کرے گا جس کے بعد سعودی حکومت کا خاتمہ ہوگا۔
مشرق قریب پالیسی انسٹٹیوٹ ـ واشنگٹن نے 26 اگست 2012 کو سعودی بادشاہ کی صحت اور سعودی خاندان کی صورت حال کے بارے میں اپنی تشویش ظاہر کرہے ہوئے کہا تھا کہ بادشاہ کے مرنے کے بعد سلمان بن عبدالعزیز کا اقتدار اس تشویش کے خاتمے کا سبب نہيں بن سکے گیا۔ کیونکہ وہ بیمار بھی ہے اور تفصیلی معاملات پر ذہن مرکوز کرنے کے حوالے سے بھی کمزور بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بادشاہ کا کوئی مناسب ولیعہد نہیں ہے کیونکہ اس سے قبل دو طاقتور ولیعہدوں کا انتقال ہوچکا ہے اور دوسری طرف سے وزیر خارجہ سعود الفیصل بھی بیمار ہے جس کی بیماری اور کمزوری نے آل سعود کی خارجہ پالیسی کو متاثر کررکھا ہے اور بادشاہ نے غیر وابستہ تحریک کے سولہویں اجلاس میں شرکت کے لئے اس کے بجائے اپنے بیٹے اور نائب وزیر خارجہ عبدالعزیز بن عبداللہ کو تہران روانہ کیا تھا۔
اس مضمون میں مزید کہا گیا ہے: سعودی عرب میں نوجوان نسل کو اقتدار کی منتقلی کا مسئلہ بہت پیچیدہ اور مبہم ہے اور یہ امکان موجود ہے کہ انتقال اقتدار کے لئے پرامن راستوں کو چھوڑ کر فوجی بغاوت کا سہارا لیا جائے۔ (گویا مغرب بھی اس روش کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ شہزادوں کی پہلی نسل پرامن روش سے اقتدار دوسری نسل کو منتقل نہیں کرے گی)۔
ادھر ستمبر 2013 کے پہلے ہفتے میں پریس ٹی وی کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ مصر میں اخوان المسلمین حکومت کا تخت الٹنے کا مقصد سعودی عرب میں شاہ عبداللہ کی حکومت کو بچانا تھا کیونکہ عرب ممالک میں حقیقی جمہوریت عرب امیروں اور بادشاہوں کے لئے خطرہ ہے۔ چنانچہ سعودی عرب نے امریکہ اور دوسروں کے ساتھ مل کر پہلی عرب جمہوریت کی بيخ کنی کردی۔
اس رپورٹ میں بریٹ نامی غیر ملکی تجزیہ نگار نے کہا ہے کہ محمد مرسی جمہوری روش سے منتخب ہوئے تھے لیکن وہ سعودی بادشاہ کے لئے خطرہ سمجھے جاتے تھے۔
اگست 2013 کے پہلے ہفتے میں سیر نیوز نے ٹیوٹر پر سرگرم سعودی کارکن "مجتہد بن حارث بن حمام” کے حوالے سے لکھا کہ جولائی میں مرسی کے خلاف ہونے والی فوجی بغاوت نے سعودی عرب اور اخوان کے درمیان اختلافات آشکار کردیئے اور اس کے بعد امریکی ذرائع نے فاش کیا کہ آل سعود نے مرسی کی جمہوری منتخب حکومت کے خلاف بغاوت کے لئے مصری افواج کو ایک ارب ڈالر کی امداد فراہم کی تھی۔
مجتہد نے کھا کہ جس دن جنرل السیسی نے منتخب جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت کرکے اس کا تختہ الٹ دیا اسی دن سعودی عرب سے ایک ارب ڈالر السیسی کو اکاؤنٹ میں منتقل کئے گئے!۔ گوکہ سعودی بادشاہ مطمئن نہيں ہیں کہ السیسی اس رقم کو معقول طریقے سے خرچ کريں گے لیکن انہيں معلوم تھا کہ السیسی کی بغاوت کی ناکامی آل سعود کے لئے مصیبت کا سبب ہوگی کیونکہ ہر نئی حکومت پرانی حکومت سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ چنانچہ عبداللہ نے السیسی کو بغاوت کی ترغیب دلائی اور ان کو امداد بھی دی اور انہیں بتایا کہ سعودی حکومت مصری انقلابیوں کے خلاف طاقت کے نامحدود استعمال کے حامی ہیں۔
21 دسمبر 2010 کو نشر ہونے والی ایک خبر میں لندن میں ٹیررزم اسٹڈیز مرکز کے سربراہ ڈاکٹر کمال الحلباوی کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ بادشاہ کی خراب صحت اور دربار کے اندرونی اختلافات نے آل سعود کے اندر بغاوت کے اسباب فراہم کئے ہیں۔
کمال الحلباوی نے کہا: میرے خیال میں اس بغاوت کو کسی رکاوٹ کا سامنا نہيں کرنا پڑے گا۔
انھوں کہا تھا کہ اس سے قبل عمان اور قطر میں بیٹوں نے باپوں کے خلاف بغاوتیں کی ہیں چنانچہ سعودی عرب میں بھی ایسا کوئی واقعہ رونما ہونا فطری سا عمل سمجھا جائے گا۔
دوسری نسل کے شہزادوں کی طرف سے بغاوت کے سلسلے میں ذیل کے لنکس کا مطالعہ مناسب ہوگا:

متعلقہ مضامین

Back to top button