سعودی عرب

آل سعود حکومت العوامیہ کے شیعہ قیدیوں کو پھانسی دینے کا ارادہ رکھتی ہے

shiitenews alysaud
رپورٹ کے مطابق حمزہ حسن نے ہفتے کے روز العالم سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: آل سعود نے اس بار العوامیہ میں احتجاج کرنے والے افراد کو "دہشت گرد” قرار دیا ہے اور اس سے قبل حکام نے اس علاقے کے معترضین کو "اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خلاف جنگ لڑنے والے” قرار دیا تھا اور اسی بہانے سعودیوں نے کئی افراد کو پھانسی کی سزا دی تھی اور اب بھی دہشت گردی کا الزام لگا کر وہ عوام کو پھانسی دینا چاہتے ہیں۔

انھوں نے کہا: سعودی تشہیری ادارے یعنی وہی نام نہاد ذرائع ابلاغ عوام کو بھی اور حکومت کو بھی الشرقیہ کے عوام کے قتل کے لئے اشتعال دلانے میں مصروف ہیں۔ وہ اہل تشیع کو قتل کروانے کے درپے ہیں۔
یاد رہے کہ 4 اکتوبر 2011 کو منطقۃ الشرقیہ کے شہر القطیف اور العوامیہ میں پر امن مظاہرین کے خلاف آل سعود کی فورسز کی پرتشدد کاروائیوں میں ایک خاتون سمیت 24 افراد زخمی ہوئے۔
حسن نے کہا: حکومت موجودہ نا انصافیوں اور امتیازی رویوں کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے اس ذمہ داری کو شہریوں اور بیرونی ممالک پر عائد کررہی ہے۔
انھوں نے کہا: سعودی حکومت صرف فرقہ وارانہ فتنہ انگیزی کی اہلیت رکھتی ہے تا کہ مسائل کو سیکورٹی فورسز میدان میں لا کر زور زبردستی کے ذریعے حل کرسکے، چیک پوسٹ اور ناکے لگا کر لوگوں کو اجتماعی سزا دے سکے، ان پر گولیاں چلا سکے شہریوں کی مسلسل توہین اور بے حرمتی کا سلسلہ جاری رکھ سکے
انھوں نے کہا: العربیہ نیوز نیٹ ورک آل سعود کا آلہ کار ہے جو تشہیری تنازعات اور مجادلات کھڑے کرکے اور دسیوں جانبدارانہ تجزیات اور تبصرے نشر کرکے آل سعود اور وہابیوں کو تمام اہل تشیع کو قتل کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔
انھوں نے کہا: آل سعود کی حکومت عوام کے ساتھ اپنے اختلافات حل نہیں کرنا چاہتی بلکہ اپنی کمزوریوں اور ظلم و جبر پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔
انھوں نے کہا: آل سعود کی طرف سے جن لوگوں کو سزا دینے کا منصوبہ ہے اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ان پر "فرقہ واریت” یا پھر "بیرونی قوتوں سے وابستگی” کا الزام لگایا جائے گا۔
انھوں نے کہا: سعودی حکومت جانتی ہے کہ سعودی عرب میں ہونے والے مظاہرے پر امن تھے اور یہ حکومت ہی تھی جس نے عوام پر گولیاں چلائیں اور مشرقی علاقوں میں دسیوں افراد کو زخمی کردیا۔
حسن نے کہا: آل سعود کی حکومت عوام پر اپنا ظلم و ستم دنیا والوں سے چھپانا چاہتی ہے اور بعض درباری علماء نے فتوے دے کر حقائق پر پردہ ڈالنے کا راستہ ہموار کرلیا ہے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button