سعودی عرب

سعودی عرب میں "آج یوم الغضب” ہے؛ آل السعود کے خلاف "انقلاب حنین” کا اعلان

11_marchسعودی عرب کے تمام مخالف دھڑے جمعہ کے روز حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے لئے تیار ہورہے ہیں۔/ منطقة الشرقیة کے شیعہ علاقوں کے رہنماؤں نے اعلان کیا ہے کہ وہ آج کے مظاہروں کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔
شیعت یوز کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں حریت پسند اور انقلابی نوجوانوں نے ان احتجاجی مظاہروں کے لیے ملک کے مختلف صوبوں میں سترہ  مقامات کا تعین کیا ہے اور  اپنے انقلاب کو "انقلاب حنین” کا نام دیا ہے۔
 رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے انقلابی نوجوانوں کے اتحاد نے سماجی چینلوں پر دعوت نامہ جاری کرکے اعلان کیا ہے کہ سعودی عرب کے حکام کی جانب سے اب بیان جاری کرنے اور درخواستیں کرنے کا کوئي فائدہ نہیں ہے اور حکومت کو سمجھانے اور جلد سے جلد عوام کے مطالبات قبول کرنے پر مجبور کرنے کا واحد راستہ مظاہرے اور دھرنے ہیں۔
نوجوانوں کے اس اتحاد نے گرفتار شدہ ایک سو اٹھاسی شخصیات، علما، قانون دانوں اور دانشوروں کی رہائی کا مطالبہ کیا اور عوام سے اپیل کی کہ وہ جمعہ 11 مارچ کو یوم الغضب کے سلسلے میں ہونے والے مظاہروں میں شرکت کریں۔
اس اتحاد نے اپنے خلاف سعودی عرب کے سکیورٹی اداروں کے پروپیگنڈے اور افواہوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس اتحاد کے تمام ارکان اہل سنت مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔
سعودی عرب کی حکومت نے ان عوامی مظاہروں کے پیش نظر حفاظتی انتظامات سخت کر دیئے ہیں اور آل السعود کے دربار سے وابستہ بعض مفتیوں نے ان مظاہروں کو حرام قرار دیا ہے۔
دریں اثناء اہل سنت کے ایک ممتاز عالم دین شیخ یوسف قرضاوی نے قاہرہ کے التحریر اسکوائر میں ظالم و ستمگر حکمرانوں کے خلاف جہاد کے بارے میں قرآن کریم کی آیات کی جانب اشارہ کیا اور عرب قوموں کو مخاطب کرتے ہوئے درباری مفتیوں پر دنیا کے بدلے دین فروشی کا الزام لگایا۔
ادھر سعودی عرب کے ایک ممتاز صحافی اور سرگرم شخصیت عبدالوہاب العریض نے عوامی مظاہروں کو حرام قرار دینے کے بارے میں سعودی عرب کی اعلی علما کونسل کے فتوے کو سیاسی قرار دیا ہے۔
انھوں نے مظاہروں میں شرکت کی اپیل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ آج کے نوجوان مظاہروں کے ذریعے اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں کیونکہ عرب حکومتیں صرف مظاہروں کے ذریعے ہی عوام کے مطالبات پر کان دھرتی ہیں۔
یاد رہے کہ سترہ ہزار سے زائد نوجوانوں نے سماجی چینلوں کے ذریعے آل سعود کے حکمرانوں کے خلاف مظاہروں میں شرکت پر آمادگي کا اظہار کیا ہے۔
اس سے قبل سعودی عرب کے وزیر خارجہ سعود الفیصل نے عوامی اعتراضات کو روکنے کے لیے مظاہروں کے بجائے مذاکرات کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
مظاہروں میں شرکت کی اپیل کے بعد سعودی حکومت نے ان شہروں میں پچیس ہزار سے زائد فوجیوں اور سکیورٹی اہلکار تعینات کئے ہیں جہاں مظاہروں کا امکان ہے۔
آزادئ بیان، انتخابات کا انعقاد، آئينی نظام کی تشکیل، بغیر مقدمے کے قید میں رکھے گئے قیدیوں کی رہائي، عورتوں کے حقوق پر زور اور اسی طرح تمام فرقوں اور مذاہب کو اپنے فرائض کی انجام دہی کی آزادی سعودی عرب کے عوام کے جملہ مطالبات میں شامل ہیں۔
بشکریہ از ریڈیو تہران
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق سعودی حکومت نے آج کے مظاہرے روکنے کے لئے زبردست سیکورٹی انتظامات کئے ہیں اور مظاہروں کی صورت میں تشدد آمیز جھڑپوں کی توقع کی جارہی ہے اور حکومت نے تشدد کی راہ ہموار کرنے کے لئے پہلے ہی مظاہروں پر پابندی لگا رکھی ہے اور سعودی مفتیوں نے بھی یہ مظاہرے حرام قرار دیئے ہیں چنانچہ سیکورٹی فورسز زیادہ آزادی کے ساتھ مظاہرین کو کچل سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ سعودی حکام سے پر امن انداز میں اپنے مطالبات منوانے کے لئے انقلاب کا آغاز کرنے والے منطقة الشرقیة کے شیعہ علاقوں کے رہنماؤں نے اعلان کیا ہے کہ وہ آج کے مظاہروں کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں۔ شیعہ رہنماؤں نے اپنے اس اعلان کا کوئی سبب نہیں بتایا ہے لیکن لگتا ہے کہ چونکہ شیعیان حجاز کے مطالبات اور سعودی نوجوانوں کے بعض مطالبات میں فرق ہے اور پھر 1930 کے عشرے میں عبدالعزیز بن سعود کے اقتدار پر قبضہ کرنے سے لے کر آح تک اس علاقے کے عوام نے اپنی بقاء کی جنگ خود لڑی ہے اور انہیں دوسرے سعودی شہریوں کا تعاون نہیں ملا ہے۔
تاہم عین ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں انقلابیوں کے شیعہ اور سنی دھڑوں میں یکجہتی کے لئے اقدامات کئے جائیں اور آح سے شروع ہونے والے مظاہروں کے تسلسل میں شیعہ علاقوں کے عوام بھی شرکت کرنا شروع کردیں۔
امر مسلم ہے کہ آل السعود کے خلاف تحریک کا آغاز اہل تشیع نے کیا ہے اور اب اس ملک کے دوسرے شہری بھی بیدار ہونے لگے ہیں اور وہ بھی اپنے مطالبات آگے بڑھانے کی روشوں سے آگاہ ہوگئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button