شام مزاحمت کا اگلا مورچہ ہے/ ایٹمی مذاکرات کا نتیجہ "جیت ـ جیت” ہونا چاہئےصدر روحانی
رپورٹ کے مطابق حجت الاسلام والمسلمین ڈاکٹر حسن روحانی نے صدر اسلامی جمہوریہ ایران کی حیثیت سے پہلی براہ راست ٹیلی ویژن گفتگو میں شرکت کرکے عوام کو ہفتہ کرامت (میلاد سیدہ معصومہ تا میلاد امام رضا علیہما السلام) کی مناسبت سے مسلمانوں کو مبارک باد دی اور اس کے بعد انھوں نے بعض اندرونی مسائل پر بات چیت کی اور قم تہران فری وے کے اوپر دو بسوں کے تصادم میں 44 قیمتیں جانیں ضائع ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے اس حوالے سے اپنے انتظامی فرائض پر عمل کیا ہے اور طے پایا ہے کہ اس قسم کے واقعات کا سد باب کرنے کے لئے موجودہ مسائل کو بنیادی طور پر حل کیا جائے۔
انھوں نے اپنی حکومت کی ابتدائی کارکردگی رپورٹ بھی پیش کی اور کہا کہ چونکہ حکومت عوام کی خادم ہے اسی لئے عوام کے سامنے کارکردگی رپورٹ پیش کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
انھوں نے اس سوال کے جواب میں ـ کہ حکومت کی تین ہفتوں کی کارکردگی کیا اطمینان بخش تھی یا نہیں ـ کہا کہ یہ فیصلہ کرنا عوام کا کام ہے ہماری کوشش یہ ہے کہ پوری قوت سے خدمت کریں اور امید ہے کہ ہماری کارکردگی اللہ تعالی کی بارگاہ میں قبول اور عوام کے لئے بھی اطمینان بخش ہو۔
انھوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: نئی حکومت کی خارجہ پالیسی کا آغاز بہت اچھا آغاز ہے؛ حلف برداری کی تقریب کے لئے پچاس دوست ممالک کے وفود نے شرکت کی جن میں گیارہ اعلی سطحی وفود بھی شام تھے اور بعض وفود وزرائے خارجہ کی قیادت میں آئے تھے۔
انھوں نے انتخابات کے بعد کے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ جو فضا ملک میں قائم ہوئی اس کے خالق ہمارے عوام تھے جس کی وجہ سے ہمارے اندرونی اور بیرونی ماحول میں تبدیلی آئی؛ عوام نے اپنے عظیم کارنامے کے ذریعے دنیا کو اہم پیغام دیا اور بہت سوں نے یہ پیغام سن بھی لیا اور کوئی ملک یا کوئی طاقت ہو جس نے یہ پیغام نہ سنا ہو تو اس کو جان لینا چاہئے کہ یہ ایران کی عظیم قوم کا پیغام تھا اور سب مجبور ہیں کہ اس پیغام کو سن لیں۔
ڈاکٹر روحانی نے کہا سوائے چند ملکوں کے باقی ممالک نے ہمیں تہنیتی پیغامات دیئے اور بعض نے ٹیلی فون پر مبارک باد اور بعض نے تحریری پیغامات ارسال کئے اور ہم نے بھی ان پیغامات کا جواب دیا۔ تمام اہم یورپی ممالک نے پیغامات دیئے اور انہیں جواب دیا گیا اور مجموعی طور پر تہنیتی پیغامات سے پیدا ہونے والی فضا اور حلف برداری کی تقریب اسلامی جمہوریہ ایران کے خارجہ تعلقات کے حوالے سے ایک نئی فضا کا عندیہ دی رہی تھی۔
انھوں نے کہا: دو اہم بیرونی دورے ہمارے سامنے ہیں۔ پہلا بیرونی دورہ کرغیزستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لئے ہوگا جس کے لئے ہماری روانگی جمعرات کو ہوگی اور وہاں کئی ممالک کے سربراہوں سے ملاقاتیں کروں گا جن میں دو اہم ممالک کے صدور سے ملاقاتیں بھی شامل ہیں؛ ایک ملاقات روس کے صدر سے ہوگی جس میں دو طرفہ تعلقات کو زیر بحث لایا جائے گا۔ ہم اس ملاقات کے لئے بہت زیادہ اہمیت کے قائل ہیں اور بہت سے علاقائی اور عالمی مسائل میں ہمارے درمیان اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ ہمارے درمیان تعاون جاری ہے اور میری حکومت کی کوشش ہے کہ اپنے پڑوسی ملک روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دیں اور اس حوالے سے پہلا قدم اس ملاقات میں اٹھایا جائے گا۔ دوسری اہم ملاقات صدر چین سے ہوگی اور یہ ملاقات بھی ہمارے لئے بہت اہم ہے اور ہمارے درمیان دوطرفہ تعاون جاری ہے؛ چینی ایران کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں جس کے لئے ابتدائی مسائل کا پیشگی جائزہ لیا جا چکا ہے۔
صدر نے اس سوال کے جواب میں ـ کہ ان کے دوسرے بیرونی دورے کے لئے نیویارک کا انتخاب کیوں کیا گیا ہے ـ کہا: ہم نے اس دورے کا انتخاب نہيں کیا بلکہ جنرل اسمبلی کا اجلاس ہونے والا ہے اور سیکریٹری جنرل نے مجھے اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ اس اجلاس میں میری موجودگی اور خطاب اور نئی حکومت کے موقف کا اعلان، اہم ہے اور اس کے بعد تخفیف اسلحہ کے اجلاس میں شرکت کرکے ممالک کے مندوبین سے خطاب کروں گا۔
انھوں نے کہا: غیر وابستہ ممالک کے وزراء خارجہ کا اجلاس بھی نیویارک میں ہوگا اور میں بھی اس تحریک کے سربراہ کی حیثیت سے اس اجلاس میں شرکت اور خطاب کروں گا اور کئی انٹرویو اور ایرانیوں کے ساتھ ملاقات اور بات چیت بھی میرے ایجنڈے میں شامل ہے اور یہ سب بہت اہم ہے بالخصوص وہاں کے سیاسی اور ثقافتی ممتاز شخصیات کے ساتھ بات چیت کروں گا۔
انھوں نے کہا کہ 1 + 5 گروپ کے ساتھ مذاکرات بھی مغربی فریقوں کی درخواست پر انجام دینا قرار پائے ہیں۔ میں نے اس کے لئے ذمہ دار افراد کا تعین بھی کیا ہے۔
انھوں نے کہا: جوہری توانائی کے سلسلے میں ہم نے مزید قدم بھی اٹھائے ہیں اور ہم 1 + 5 کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کے لئے مکمل طور پر تیار ہیں۔ ہم ان مذاکرات میں کسی صورت میں بھی اپنے جائز حقوق سے دستبردار نہ ہونگے اور ہمارے مذاکرات عالمی قوانین اور این پی ٹی کے دائرے میں ہونگے۔
انھوں نے کہا کہ ایٹمی مذاکرات کے نتائج جیت ـ جیت (Win – Win) ہونا چاہئے۔ اور جیت ـ ہار (Win Lose) والا نتیجہ بےمعنی ہے اور جب کوئی ہارے گا تو برداشت نہ کرپائے گا اور مذاکرات کو جاری رکھنے سے اکتا جائے گا چنانچہ کام جاری رکھنے کے لئے ہم جیت ـ جیت والے گیم کا آغاز کرسکتے ہیں اور ہم اس قسم کے گیم کے لئے تیار ہیں۔ ہمارے وزیر خارجہ متعلقہ ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کریں گے اور میں بھی ملاقاتیں کروں گا اور یوں اس سلسلے کا آغاز ہوگا اور ہم ہر سطح پر مذاکرات انجام دینے کے لئے تیار ہیں اور اس مسئلے کو حل کریں گے۔
انھوں نے کہا: دنیا کو جان لینا چاہئے کہ ایٹمی مسئلے کے حل کے لئے ہمارے پاس نامحدود وقت نہیں ہے؛ ہمارے پاس ایک معینہ وقت ہے اور ایک وقت ملت ایران نے ہمیں دیا ہے اور دنیا والوں کو بھی اس موقع سے استفادہ کرنا چاہئے ہم بھی اس سے استفادہ کریں گے اور ہمیں امید ہے کہ انشاء اللہ مجھے امید ہے کہ قدم بقدم اس مسئلے کو حل کریں۔
انھوں نے مغربی ایشیا بالخصوص شام کے مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ علاقہ ہمیشہ سے اہم اور حساس رہا ہے اور اس وقت بھی بہت حساس ہوچکا ہے اور اس خظے کو دو مشکلات کا سامنا ہے جو اس کے دشمن اس کے لئے معرض وجود میں لاچکے ہیں ایک فرقہ وارانہ اختلافات اور دوسرا دہشت گردی۔ ان دو مسائل تدریجا بہت سے ملکوں کا گریبان پکڑ لیا ہے۔ شام ہمارے علاقے کے لئے بہت اہم ہے اور مزاحمت کا اگلا مورچہ سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت اس ملک کے حالات خانہ جنگی میں تبدیل ہوئے ہیں اور فرقہ واریت، انتہا پسندی، دہشت گردی اور بیرونی مداخلت اس ملک کے اندر جاری ہے اور ان مسائل نے مشکلات کو دوچند کردیا ہے اور حال ہی میں امریکہ نے جو حیلہ سازی اور بہانہ گیری کا سلسلہ چلایا ہے اور کیمیاوی ہتھیاروں کے حوالے سے ایک تشہیری مہم چلائی ہے؛ ہم کہیں بھی کسی کے توسط سے بھی اور کسی کے خلاف بھی کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کی مذمت کرنا چاہتے ہيں لیکن وہ اس بہانے سے شام کے خلاف عسکری اقدام کرنا چاہتے تھے؛ اسلامی جمہوریہ ایران اور موجودہ حکومت نے اس سلسلے میں فعال کردار ادا کیا؛ میں نے کئی سربراہان مملکت کو پیغامات بھجوائے اور وزیر خارجہ نے بھی 35 ملکوں کے وزرائے خارجہ سے رابطہ کرکے بات چیت کی۔
انھوں نے کہا: ہماری کوشش یہ ہے کسی جنگ کا آغاز نہ ہو اور ہم اس سلسلے میں بعض اچھی علامتیں دیکھ رہے ہیں اور اگر ہم شام اور خطے کو ایک نئی جنگ سے دور رکھنے میں کامیاب ہوجائیں تو یہ علاقائی استحکام کے لئے بہت اہم قدم ہوگا۔
انھوں نے روس کی تجویز اور بعض یورپی ممالک کے موقف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس خطرے کے کم ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود سو فیصد نہیں کہا جاسکتا ہے خطرہ ٹل گیا ہے لیکن ہم ہر اس اقدام اور تجویز کا خیر مقدم کرتے ہیں جو جنگ کا سدباب کرنے کے لئے ہو اور بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں ہو۔
انھوں نے کہا کہ اگر شام پر جنگ مسلط کی گئی تو ہم اپنی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر شام کے ساتھ تعاون کریں گے اور کوشش کریں گے کہ جنگ کا دورانیہ کم از کم ہو اور دشمن جلد از جلد اپنے کئے پر نادم ہوجائے۔
ڈاکٹر روحانی نے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران کیمیاوی ہتھیاروں کے خلاف ہے اور ہماری رائے یہ ہے کہ پورے علاقے کو ان ہتھیاروں اور بڑی سطح پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک ہونا چاہئے؛ اسلامی جمہوریہ ایران کیمیاوی ترک اسلحہ کے معاہدے میں شامل ہوچکا ہے اور علاقے کے دوسرے ممالک کو بھی اس میں شامل ہونا چاہئے۔
انھوں نے ایک بار پھر کہا: اسلمی جمہوریہ ایران جنگ کا سد باب کرنے کے لئے تمام تر کوشش کرے گا اور اگر خدا نخواستہ جنگ شروع ہوئی تو یہ بہت خطرناک ہوگی اور اس کے آثار تباہ کن ہونگے اور یہ جنگ سب سے پہلے ان لوگوں کا دامن پکڑے گی جنہوں نے اس کا آغاز کیا ہوگا۔ اور جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا ہے ہم شام کے عوام کی انسانی تقاضوں کے مطابق مدد کریں گے۔
۔۔۔۔