نوجوانوں کا جذبۂ نشاط و احساس ذمہ داری انقلاب کی فتح الفتوح رہبر معظم سید علی خامنہ ای
رہبر معظم نے فرمایا کہ نوجوانوں کا جذبۂ نشاط اور احساس ذمہ داری اسلامی انقلاب کی فتح الفتوح ہے / ایران کی مستقل حیثیت اور استکبار و عالمی تسلط پسند کے سامنے سر خم نہ کرنا، عالمی دباؤ کا سبب ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایک ہزار ممتاز و باصلاحیت نوجوانوں نے رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سیدعلی خامنہ ای ـ دام ظلہ العالی ـ سے ملاقات کی۔ رہبر معظم نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے ممتاز نوجوانوں میں موجودہ امید و نشاط کی فضا کے تحفظ، نوجوان صلاحیتوں کے لئے علمی و سائنسی پیشرفت کے بیشتر و بہتر وسائل اور امکانات کی فراہمی، مغرب کی سائنسی ترقی سے مرعوب ہونے کے بجائے سائنس کو اندرونی سطح پر پیدا کرنے اور تخلیق کرنے کی طرف توجہ دینے، قوم کے مستقبل کے حوالے سے نوجوان سائنسدانوں اور ممتاز صلاحیتوں کے حامل افراد میں احساس ذمہ داری کو تقویت پہنچانے اور موجودہ سائنسی ترقی پر اکتفا نہ کرنے کو ملک کی تیز رفتار ترقی کو جاری رکھنے کی ضرورت قرار دیا اور فرمایا: اللہ کے فضل سے ملت ایران اپنی نوجوان اور با صلاحیت انسانی قوت کے سہارے بیرونی دباؤ کے تمام خطرناک مراحل سے گذر جائے گی اور سعادت کی چوٹی کو سر کرے گی۔
رہبر معظم حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای کا مکمل خطاب:
بسم الله الرّحمن الرّحيم
اولا ہمیں آپ عزیزوں کو ـ جو واقعی اس ملت کے عزیز فرزند ہیں اور ہماری آنکھوں کا نور ہیں ـ مبارک باد کہنی چاہئے، ملک کے ممتاز افراد کے مجموعے میں موجودگی کی خاطر۔ البتہ یہ مبارک باد جشن ولادت کی مبارک باد کی مانند ہے؛ جب کسی کی ولادت کے جشن میں اس کو مبارک باد کہی جاتی ہے حالانکہ اس کا اپنی ولادت کی تاریخ کے تعین حتی کہ اپنی ولادت میں، کوئی کردار نہ تھا۔ پس اس کے معنی یہ ہیں کہ خداوند متعال نے آپ کو ایک موقع دیا ہے اور خوش قسمتی سے آپ کو توفیق بھی ملی ہے کہ یہاں تک اس موقع سے استفادہ بھی کرسکے ہیں اور ممتاز افراد کے مجموعے کا جزو قرار پائے ہیں؛ یہ آپ کو مبارک ہے؛ تا ہم یہ استعداد و صلاحیت، یہ قوت اور یہ عملی کام جو آج تک آپ کرسکے ہو؛ یہ ایک راستے پر گامزن ہونے کے مترادف ہے، ایک راستے کا آغاز ہے، راستے کی انتہا نہیں ہے؛ اس کو ہمارے ملک کے تمام ممتاز افراد مدنظر رکھیں۔
ہم اس حد تک ترقی پر مطمئن نہيں ہیں آپ بھی مطمئن نہ ہوں کہ ہمارے ممتاز نوجوان نے ایک بڑے امتحان میں اپنی ممتاز حیثیت کو ثابت کرکے دکھایا ہے؛ اس مقدار کو نہ میں کافی سمجھتا اور نہ آپ اس کو کافی سمجھیں۔ میری توقع اور آپ کی توقع یہ ہونی چاہئے کہ پھل دینے کے مرحلے تک پہنچنے والا یہ بیج ایک تناور درخت میں تبدیل ہوجائے ایک شجرہ طیبہ میں تبدیل ہوجائے کہ "تؤتى اكلها كلّ حين باذن ربّها”؛ (1) آپ ثمر بخش درخت میں تبدیل ہوجائیں کہ ہر زمانے میں، تمام حالات و مواقع میں، اپنا میٹھا پھل اس ملک، اس ملت، اس تاریخ اور بالآخر پوری انسانیت کو چکھا دیں؛ ہدف (مشن) یہ ہونا چاہئے۔
جہاں تک آج کے اس جلسے کا تعلق ہے تو جو بھی عزیزوں نے یہاں آکر بیان کیا، میں نے غور سے سنا۔ میں تصدیق کرتا ہوں کہ آپ کی آراء سنجیدہ اور بہت اچھی تھیں؛ اس کے یہ معنی نہيں ہیں کہ انسان ماہرانہ نگاہ سے ان تمام تجاویز کی تائید و تصدیق کرسکے ـ کیونکہ اس کے لئے مطالعے اور غور و تدبر کی ضرورت ہے ـ لیکن اس لحاظ سے کہ انسان محسوس کرتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ان آراء اور تجاویز پر سنجیدگی سے کام ہوا ہے اور ان کو فکر وتدبر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے؛ یہ میرے لئے بہت بیش قیمت اور قابل قدر ہے۔
اس مجلس میں محترم حکام بھی موجود ہیں ـ چند محترم وزراء اور ممتاز افراد کے ادارے (Elites Foundation) کے سربراہ ـ میری توقع یہ ہے کہ ان عزیز نوجوانوں کی پیش کردہ آراء کو توجہ دی جائے، ان پر کام کیا جائے، ان کا جائزہ لیا جائے۔ شاید ایک چنگاری جو ایک بڑی روشنی اور روشن شعلے پر منتج ہوسکے جو پوری فضا کو روشن کرسکے۔ اور توجہ دی جائے کہ یہ آراء اور تجاویز سچے دلوں سے صادر ہوئی ہیں؛ یہ بھی بہت اہم ہے۔
وہ تمام آراء جو ان عزیزوں نے پیش کیں اور میں نے ان کے اہم نکات یادداشت کئے ہیں، ان میں یہی ایک نکتہ نظر آتا ہے کہ: یہ نوجوانوں کے دل و ذہن میں موجود صدق و صفا اور میٹھے احساس سے معرض وجود میں آئی ہیں وہ دل و ذہن جو ذمہ داری محسوس کرتا ہے اور امید و نشاط کے ساتھ بات کرتا ہے۔ یہ ان چیزوں میں سے ہے جو اصولی طور پر ماحول میں مٹھاس پیدا کردیتی ہیں؛ جب نوجوان اس امید و اس نشاط اور اس جذبے کے ساتھ بات کرتا ہے، فضا ایک پرنشاط فضا میں تبدیل ہوجاتی ہے؛ یہ تجاویز غالبا اس قسم کی ہیں؛ البتہ یہ باتیں سنجیدہ اور نپی تلی بھی ہیں؛ یعنی جو کچھ دوستوں نے بیان کیا؛ میرے خیال میں یہ خام تجاویز نہيں ہیں۔
ملک کی ترقی کا سب سے زیادہ بنیادی محور بھی یہی ہے۔ امام بزرگوار (رحمۃاللہ علیہ) نے ایک اہم جنگ مہم میں ـ جب آپ میں سے بہت سے افراد ابھی پیدا بھی نہيں ہوئے تھے ـ ایک جنگی کاروائی میں، مجاہدین کی ایک بڑی کامیابی کی مناسبت سے ایک پیغام جاری کیا۔ اس پیغام میں یہ نکتہ بیان ہوا تھا کہ "انقلاب اسلامی کی فتح الفتوح ان نوجوانوں کی تربیت ہے”۔ سب کو توقع تھی کہ امام (رحمۃاللہ علیہ) فرمائیں گے کہ "یہ جو بڑی کامیابی تم نے حاصل کی ہے یہی فتح الفتوح ہے؛ اور آپ اس فتح کی تعریف کریں گے؛ لیکن امام (رحمۃاللہ علیہ) نے مجاہدین کا شکریہ ادا نہيں کیا لیکن فرمایا کہ ہمارے انقلاب کی فتح الفتوح ان نوجوانوں کی تربیت ہے؛ جو ان سخت حالات میں ـ جب پوری دنیا غصیلے چہرے اور گولی چلانے کے لئے تیار ہتھیار کے ساتھ ہمارے مقابلے پر آئی تھی؛ یہ نوجوان اتنی بڑی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے؛ یہ طریق القدس نامی کاروائی تھی۔ میں اسی بات کو دہراتا ہوں کہ انقلاب اسلامی کی فتح الفتوح یہی چیزیں ہیں۔ حقیقی ترقی یہ ہے کہ ہمارے نوجوان اور ہمارے ممتاز افراد مستقبل کی نسبت ذمہ داری محسوس کریں؛ اپنے لئے کوئی نظریہ قائم کریں؛ ملک کے لئے مستقبل کی تصویر کشی کریں اور اس مستقبل کو اپنے سامنے مجسم کریں اور اس کو محسوس کریں اور اس احساس کا اظہار کریں؛ کہ وہ اس مستقبل تک پہنچنے کے لئے کوشش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جو آج موجود ہے؛ اس کو تقویت پہنچانے کی ضرورت ہے؛ اس کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے؛ نشاط اور امید کے اس جذبے کو روز بروز ہماری ملت کے اندر تقویت پہنچانے کی ضرورت ہے؛ اگر یہ مقصد حاصل ہوا تو آپ کے یہ ذاتی اثاثے قومی خزانے میں تبدیل ہوجائیں گے؛ دیکھیں کس قدر خوب ہے یہ۔ ایک شخص اپنے سرمائے کو سونے اور بیرونی کرنسی میں تبدیل کرتا ہے اور پھر اس کو لے کر اپنے گھر کے صندوق خانے میں چھپا دیتا ہے؛ یہ کہاں اور وہ جو آکر اپنے سرمائے کو ایک صنعت، ایک کارخانے اور ایک قابل قدر پیداواری کام میں تبدیل کرتا ہے اور اپنے ملک کو آگے بڑھا دیتا ہے، وہ کہاں؟ آپ نوجوان ان اہداف تک پہنچنے کے راستے پر گامزن ہوکر آخر الذکر کام انجام دے رہے ہیں؛ یعنی اپنے ذاتی اثاثے کو قومی سرمائے میں تبدیل کررہے ہیں؛ ملت ایران کے سرمائے میں تبدیل کررہے ہیں؛ یہ بہت گرانقدر ہے۔
خوش قسمتی سے، ملک کے عقلی و استدلالی ماحول کا رخ سائنسی ترقی کی جانب ہے؛ یہ موضوع اب پائیدار اور مستحکم شدہ مسئلہ ہے۔ ملک میں سائنسی تحریک ایک تیز رفتار تحریک ہے ـ جیسا کہ عالمی اعداد و شمار بھی اس بات کا ثبوت فراہم کررہے ہیں ـ لیکن میرا اندیشہ یہ ہے کہ اطمینان کا جو احساس اس صورت حال سے پیدا ہوتا ہے، کہیں ہمیں بے فکری اور لاپرواہی میں مبتلا نہ کردے؛ ہماری ہمت کو کم نہ کردے۔ اپنی پہلی بات کی طرف لوٹتا ہوں، وہ یہ کہ میرے عزیزو! آپ بھی ایک راستے کے آغاز پر ہیں اور ملک بھی ایک راستے کے آغاز پر ہے۔ دیکھیں کہ ہم حالیہ صدیوں کے دوران مختلف قسم کی حکومتوں کی خباثت، سستی، استبداد و آمریت اور بیرونی وابستگی وجہ سے، دنیا کے سائنسی قافلے سے پیچھے ہیں؛ تقریبا شاید کہا جاسکے کہ ہم تین صدیاں پیچھے ہیں۔ ہم نے غفلت کی، ملک کے سیاسی راہنماؤں، ملک کے حکام عیش و نوش میں مبتلا رہے، ذاتی ضروریات تک محدود رہے اور لوگوں کی نسبت تکبر اور استکبار کا شکار رہے؛ دنیا کے حالات سے غافل ہوئے؛ ہم نے سیاسی لحاظ سے بھی نقصانات اٹھائے اور اس سے زيادہ بڑا نقصان یہ ہے کہ ہم نے سائنسی ترقی کے میدان میں نقصانات اٹھائے۔ مسابقت کے اس میدان میں ـ جس میں ہم سابقہ صدیوں کے دوران دوسروں سے آگے تھے ـ پوری دنیا ایک ہی رفتار سے آگے بڑھ رہی تھی؛ بعض اقوام نے نقل و حرکت کے لئے کوئی تیز رفتار وسیلہ تیار کیا، اور ہم سے سبقت لے گئیں اور یہ فاصلہ مسلسل بڑھتا رہا۔ چونکہ وہ ہم سے آگے تھے اسی وجہ سے وہ سواری کا وسیلہ تیار کرنے میں بھی ہم سے سبقت لے گئے اور فاصلہ بڑھتا گیا ـ یہ ایک مثال ہے ـ ہم رکے ہوئے تھے یا زیادہ سے زیادہ دوسروں کی باقیماندہ حصولیابیوں اور دوسروں کی مصنوعات پر اکتفا کررہے تھے، ہمارا فاصلہ اس دنیا کے ساتھ زيادہ سے زیادہ ہوتا گیا جو ہر روز نئی چیزیں دریافت کررہی تھی۔ اسی اثناء میں اسلامی انقلاب آيا، جس نے ہم سب کو جگا دیا، ہم میں ہمتوں کو متحرک کیا۔ صلاحیتیں میدان میں آئیں، آج ہماری ترقی کی رفتار دنیا بھر میں معمول کی اوسط رفتار سے دس گنا، گیارہ گنا اور تیرہ گنا زیادہ ہے۔ یہ بہت اچھی رفتار ہے لیکن فاصلہ بہت زيادہ ہے۔ اگر ہم 20 سال تک ـ میں یہ دقیق علمی محاسبے کی بنیاد پر نہیں کہتا بلکہ مفروضے کے عنوان سے کہتا ہوں کہ ـ اگر بیس سال تک ہماری رفتار دنیا میں سائنسی ترقی کی اوسط رفتار سے 10 یا 12 گنا زیادہ رہے تو ہم اس نقطے پر پہنچیں گے جو ملت ایران کی شان سے مطابقت رکھتا ہے؛ ہماری تاریخ سے مطابقت رکھتا ہے، ہمارے ماضی سے تناسب رکھتا ہے، ہماری سائنسی میراث سے مطابقت رکھتا ہے اور ہماری اہمیت سے تناسب رکھتا ہے؛ چنانچہ ہمیں یہ تحریک کام رکنے نہيں دینا چاہئے۔ اگر یہ سلسلہ رک جائے تو اس کا احیاء اور اس کی دوبارہ بازیابی بہت زيادہ مشکل اور دشوار ہوگی۔ اور یہ آپ نوجوانوں کا کام ہے۔ نوجوانوں کو اپنی ہمتیں بڑھا دینی چاہئیں؛ احساس کریں کہ آپ بھی ایک اہم اور طویل راستے کے آغاز پر ہیں اور یہ ملک بھی ایک طویل اور اہم راستے کے آغاز پر ہے۔
البتہ میں ہرگز اس بات کی سفارش نہیں کرتا کہ آپ مغرب کی ترقی سے مرعوب ہوجائیں ـ ہرگز ـ وہ ترقی ایک مرحلے میں دوسروں سے زيادہ جلدی داخل ہونے کی وجہ سے ہے اور استکبار و استعمار پر مبنی ہے۔ اگر برطانوی ہندوستان اور برما کو ـ اور ایشیا کے اس صاحب ثروت علاقے کے نوآبادیات میں تبدیل نہ کرتے، غصب نہ کرتے، اس علاقے کی دولت کو نہ لوٹتے ـ کہ خود ہندیوں نے ایک دور میں اس صورت حال کی بہت اچھی تصویر کشی کی ـ یقینی امر ہے کہ وہ (انگریز) اس حد تک نہ پہنچ سکتے۔ انھوں نے جونک کی مانند دوسروں کا خون چوسا اور اپنے آپ کو موٹا کیا؛ ہم ایسا نہیں کرنا چاہتے۔ ہم کسی صورت میں بھی دوسروں کا خون چوسنے کے درپے نہیں ہیں۔ ہم اندرونی تخلیق و ایجاد اور اندرونی طور پر پیداوار کے خواہاں ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ یہ ممکن ہے۔ اور ان شاء اللہ ہم آگے بڑھیں گے، لہذا یہ پہلا نکتہ ہے کہ اس تحریک کو نہ رکنے دیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ سائنسی ترقی سے تعلق رکھتے والے حکام، اور متعلقہ اداروں کے سربراہان کی بھی اور سائنس و علم سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں؛ مجھے بہت خوشی ہوئی ہمارے چند عزیز نوجوانوں نے یہاں آ کر کہا کہ ممتاز افراد اپنے آپ کو نظام اور حکومت کا قرض خواہ نہيں سمجھتے [اور نظام حکومت پر احسان نہیں جتاتے]، اپنے آپ کو عوام کا قرض خواہ نہيں سمجھتے ـ اس مضمون کے ساتھ بیان کیا ـ کہ وہ اپنے آپ کو ایسے افراد سمجھتے ہیں جو عوام کی خدمت کرسکتے ہیں اور اپنے اوپر فرض سمجھتے ہیں ہیں کہ اس خدمت کو سرانجام دیں۔ یہ بہت ہی اچھا جذبہ ہے۔ با ایں ہمہ ذمہ داریاں موجود ہیں۔
البتہ ذمہ دار حکام نے بھی محنت کی، میں نے تحقیق کی اور رپورٹیں وصول کیں۔ آپ جانتے ہیں کہ میں ان رپورٹوں پر اکتفا نہيں کرتا جو دوست لوگ اور حکام و مدیران مجھے پیش کرتے ہیں کیونکہ جو رپورٹیں سرکاری طور پر پیش کی جاتی ہیں وہ غالبا اچھی اور قابل قبول ہوتی ہیں بہت خوبصورت ہوتی ہیں اور ان میں رنگ بھر گیا ہوتا ہے؛ اور حقائق کو انسان دوسرے راستوں سے کشف کرسکتا ہے۔ علاوہ ازیں، کہ جو رپورٹیں ان حضرات نے دیں،اچھی رپورٹیں تھیں اور آج فاؤنڈيشن کی خاتون ڈائریکٹر نے جو رپورٹ دی۔ میں نے دوسرے ذرائع سے بھی تحقیق کروائی، میں نے دیکھا کہ ایلیٹ فاؤنڈيشن میں انصافا اچھا خاصا کام ہورہا ہے، اور یہ کوشش بہت اچھی کوشش ہے۔
ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ فنی علوم (یا فنونیات) کے شعبے میں اور انسانی علوم (یا انسانیات) کے شعبے میں معیار دوہرے ہیں۔ البتہ اب ایک عزیز جوان نے فنی علوم کو بھی علوم محض یا خالص سائنسز (Pure Sciences) اور صنعتی اور فنی علوم میں تقسیم کا قائل ہوتا ہے؛ کہ یہ بھی ایک قابل غور نکتہ ہے۔ تاہم، تکنیکی علوم (Technical) اور انسانی علوم (Humanities) میں ممتاز ہونے کے معیارات میں فرق پایا جاتا ہے۔ دونوں کے لئے پیمانے یکسان نہیں ہیں؛ معیارات ایک جیسے نہیں ہیں؛ اس نکتے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ضرورت ہے کہ انسانیات میں بھی ـ جو آج ہمارے ملک کی اہم ضرورت سمجھے جاتے ہیں ـ تازہ نکتے، ممتاز اور نمایاں پیشرفت اور جدت پیدا کریں یہ اہم اور حتمی اور بنیادی پیش رفت کی بنیادی ترقی کی بنیادی کنجی ہے، چنانچہ ضروری ہے کہ معیار بھی درست منتخب کئے جائیں۔
ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ ممتاز علمی و سائنسی افراد کی حمایت، پہلے درجے میں تحقیق اور حصول علم کے مواقع فراہم کرنے کے معنی میں ہونی چاہئے۔ گو کہ میں ان کی مالی اور مادی مدد کے خلاف نہيں ہوں۔ بلکہ یہ بھی انجام دینا ضروری ہے لیکن اہم یہ ہے کہ ممتاز علمی و سائنسی افراد محسوس کریں کہ اس کو علمی و سائنسی تنفس (Breathing) کا مناسب ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ جو کچھ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ممتاز اور نمایاں افراد زيادہ وسیع میدان کے خواہاں ہیں تا کہ اپنی ممتاز حیثیت اور برتر صلاحیت کے تناسب سے اس میدان میں آزادانہ کام کریں جس کے لئے راستے متعدد ہیں، راستوں کی تشخیص، راستوں اور تجاویز پیش کرنے کا کام ہمارا نہيں ہے بلکہ یہ متعلقہ ماہرین کا کام ہے۔ گوکہ آج نوجوانوں نے بعض آراء بھی دی ہیں جن پر عملدرآمد ہونا چاہئے تا کہ وہ محسوس کریں کہ کام اور محنت اور ترقی و پیشرفت کی فضا موجود ہے۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ہم ممتاز علمی و سائنسی افراد کو سہولیات فراہم کرنے کے لئے انہيں ایک نیٹ ورک کی صورت میں منظم کریں۔ ہم ان افراد کا سراغ لگاتے ہیں، انہیں منتخب کرتے ہیں ان کی مدد کرتے ہیں اور اس کو اس کی ممتاز حیثیت کے حوالے سے استحکام بخشتے ہیں؛ یہ کافی نہیں ہے۔ ایک تعمیری نیٹ ورک کی صورت اور ایک دائروی تحریک وجود میں آنی چاہئے، جس کا آغاز ممتاز افراد کی پرورش اور تعمیر سے ہوتا ہے؛ یعنی ان کی تربیت۔ اس کام کی بنیاد اور اس کی جڑ بھی تعلیم و تربیت میں پیوست ہے؛ جس طرح کہ ایک نوجوان نے بھی کہا۔ ہمیں ممتاز صلاحیتوں کا سراغ لگا کر ان کی تربیت کا اہتمام کرنا چاہئے، اس کے بعد ان میں انتخاب کی ضرورت ہے؛ بعض زیادہ ممتاز ہیں اور بعض صلاحیتیں برتر ہیں، بہترین افراد کا انتخاب۔ اس کے بعد ان کی نگہداشت اور ارتقاء کا مرحلہ ہے؛ محض نگہداشت نہیں بلکہ نگہداشت کو ارتقاء اور پیشرفت کے ساتھ ساتھ ہونا چاہئے۔
مدد کریں کہ یہ ممتاز فرد جو آج دسویں درجے پر ہے تھوڑا عرصہ بعد پہلے درجے تک ترقی کرے؛ ارتقاء پائے، یہ ممتاز شخصیت خود بھی ممتاز افراد کی تعمیر و تربیت کے دائرے میں داخل ہوجائے ـ یعنی ایک نیٹ ورک اور ایک جال کی صورت بنے۔ یہی ممتاز شخص دوسرے ممتاز افراد کی تعمیر و تربیت کرے۔ اس صورت میں اندر سے تخلیق کی صورت پیدا ہوگی اور یہ رفتار دوچند ہوجائے گی۔ اگر ہم اس طرح کا شیوہ اپنائیں تو نظر یوں آتا ہے کہ یہ کام آگے بڑھے گا۔