ایران

بحرین , یمن اور لیبیاکے عوام کو درپیش مسائل کی وجہ سے نو روز کا لطف باقی نہیں رہا

Aytullah_Khaminaiآیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے پیغام کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے
بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحیم
یا مقلّب القلوب و الأبصار، یا مدبّر اللّیل و النّهار، یا محوّل الحول و الأحوال، حوّل حالنا الی احسن الحال
اسلامی ممالک میں اُٹھنے والی اسلامی بیداری کے بارے میں رہبر انقلاب ولی امر مسلمین جہان،حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای دامت برکاتہ
کا فکر انگیز تازہ ترین خطاب کا خلاصہ
٢١/مارچ ٢٠١١؁ ، مشہد مقدس
لیبیا کا مسئلہ
خطے کی تحریکیں،اسلامی بیدار کی علامت ہے!
یہ تمام واقعات جو کچھ عرصے سے اِس خطے میں وقوع پذیر ہیں،مصر کے واقعات،تیونس کے حالات،لیبیا میں اُٹھنے والی تحریک اوربحرین کی اندرونی صورتحال وغیرہ یہ تمام واقعات بہت اہم نوعیت کے حامل ہیں۔آج کے اِس اسلامی اور عرب خطے میں ایک بہت ہی بنیادی نوعیت کی تبدیلی وقوع پذیر ہو رہی ہے جو اُمت ِ مسلمہ کی بیداری کی علامت ہے ۔ دسیوں سال قبل اسلامی جمہوریہ نے جو نعرے اور شعار نگائے تھے وہ آج اِ ن ممالک میں کھل کر جلو ہ افروز ہیں۔
اِن رونما ہونے والے واقعات کی دو خصوصیات ہیں؛ایک خصوصیت عوام کی بھر پور شرکت سے عبارت ہے جبکہ دوسری خصوصیت اِن تحریکوں کا دینی اور مذہبی ہوناہے۔یہ دو بنیادی عناصر ہیں۔
لوگوں کا اپنے تن من دھن کے ساتھ میدان میں اُترنا اور یہ بالکل وہی چیز ہے جس کاہم نے اسلامی انقلاب کی کامیابی میںمشاہدہ کیا تھا۔یہ وہ کام ہے کہ جسے مختلف جماعتیں،ٹیبل ٹاک کرنے والے اور مذاکرات کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ،شیش محل کے رہنے والے اور ذہن کی تصوراتی دنیا میں خبروں اور واقعات کی تحلیل کرنے والے لوگ کبھی انجام نہیں دے سکے۔امام خمینی ؒ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ وہ اپنی عوام کو میدان میں لے آئے ،جب لوگ میدان عمل میںاُترے اوراُنہوں نے اپنے جسم ، دل و جان اورنیت و ارادوں کو میدان عمل میں اُتارا توقوم کی تقدیر پر صدیوں سے پڑے ہوئے قفل کھل گئے اورقرنوں سے بند اندھیرے راستے واضح ہو کر اپنے آپ کو نمایاں کرنے لگے۔
بعینہٖ یہی وہ چیز ہے جو آج اِن ممالک میں رونما ہو رہی ہے ۔مصر یا تیونس میں وہاں کے عوام سامنے آئے اور میدان عمل میں کود پڑے ۔یہ وہی چیز ہے کہ اِن ممالک اور دنیا کے دوسرے بڑے بڑے روشن فکر اور شیش محل میں رہنے والے لوگ ہمیشہ جس کا راگ الاپتے رہے ہیں،ہمیشہ باتیں کرتے رہے ہیںاوراِنہوں نے اپنی اپنی عوام کو بہت مرتبہ اِس کام کی انجام دہی کیلئے دعوت بھی دی ہے لیکن کسی کی عوام اِن کی کسی بھی بات پر کوئی توجہ نہیں دیتی تھی۔
لیکن آج یہی عوام ہیں جو از خود میدان عمل میں اُترے ہیں اور اِن کا رجحان اور جہت اسلامی ہے۔اِن کے مظاہروں کے برپا ہونے کا مقام اُن کی نماز جمعہ اور عام مساجد میں منعقد ہونے والی نماز با جماعت ہے ،یہ خدا کے نام کے ساتھ میدان عمل میںاُترے ہیں،علمائے دین اُن کی قیادت کر رہے ہیں اور بعض ممالک میںدینی مبلغین اوردین سے وابستہ نئے افکار کے بانی حضرات اِ ن کے ساتھ ہیں۔جب یہ سب میدان میں اُترے تواِ ن کی عوام بھی میدان میں کو د پڑی ۔یہ ہے اِس واقعہ کی خصوصیت!
عوام کے میدان عمل میں آنے کے اسبا ب و عوامل
اب دیکھنا یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا اورعوام میدان میںکیوں کودے؟
وہ چیز کہ جو اِنہیںمیدان میں کھینچ لائی وہ انسانی عزت و کرامت کا واضح اور روشن ترین مسئلہ ہے۔مصر ،تیونس اور دیگر ممالک میںبھی یہی صورتحال موجز ن ہے کہ اِن ممالک کا قومی اور اجتماعی اعتماد اور عزت اِ ن ممالک کے ظالم حکمرانوں کے ہاتھوں شدید مجروح ومسخ ہو چکا تھا۔فرض کیجئے کہ مصری عوام اِس بات کا مشاہدہ کر رہے تھے کہ اُن کے ملک کا صدر وہ شخص ہے جو اسرائیل کی نیابت میں گندے ترین کاموں اور انسانی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے ۔غزہ کے محاصرے میں اگر حسنی مبارک اسرائیل کے ساتھ تعاون نہیں کرتا تو اسرائیل میں اتنی قدرت نہیں تھی کہ وہ غزہ پر اُس بربریت کے ساتھ ظلم کرتا اورانسانی جرائم کا مرتکب ہوتا۔حسنی مبارک میدان میں اُترا،اُس نے اسرائیل کی حتیٰ الامکان مدد کی اور غزہ کو جانے والے تمام مصری راستو ں کی ناکہ بندی کر دی اورپہرے بٹھا دیئے۔بعد میںاُ سے یہ اطلاع ملی کہ غزہ کے لوگ سرنگوں کے ذریعے سے نقل و حرکت کر رہے ہیں۔اُس نے غزہ کی نہتی اور مظلوم عوام کی زندگی کی تمام ضروریات زندگی اور اِس قدم سے بھی محروم رکھنے کیلئے تیس میٹر اونچی فولادی دیوا ر کو زمین میں قائم کر دیاتا ک اِن سرنگوں کا راستہ بند کر دیاجائے !یہ حسنی مبارک کا تاریخی کارنامہ ہے۔مصری عوام یہ سب دیکھ رہے تھے لہٰذا اُن کا قومی وقار محروح ہوا ۔اِسی جیسی دوسری مثالیں دوسرے ممالک میں موجود ہیں۔
مثلاً آپ لیبیا میںمشاہد ہ کریں کہ سالہا قبل قذافی نے حکومت پر مسلط ہوتے ہی یہ ظاہر کیا کہ وہ مغرب کا مخالف ہے لیکن اُس نے گذشتہ چند سالوںمیں مغرب کی بہت بڑی خدمت انجام دی ہے۔اُن سب نے اپنی آنکھوں سے اِس بات کا مشاہدہ کیا کہ اُس نے دشمن کی ایک کھوکھلی دھکمی سے اپنے ایٹمی پلانٹ کو جمع کیا اور اُسے پیک کر کے مغرب کے حوالے کر دیا اورکہاجناب ِ والا!یہ سب حاضر خدمت ہے!
آپ ذرا موازنہ کیجئے کہ ہماری قوم کس صورتحال میں ہے اور وہ کس بد ترین صورتحا ل سے دوچار ہیں۔جب ہماری قوم نے دیکھا کہ امریکہ کی بدمعاشی کے زیر سایہ پوری دنیا کے بدمعاشوں نے ایران کے ایٹمی مسئلے کے خلاف ایکا کیا ہوا ہے ،ہمارا بائیکاٹ کیا ہے اورفوجی حملوں کی دھکمی دی ہے توایسے وقت میںہمارے اعلیٰ حکام نے نہ صرف یہ کہ عقب نشینی نہیں کی بلکہ وہ اُنہوں نے دشمن کے دھمکیوں اور خواہشات کے بر خلاف ہر سال یورینیم کی افزودگی کا عمل کئی برابراور تیز تر کر دیا۔
لیبیا میں عوام نے دیکھا کہ مغربیوں کی دھمکی کے ملتے ہی اُن کے پاس موجود تمام امکانات کو اہل مغرب کی خالی اور کھوکھلی تشویق کے بہانے اُٹھا کر اُن کی خدمت میں پیش کر دیا گیا۔بالکل ایسے ہی جیسے کسی بچے کو کسی مزےدار چاکلیٹ کا مزہ دلا یا جائے ،اُس کے بعد اُس سے سب کچھ چھین لیاجائے ۔اِن لوگوں کے ساتھ بھی یہی سب کچھ ہوا اور وہ خالی ہاتھ ہو گئے ۔جب ایک قوم یہ سب دیکھتی ہے تو اُس کا دل خون کے آنسو روتا ہے اوراُس کا قومی وقار مجروح ہوتا ہے ۔یہ وہ چیز ہے کہ جس کا مشاہدہ ہم اُن تمام ممالک میں کررہے ہیں کہ جن میں عوام نے اپنی حکومتوں کے خلاف قیام کیاہے۔
امریکہ کا مؤقف
اِس صورتحال میں امریکیوں کا کیا مؤقف ہے؟یہ ہمارے لےے سب سے اہم ہے۔امریکی سب سے پہلے تو اِس واقعات کو دیکھ کر ششدر رہ گئے اور اُن سے کوئی تجزیہ وتحلیل نہ ہو گا اور وہ اِن تمام واقعات کوسمجھنے سے قاصر رہے کہ یہ سب کیا اور کیوں ہو رہا ہے اورنہ ہی یہ بات اُن کی سمجھ میںآئی کہ ایسا بھی ہو سکتا تھا!لیکن جب یہ تحریکیں زور پکڑیںتو اِن واقعات کی صحیح تحلیل اوروہاں کی عوام کہ صحیح اور شناخت نہ ہونے کی بنا پر اُنہوں نے متضاد قسم کے مؤقف اختیار کےے ۔
آج تک اِن تمام ممالک اور اِن کے علاوہ دیگر ممالک میں امریکیوں کا جو کردار سامنے آیاوہ ہمیشہ سے آمروں کی تائید وحمایت رہا ہے۔اِنہوں نے جہاں تک ہو سکتا تھاحسنی مبارک کا دفاع کیااور جب دیکھا کہ اب بیکار ہے اور عوامی طاقت کے سامنے کھڑا ہونا صحیح نہیںتو اُسے آٹے میں سے بال کی طرح نکال کر دور پھینک دیا!یہ درحقیقت امریکہ سے وابستہ تمام حکمرانوں کیلئے ایسی عبر ت ہے کہ وہ یہ بات اچھی طرح جان لیں کہ جب اُن کی تاریخ مصرف(ایکسپائر ڈیٹ)پوری ہو جاتی ہے اورجب اُن سے کوئی خدمت لینا ممکن نہ ہو تو اُنہیںپرانے کپڑت کی مانند اُٹھا کر دور پھینک دیا جاتا ہے او راُن کی سالہاسال کی خدمت و غلامی کی جانب ذرا سی بھی توجہ نہیں کی جاتی!لیکن اِن طاقتوں نے ۤخری لمحات تک اِن آمروں اور ڈکیٹڑوںکی تائید وحمایت کی ۔
آج جو کچھ امریکہ اور مغرب کے سامنے آیایہ سب نہ تو پیش بینی کے قابل تھا اور نہ ہی اُن کیلئے قابل تحمل تھااورنہ ہے۔مصر ،مشرق وسطیٰ میں امریکہ سیاست کے ستونوں میں سے ایک بنیادی ستون تھا اور وہ سب اِس کی سیاست پر بھروسہ و اعتماد کرتے تھے ۔لیکن وہ سالہا سال سے اِن کی خدمت کرنے والے اِس ستون کو اپنے لےے محفوظ نہ بنا سکے اور یہ وہ مقام ہے کہ جہاں عوامی طاقت رنگ لائی اور عوام فتح یاب ہوئے۔
امریکیوں نے ایڑی چوٹی کازور لگا دیا کہ وہ اِس نظام کی حفاظت کریں۔یہ امریکیوں اور مغرب کا جھوٹ و فریب اور اُن کی مکارانہ ،ایذا پہنچانے والی خبیث چالیں ہیںلیکن یہ سب کھوکھلی ہیں۔اگرا قوام عالم بیدار و ہواشیار ہوں تو اِن تمام مکر وفریب اور اُن کی تمام چالوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔امریکیوں نے لاکھ کو ششیں کیںمگر اب جبکہ وہ مصر میں حسنی مبارک کو اورزین العابدین بن علی کوتیونس میںکھو چکے ہیں،اِس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ سالہا سال سے اپنے وفادار نظام حکومت کی ظاہری شکل کو باقی رکھیں۔عوام یہ بات جان لیں کہ اُنہوںنے کوشش کی کہ شکلیں تبدیل ہو جائیں گی لیکن نظام وہی رہے گا۔لیکن اِن قوموں نے اپنا قیام جاری رکھا اور اُن کی اِس سازش کو بھی ناکام کرتے ہوئے اِن حکومتوں کو ناکارا بنا دیا۔خدا وند عالم کی قوت و قدرت سے خطے میں امریکی شکست کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
دشمن کی دونئی چالیں
اِن استعماری طاقتوں نے اِن ممالک میں اپنے مہروں کی بد ترین شکست کے بعد نئی چالوں کیلئے اپنے آپ کو تیارتھا؛ایک فرصت سے فائدہ اُٹھانا اوردوسرا جعلی انقلاب کو سرحد پار پارسل کرنا۔
اُن کا فرصت سے فائدہ اٹھانے کا مطلب یہ تھا کہ وہ وقت سے استفادہ کریں اوراِن انقلابوں کو اغواء کر لیں،یعنی وہاں کی عوام کو دھوکہ دیں،اُن سے اظہار ِ ہمدردی کریںاوراپنے طرفدار اور حمایتی افراد کو بر سر اقتدار لے آئیں۔لیکن اُنہیں اِس کام میں بھی منہ کی کھانی پڑی۔
اُن کی دوسری چال،جعلی انقلاب کی تیاری،یعنی جو کچھ بھی مصر ،تیونس اور لیبیا وغیرہ میں واقعات رونما ہو رہے ہیںاُسے ایران کی عوامی اور دینی حکومت میں داخل کر دیں۔ملک کے اندر اُن کے ایجنٹ،کمزور لوگ،پست فطرت افراد اور نفسانی خواہشات کے ہاتھوں بازیچہئ اطفال بنے ہوئے لوگوں نے کوشش کی کہ شاید اِس عالمی بحرانی کیفیت میں وہ اپنے آقاؤں کی خوشنودی کیلئے کوئی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔اِن لوگوں نے کوشش کی کہ وہ یہاں ایران میںبھی ایک شکست خوردہ اوربے حال تحریک کو جنم دیںلیکن ایرانی قوم نے اُن کی سازشوں کو ناکام بنا دیا۔
امریکہ پہلے درجے کا منافق ہے ،اگر کسی کو عملاً منافقت کو دیکھنا ہو تو وہ اِن کے اعمال و کردار کامشاہدہ کرے یعنی اقوام عالم اوراُن کے حقوق کا دفاع۔وہ مصر کے بارے میں بھی منافقت سے کاملے رہا ہے کہ ہم مصری عوام کے ساتھ اوراُس کے طرفدارہیں،یہ سب جھوٹ کہہ رہے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے مصری عوام کے دشمن سے آخری لمحات تک تعاون ومدد کی ہے۔ تیونس کے بارے میں بھی یہ بالکل یہی الفاظ اداکر رہے ہیںکہ ہم عوامی مظاہروں اور اُس کے جمہوری عمل کے حمایتی ہیں۔آپ بھی یہ بات جان لیں کہ امریکی صدر نے ایرانی قوم کے نام پیغام دیا ہے کہ وہ ہم آپ کے طرفدار ہیں!وہ اِس بات کا دعویٰ کرتے ہیںکہ وہ آمریت اور ڈکٹیٹر شپ کے مخالف ہیںاوراقوام عالم کے حقوق کی پاسدرای کی بات کرتے ہیں،جان لیجئے کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں۔
یہ وہ خونخوار بھیڑےے ہیں کہ جو نہ صرف یہ کہ دسری اقوام پر بھی رحم نہیں کھاتے بلکہ اپنی عوام کا بھی خون چوسنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔امریکہ نے اِسی موجود ہ صدر نے امریکہ کی بدترین اور سکستی ہوئی معیشت و اقتصاد کو زندہ کرنے کی خاطر امریکی قوم کی جیب سے کھربوں ڈالر خرچ کر دیئے ،کیوں؟اِس لےے کہ وہ بینکی نظام کو زندہ رکھے،اسلحے کی فیکٹریاں چلی رہیں،تیل کی صنعت زندہ رہے او راُس کی مختلف کمپنیاں رننگ پوزیشن میں رہیں۔یہ وہ ہیں جو عوام کی جیبوں سے رقم نکال کر اپنی کمپنیوںاوربینکوںکا پیٹ بھرتے ہیں۔اقتصادی بحران کی دلدل میں پھنسی آج امریکی عوام اپنی نجات کیلئے ہاتھ پیر مار رہی ہے اوراُسے اپنی خلاصی کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔
اِس کے علاوہ گوانٹاناموبے،عراق کی ابو غریب شکنجہ گاہ اور( دنیا کے دوسرے ممالک میںموجود) اُن کے ٹارچر سیل اور اذیت گاہوں کی داستانیںبالکل جدا اور مفصل ہیں۔کیا امریکی صدر کو معلوم بھی ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے؟کیا اُسے اِس بات کا شعور ہے کہ اُس کی اِس سیاست کے پیچھے کون لوگ ہیںیا وہ اِن باتوں جو سمجھنے سے قاصر ہے اور غافل و دیوانہ ہے؟یہ وہ چیز ہے کہ جسے ہم نہیں جانتے!جناب والا !آپ یہ کہتے ہیں کہ ایرانی عوام ”آزاری اسکوائر”پر بالکل وہی کا م انجام دے رہے ہیں جو مصر ی عوام اپنے تحریر اسکوائر پر !جی ہاں ،آپ نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ ١١/فروری کوہر سال کی طرح اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے موقع پریہی ایرانی قوم ہے جو اسلامی انقلاب کی پاسداری کی غرض سے یہاں جمع ہوتی ہے اور اُن کا نعرہ ہے”امریکہ مردہ باد!”۔
خطے میں رونما ہونے والے واقعات میں اسلامی جمہوریہ کا مؤقف بہت واضح ہے۔ہمارا مؤقف قوموں اور اُن کے حقوق کادفاع ہے۔ہم دنیا کے کسی کونے میں بھی موجود اسلامی اور غیر اسلامی مظلوم عوام کے ساتھ ہیںاوردنیا کے کسی بھی حصے ،لباس اور شکل میںموجود مستکبروں،آمروں،غارت گروں اور ظالمو ں کے مخالف ہیں۔یہ ہے ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ کا مؤقف۔
ہمارے سامنے اِس وقت دو قابل توجہ نکات موجود ہیں؛ایک لیبیا کا مسئلہ ہے جبکہ دوسرا مسئلہ بحرین سے متعلق ہے۔لیبیا کے مسئلے میںلیبیا کی حکومت نے اپنی عوام کے ساتھ جو سلوک روا رکھا ہے یعنی لوگوں کا قتل عام،اپنی عوام پر دباؤ،شہروں پر بمباری ،ہم اِن تمام اقدامات کی پرزورمذمت کرتے ہیں اوراِس کے ساتھ ساتھ اپنے منافع کی حفاظت کیلئے امریکیوں کی دخالت اور مغربیوں کا معرکے میں کودنے کی بھی مذمت کرتے ہیں۔وہ اِس بات کا دعویٰ کررہے ہیں کہ ہم لیبی عوام کے دفاع کی خاطر آئے ہیںیا ہم چاہتے ہیں کہ لیبیا میں فوجی آپریشن کریں،اُن کی یہ تمام باتیں اور بہانے نا قابل قبول ہیں۔اگر وہ حقیقت میں لیبیا کی عوام کے طرفدار اور حمایتی ہوتے اوراُن کا دل لیبیا کی عوام کیلئے جلتا تو جناب یہ بتائےے کہ تقریباً ایک ماہ سے لیبیا کی عوام ہوائی بمباری کی زد پر ہے تواگر آپ چاہتے تو اِن کی مدد کر سکتے تھے،اِنہیں اسلحہ فراہم کرسکتے تھے اُنہیں دوسرے امکانات فراہم کریں اور اینٹی ایئر کرافٹ اسلحہ دیں۔لیکن اِن کاموں کو انجام دینے کے بجائے ایک مہینے سے بیٹھے نہتی عوام کے اپنے ہی خون میں غلطاں ہو نے کا تماشہ دیکھ رہے ہیںاوراب آپ کی سمجھ میںآیا ہے کہ آپ کو میدان میں کودنا چاہےے!
پس اِن تمام باتوں کا مقصد یہ ہے کہ آپ لیبیائی عوام کی مدد کی غرض و ارادے سے نہیں آئے ہیں،آپ کو تو لیبیا کے تیل کی خوشبو کھینچ لائی ہے اورآپ اِس ملک میں اپنے پیروں کو جمانا چاہتے ہیں۔آپ کا توا رادہ یہ ہے کہ آپ لیبیا میںاپنے قدم مضبوط کرنا چاہتے ہیں تاکہ مصر اور تیونس کی آئندہ تشکیل پانے والی انقلابی حکومتوں پر جو لیبیا کے دونوں طرف موجود ہیں،زیر نظر رکھیں۔آپ کی نیت بہت بری ہے۔ہم ایسے کسی اقدام کو تسلیم نہیں کریں گے کہ جو مغربی حکومتیں امریکہ کی سربراہی میں انجام دے رہی ہیں۔اقوام متحدہ کو تو اقوام عالم کی خدمت کرنی چاہےے لیکن صدافسوس ہے کہ وہ اِن بڑی استعماری حکومتوں کا آلہئ کار اور بازیچہ بنی ہوئی ہے اوراِنہیں وہ سب کچھ فراہم کر رہی ہے کہ جس کی اِنہیں ضرورت ہے!یہ بات باعث ننگ و عار ہے اقوام متحدہ کیلئے!
پس ہم یہ کہتے ہیں کہ لیبیا میںاستعماری اور بیگانی طاقتوں کی دخالت کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں۔اگر یہ لوگ لیبیا کی عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو اِس کا صحیح راستہ کھلاہے اوروہ اُن کی مدد کر سکتے ہیںاوراُنہیں چھوڑ دیں کہ وہاں کی عوام اپناحساب کتاب قذافی کے ساتھ صاف کرلیں،آپ کو کیا تکلیف ہے کہ دخالت کریں؟
بحرین کا مسئلہ
اب آتے ہیںبحرین کے مسئلے کی جانب۔بحرین کا مسئلہ بھی اپنی حقیقت و ماہیت کے اعتبارسے خطے کی دوسرے ممالک کے مسائل کی طرح ہے۔یعنی بحرین اور مصر، تیونس اور لیبیا کے مسئلے میں کوئی فرق نہیںہے۔بحرینی ایک ایسی قوم ہے کہ جس پر ایک ایسی حکومت مسلط ہے جو اُن کے حقوق کا خیال نہیں رکھتی۔
دیکھنا یہ کہ بحرینی عوام اپنے قیام سے کس چیز کا مطالبہ کر رہے ہیں؟اُن کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ ملک میں عام سطح پر شفاف انتخابات کرائے جائیںاورقوم میں سے ہر ایک کے پاس اُس کا اپنا حق رائے دہی ہو کہ جسے وہ آزادانہ استعمال کر سکے ۔کیا یہ کویہ نا جائز مطالبہ ہے؟کیا یہ بے جا توقع ہے؟
بحرین کے موجود ہ نظام میں انتخابات کی ایک شکل ضرور موجود ہے لیکن وہاں کی عوام اِن معنیٰ میں اپنے حق رائے سے بہرہ مند نہیں ہیں کہ قوم کے ہر فرد اپنا حق رائے دہی کا مالک ہو!یہ ہے اُن پر ہونے والا (سیاسی )ظلم!مغربی حکومتوںنے اِس وقت سے بہترین انداز سے استفادہ کیا اور اُنہوں نے خطے کے مسائل میں دخل اندازی کیلئے ایک اور نیا بہانہ تلاش کیا اور وہ ہے شیعہ سنی کا مسئلہ!چونکہ بحرینی کی اکثریت شیعہ ہیں ،لہٰذا کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اُن کی حمایت کرے !وہ تمام ٹی وی چینلز جو خطے میں جاری مسائل کی جزئیات پیش کرتے تھے وہ بحرین کے مسئلے میں سکوت اختیار کےے ہوئے ہیںاوروہ بحرینی عوام کے قتل و غارت کو دنیا کی نگاہوں کے سامنے پیش نہیں کر رہے ہیں!سونے پر سوہاگا یہ کہ خلیج فارس کے ممالک میںسے ایک ملک میںکچھ سیاست داں اور کچھ اخبارات کے مدیران اعلیٰ جمع ہوئے کہ وہ مل کر جھوٹ بولیںاور یہ کہیں کہ بحرین کا مسئلہ شیعہ سنی کے درمیان جنگ کا مسئلہ ہے!
یہ کیا بات ہوئی کہ بحرین میں شیعہ سنی جنگ جاری ہے!یہ ایک ایسی قوم کی آواز ہے کہ جس پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں،یہ ظلم جس طرح تیونس میں،جس برح مصری عوام کا استحصال کیا گیا،جیسے لیبی عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیااورجس طرح یمن میں عوام اپنی ہی حکومت کے ہاتھوں ظلم کی چکی میں پسے جا رہے ہیں،بعینہٖ یہ سب بحرین میں بھی ہو رہا ہے۔خطے کے اِن ممالک کے مسائل میں کوئی فرق نہیں۔
امریکی اِس بات سے پھولے نہیں سما رہے کہ اُنہوں نے اپنے ایجنٹوںاورپروپیگنڈے کے ذریعے سے بحرین کے سیاسی مسئلے کو شیعہ سنی کا مسئلہ بنا کر پیش کیا ہے ۔اِس طرح اُن کی کوشش ہے کہ وہ کسی بھی ممکنہ راستے سے بحرینی عوام کو دی جانے والی امداد اور تعاون کا راستہ روکیں،ساتھ ہی اُس کی حقیقت و ماہیت کو بھی تبدیل کر دیںاوراُسے دوسری سمت موڑ دیں۔وہ یہ کہتے ہیں کی ایران بحرینی عوام کی حمایت کیوں کر رہا ہے؟جنا ب والا !ہم نے تو تمام مسلمانوں کی حمایت کی ہے۔۔ہم گذشتہ بتیس سال سے فلسطینی عوام کی مسلسل حمایت کر رہے ہیں!آپ یہ بتائیے کہ وہ کون سا ملک ،حکومت اور قومیںہےں کہ جس نے فلسطینی عوام کی حمایت کی ہو؟کیا فلسطینی عوام شیعہ ہیں؟غزہ کے مسئلے میں بھی ہماری عوام نے بہت زیادہ مدد و تعاون کیا۔ہمارے سینکڑوں نوجوانوں نے ایئر پورٹ پر جا کر دھرنا دیا کہ وہ کسی بھی طریقے سے غزہ چلے جائیں۔وہ غزہ کی نہتی عوام کی حمایت میں غزہ جانے کیلئے مصمم تھے کہ جا کراسرائیل سے جنگ کریں۔وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ راستے کھلے ہیں مگر حقیقت یہ کہ راہیں مسدو دتھیں۔ہماری عوام نے غزہ،فلسطین،مصراور تیونس سمیت تمام واقعات میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے ۔یہ سب تو شیعہ نہیں تھے!بنا بریں یہ شیعہ سنی کا مسئلہ نہیں ہے ۔یہ بری نیتوںکے حامل اِس بات کی کوششوں میں مصروف ہیںکہ بحرین کے مسئلے کو شیعہ سنی کا مسئلہ بنا کر اُسے کم رنگ کردیں۔
میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ اِس مسئلے کو شیعہ سنی کا رنگ نہ دیں!یہ امریکہ کی بہت بڑی خدمت ہے،یہ اُمت مسلمہ کے دشمنوںکی بہت بڑی خدمت ہے کہ آپ ایک قوم کی سیاسی جد وجہد اور استعمار کے خلا ف اُس کے قیام کو شیعہ سنی جنگ کا رنگ دیں!حقیقت تو یہ ہے کہ بحرین میں شیعہ سنی کا کوئی مسئلہ موجود نہیں ہے!
ہم غزہ،فلسطین،تیونس،لیبیا ،مصر اور بحرین ویمن میں جاری مسائل میں کسی فرق کے قائل نہیں ہیں۔دنیا کے کسی بھی کونے میں عوام پر ظلم ہو وہ قابل مذمت ہے اور جہاںبھی قومیںاسلام کا نعرہ لگائیںاور ظلم وستم سے آزادکیلئے جد وجہد کریں اُنہیں ہماری حمایت و تائید حاصل ہے۔
امریکیوں کی بے شرمی وڈھٹائی تو وہاں کھل کر سامنے آگئی کہ جب سعودی حکومت کے بھیجے ہوئے ٹینکوں نے منامہ کی سڑکوں پر عوام کے خلاف حملے شروع کےے تو اُس وقت اُنہیں بحرینی مسائل میں سعودی حکومت کی دخالت نظر نہیں آئی لیکن جب ہمارے مراجع عظام نے کہا،علمائے اکرام نے آواز احتجا ج بلند کی اور عوام نے مظاہرے کےے کہ بحرینی عوا م کا قتل عام بند کرو تو تم یہ کہنے لگے کہ تم بحرین میں دخالت کیوں کر رہے ہو!کیا کسی قوم پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز احتجاج اُٹھانا اُس ملک و قوم کے معاملات میں دخالت ہے؟!
یہ جو ہم ایک ملک یا حکومت کو ظالم کہیںاور اُن سے مطالبہ کریں کہ اپنی عوام کے خون میں اپنے ہاتھ نہ رنگو،کیا یہ دخالت ہے؟لیکن دوسرے ملک کے ٹینکوں کا بحرین میں مارچ دخالت نہیں ہے !یہ اِس خطے میں امریکیوں اور اُس کے زر خرید غلاموں کی بے شرمی و ڈھٹائی کی تمام حد ود کو پا رکرنا ہے کہ وہ ایسے کام کر رہے ہیں،ایسی باتیں کر رہے ہیںاور ایک قوم کی سیاسی جدوجہد کے خلاف اِس طرح پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔
ہمارے نظر سے سعودی حکومت نے ایک بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے ،اُسے یہ کام انجام نہیں دینا چاہےے تھا،اُ س نے اپنے اِس کام سے اپنے آپ کو دنیا کے سامنے قابل نفرت بنا دیا ہے۔
اگر امریکی جو یہاں سے ہزاروں کلو میٹر کے فاصلے سے یہاں آکر دخالت کر رہے ہیں،اگر وہ دنیا کی عوام کے سامنے ذلیل و رسوا اور قابل نفرت بھی ہوجائیںتو شاید اُن کیلئے یہ بات زیادہ قابل اہمیت نہ ہو لیکن سعودی عرب جو اِسی خطے میں موجود ہے،قومیں اُس سے نفرت کرنے لگیں تو یہ اُس کیلئے بہت بڑی اور سنگین خسارت ہے۔سعودیوں نے فاش غلطی کا ارتکاب کیاہے اور جو بھی یہ کام انجام دے گا وہ غلطی کا مرتکب ہو گا۔
میں اپنے پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں کہ خدا وند عالم کی توفیق سے اِس خطے میں ایک نئی تحریک کا آغاز ہو گیا ہے ،یہ ملتوں اور اُمت مسلمہ کی تحریک ہے،یہ اسلامی شعار کے ساتھ قدم بڑھنے والی تحریک ہے ،یہ اسلامی اہداف کو عملی جامہ پہنانے والی سمت کی جانب ایک تحریک ہے،یہ عام اقوام کی بیداری کی نشانی ہے اور خدا وند عالم کے وعدے کے مطابق یہ ضرور کامیاب ہو گی!
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ترجمہ:شیعت نیوز 

متعلقہ مضامین

Back to top button