مقالہ جات

ٹانک، کربلای عصر

shiitenews tankاہل تشیع کی آبادی گرہ نورنگ، گرہ بلوچ اور سٹی میں محلہ پھل شاہ، محلہ میدان، قبر والی گلی، کوٹلی امام حسین ع میں آباد ہیں۔ گرہ بلوچ میں 4 شیعہ مساجد اور 3 امام بارگاہ ہیں۔ گرہ رنوال ایک مسجد اور 2 امام بارگاہیں، گرہ نورنگ میں ایک مسجد و امام بارگاہ، محلہ پھل شاہ، محلہ میدان اور قبر والی گلی اور کوٹلی امام حسین ع میں ایک ایک امام بارگاہ موجود ہیں۔ کوٹلی امام حسین ع میں واقع مسجد و امام بارگاہ پر 2 مرتبہ حملہ ہو چکا ہے۔ 22 مومنین کرام کو مذہب کے نام پر شہید کیا جا چکا ہے۔

6 مومنین کرام کو مختلف مواقع پر اغواء کیا گیا اور تاوان وصول کر کے رہا کیا گیا۔ 7 مختلف مومنین پر قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔
ٹانک صوبہ خیبر پختونخواہ کا انتہائی پسماندہ ضلع ہے۔ 1992ء سے قبل یہ ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل تھی۔ ضلع ٹانک کی آبادی 4 لاکھ افراد اور رقبہ 121 مربع کلومیٹر ہے۔ ضلع ٹانک میں کنڈی، بٹنی، محسود، وزیر، بلوچ اکثریت تعداد میں آباد ہیں، تاہم لنگاہ، واگھرہ، سادات، ملک، سدوزئی، برکی، چڈھر اور وزیر قبائل اور محسود قبائل کی ذیلی شاخوں کے افراد بھی آباد ہیں۔ مشرق میں درہ پیزو ضلع لکی مروت، مغرب میں FRجنڈولہ، شمال میں عمر اڈہ جنوبی وزیرستان اور جنوب میں تحصیل کلاچی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان واقع ہیں۔
حلقہ قومی اسمبلی NA-24 ہے اور ممبر قومی اسمبلی مولانا عطاء الرحمن مولانا فضل الرحمن کے بھائی ہیں۔ ایم پی اے غلام قادر بٹنی ہیں، جن کا تعلق بھی JUI فضل الرحمن گروپ سے ہے۔ مسلکی طور پر دیوبند مکتب فکر کی اکثریت ہے۔ 80ء کی دہائی میں جماعت اسلامی کافی فعال اور متحرک جماعت تھی مگر طالبان کے منظر عام پر آنے کے بعد ٹانک کی سیاسی اور تنظیمی صورتحال میں بہت زیادہ تبدیلی آ چکی ہے۔ ماضی میں تبلیغی جماعت، کالعدم جہادی جماعت حرکت المجاہدین العالمی، حرکت الجہاد اسلامی اور معروف کمانڈر قاری سیف اللہ اختر اور لشکر جھنگوی کافی فعال رہی ہیں۔
ٹانک کو اصل شہرت پاکستان میں ہونے والے خودکش حملوں کی وجہ سے حاصل ہوئی۔ ٹانک سے 35 کلومیٹر دور جنڈولہ کے نواحی علاقہ سپین کرزئی میں قائم قاری حسین کے مدرسہ کہ جس میں خودکش حملہ آوروں کی تربیت کی جاتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ درہ آدم خیل سے اسلحہ کی فراہمی پنجاب اور کراچی تک اسی راستہ سے ہوتی رہی ہے۔ ایک محتاط انداز کے مطابق پاکستان میں ہونے والے 60 فیصد خودکش حملوں میں اور بالخصوص پشاور کے مینا بازار جو کہ پاکستان کا سب سے بڑا خودکش حملہ ہے، جس میں ایک وقت میں 120 افراد موت کی وادی میں دھکیل دیئے گئے تھے۔ اس میں قاری حسین گروپ ہی ملوث تھا۔
اسی طرح پشاور، لکی مروت، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ، ہنگو، اسلام آباد، چارسدہ، نوشہرہ، راولپنڈی، جنوبی وزیرستان، وانا، درہ آدم خیل میں بھی قاری حسین گروپ ہی ملوث رہا۔ بعض ذرائع کے مطابق معروف کمانڈر بیت اللہ محسود کے امریکہ کے ساتھ خفیہ روابط تھے، جن کہ وجہ سے بیت اللہ محسود گروپ ماہانہ 37لاکھ امریکن ڈالر کے اخراجات کرتا تھا۔ جدید ترین سیٹلائیٹ سسٹم استعمال کرتا تھا، جس پر پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی گرفت نہ تھی۔ جو حملے پاکستانی اداروں، فوج، پولیس اور حکومتی ادارہ جات اور بالخصوص شیعہ مسلک کے لوگوں کے خلاف ہوئے، وہ تمام بیت اللہ محسود گروپ نے کیے تھے۔ چونکہ طالبان فکر کے اندر شیعہ دشمنی اہم عنصر تھی، لہٰذا اسی وجہ سے متعدد مذہبی اجتماعات میں خودکش حملے کیے گئے۔
طالبان عناصر کی آزادانہ نقل و حرکت، قیمتی گاڑیوں کا بے دریغ استعمال، جدید ترین سیٹلائیٹ سسٹم، اسلحہ کی فراوانی، ماہانہ 10،000 روپے تنخواہ، حکومتی عناصر کی خاموشی، میڈیا کی خاموشی، اغواء برائے تاوان اور بالخصوص ٹانک میں 40 سے زائد افراد کو ذبح کرنے کے واقعات نے عوام الناس میں طالبان کا خوف قائم کر دیا۔ غربت اور ناخواندگی اور مذہبی شدت پسندی کے جذبات کی وجہ سے ایک کثیر تعداد لوگوں کی طالبان میں شامل ہونے لگی۔ 26 مارچ 2007ء کی رات 800 سے زائد مسلح طالبان اور قبائلی سسٹم سے تنگ آئے ہوئے عوام اور چھوٹی قوموں سے تعلق رکھنے والے افراد جو کہ صدیوں سے غلامی کی زندگیاں گزار رہے تھے ٹانک پر حملہ کر دیا۔ مقامی پولیس پسپا ہو گئی۔ البتہ آرمی نے جوانمردی کا مظاہرہ کر کے حملہ ناکام بنا دیا۔
اس حملہ سے پہلے طالبان کمانڈر گورنمنٹ ہائی سکول 1، 2 میں آتے اور جہاد پر لیکچر دیتے اور 14 سال سے 17 سال تک کے جوانوں کو زبردستی اپنے ساتھ لے جاتے۔ ٹانک میں طالبان گروپس کے اندرونی اختلافات کی وجہ ازبک جنگجو بنے، جنہوں نے مقامی لوگوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا تھا۔ قاری زین الدین گروپ اور بیت اللہ محسود گروپ اور ازبک جنگجو گروپوں میں شدید اختلافات پیدا ہوئے اور تقریباً ایک دوسرے کے 40 افراد اسی جنگ میں قتل ہوئے اور 4 بڑے خودکش حملے ایک دوسرے پر کیے گئے۔ مقامی لوگوں کے عدم تعاون اور اندرونی اختلافات کی وجہ سے ازبک جنگجو گروپ جنوبی وزیرستان منتقل ہو گیا، بعدازاں قاری زین الدین کو ڈیرہ اسماعیل خان سٹی میں مدینہ کالونی میں نماز فجر کے وقت قتل کر دیا گیا۔
خودکش حملوں، ٹارگٹ کلنگ، مذہبی اجتماعات پر پابندی، اغواء برائے تاوان، شیعہ نشین علاقوں کی ناکہ بندی، مساجد اور امام بارگاہوں پر حملوں، غربت، بے روزگاری، مہنگائی کی وجہ سے تقریباً 15000 سے زائد افراد ٹانک سے نقل مکانی کر کے ڈیرہ اسماعیل خان، بھکر، لیہ، میانوالی میں منتقل ہوئے۔ بعدازاں NLI کی ٹانک آمد کے بعد موثر فوجی آپریش شروع کیا گیا تو علاقہ میں امن قائم ہونا شروع ہو گیا۔
مقامی طور پر کوئی انڈسٹری نہیں ہے اور نہ ہی روزگار کے خاطر خواہ مواقع موجود ہیں۔ ڈویلپمنٹ بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ گورنمنٹ ہائی سکول اور کالج موجود ہے، مگر اعلٰی تعلیم یافتہ اساتذہ ٹانک آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پرائمری سکولوں کا معیار تعلیم انتہائی افسوس ناک حد تک گر چکا ہے۔ خواتین کی تعلیم کا ماحول بھی نہیں ہے اور نہ ہی سہولیات ہیں۔ کافی عرصہ پہلے ریڈکریسنٹ سوسائٹی نے کرسچین ہسپتال انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کا قائم کیا تھا۔ جس میں انگریز ڈاکٹر تھے اور جدید ترین مشینری استعمال کی جاتی تھی۔
طالبان کی دھمکیوں اور دہشتگردی کے خوف کی وجہ سے اکثر ڈاکٹرز واپس چلے گئے اور سوسائٹی نے ہسپتال ختم کر دیا ہے۔ اب بہتر علاج معالجہ کے لیے ٹانک کے رہائشیوں کو اکثر ڈیرہ اسماعیل خان جانا پڑتا ہے۔ دور دراز علاقہ ہونے کی وجہ سے عام ضروریات زندگی کی چیزیں بھی انتہائی مہنگے داموں ملتی ہیں۔ چونکہ انتظامی طور پر ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ڈیرہ اسماعیل خان ہے، لہٰذا سرکاری محکموں صحت، تعلیم، انتظامیہ حتٰی کہ پولیس میں اکثریت ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ جن میں سے اکثریت کی تعداد صرف ماہانہ تنخواہ لینے آتے ہیں، جس کی وجہ سے ان محکموں میں مقامی لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوتے اور اسی طرح تعلیمی بورڈ بنوں ہے، جس کی وجہ سے معمولی کاموں کے لیے طلباء کو ڈیرہ اسماعیل خان یا بنوں جانا پڑتا ہے۔
گزشتہ ادوار میں مقامی قبائل کی مداخلت، مذہبی اور سیاسی شخصیات اور علمائے کرام اور مدارس کی وجہ سے مقامی انتظامیہ اور فوج دہشتگردوں کے خلاف موثر کارروائی نہیں کر پاتے تھے۔ اکثر اراکین اسمبلی اور بعض نامور شخصیات کو طالبان دھمکیوں کے بعد خاموش کروا دیتے تھے۔ مدارس کے علمائے کرام اور بعض آئمہ جمعہ کی حمایت کی وجہ سے طالبان کا عوام میں نفوذ بہت جلد ہوا۔ مقامی طور پر جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ) ٹانک کی عوام میں مذہبی، سیاسی نفوذ زیادہ رکھتی ہے۔ JUI کے بعض افراد کو طالبان کی پشت پناہی کرنے کے جرم میں مختلف مواقع پر گرفتار کیا گیا، مگر صوبائی حکومت اور مرکزی حکومت کی مداخلت کی وجہ سے اکثر و بیشتر افراد کو بہت جلد رہا کر دیا جاتا تھا۔ فوجی آپریشن کی وجہ سے تقریباً 4 سال موبائل فون کی سروس بند رہی۔ گزشتہ سال آرمی نے موبائل فون سروس بحال کی ہے۔
ضلع ٹانک میں شیعہ آبادی تقریباً 13 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ جس میں بلوچ، سادات، واگھرہ، لنگاہ اور دیگر اقوام آباد ہیں۔ مجموعی طور پر 8 ہزار کے لگ بھگ شیعہ ووٹ بینک ہے مگر چونکہ خواتین کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں اور مومنین میں سیاسی شعور کی کمی اور سیاسی اور مذہبی لیڈرشپ کے نہ ہونے کی وجہ سے ووٹ بینک سے فوائد حاصل نہیں کیے جا رہے۔ البتہ 1985ء میں بلدیہ کے چیئرمین قاسم خان بلوچ بنے اور اس طرح 2000ء کے بلدیاتی الیکشن میں U/C گرہ بلوچ سے طفیل حسین شاہ ناظم سمیت 3 دیگر شیعہ افراد کونسلر منتخب ہوئے۔ اس طرح 2004ء کے الیکشن میں بھی U/C گرہ بلوچ سے محمد اشرف بلوچ ناظم اور 2 افراد کونسلر منتخب ہوئے۔
اہل تشیع کی آبادی گرہ نورنگ، گرہ بلوچ اور سٹی میں محلہ پھل شاہ، محلہ میدان، قبر والی گلی، کوٹلی امام حسین ع میں آباد ہیں۔ گرہ بلوچ میں 4 شیعہ مساجد اور 3 امام بارگاہ ہیں۔ گرہ رنوال ایک مسجد اور 2 امام بارگاہیں، گرہ نورنگ میں ایک مسجد و امام بارگاہ، محلہ پھل شاہ، محلہ میدان اور قبر والی گلی اور کوٹلی امام حسین ع میں ایک ایک امام بارگاہ موجود ہیں۔ کوٹلی امام حسین ع میں واقع مسجد و امام بارگاہ پر 2 مرتبہ حملہ ہو چکا ہے۔ 22 مومنین کرام کو مذہب کے نام پر شہید کیا جا چکا ہے۔ 6 مومنین کرام کو مختلف مواقع پر اغواء کیا گیا اور تاوان وصول کر کے رہا کیا گیا۔ 7 مختلف مومنین پر قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔
اہل تشیع کی آبادی ٹانک میں سب سے زیادہ گرہ بلوچ میں آباد ہے۔ گرہ بلوچ میں صاف پانی کا مسئلہ انتہائی سنگین صورت اختیار کر چکا تھا۔ شہید فاؤنڈیشن نے 20 لاکھ روپے سے گرہ بلوچ کے مومنین کو ٹیوب ویل لگوا کر دیا جو کہ لوگوں کی کافی حد تک ضرورت پوری کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ شہداء کے خانوادوں کی معاونت بھی شہید فاؤنڈیشن ماہانہ بنیادوں پر کر رہی ہے۔ ٹانک کے مومنین کرام اور بالخصوص عام آدمی کو بھی صحت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ گرہ بلوچ میں بنیادی ہیلتھ یونٹ قائم ہے۔ عمارت موجود ہے مگر ڈاکٹر اور کوالیفائیڈ عملہ موجود نہیں ہے۔ مومنین کرام کو بہتر علاج معالجہ کے لیے فوری طور پر ڈسپنسری اور قابل ڈاکٹرز کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ گرہ بلوچ، گرہ نورنگ، گرہ رنوال اور سٹی میں بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے اچھے اور معیار سکولوں کے قیام کی اشد ضرورت ہے جو کہ ترجیحی بنیادوں پر ضروری ہے۔ بے روزگاری کی وجہ سے شیعہ نوجوان آوارہ گردی اور منشیات کی طرف بڑی تیزی کے ساتھ مائل ہو رہے ہیں۔ بے روزگاری کے خاتمہ کے لیے شیعہ جوانوں کو فیصل آباد، ملتان، لاہور، کراچی وغیرہ میں ملز اور کارخانوں میں ملازمتیں دلوائیں جائیں۔ سرکاری ملازمتوں کے حصول میں بھی مومنین کرام کو مدد فراہم کی جائے۔ اسی طرح فوج اور FC میں ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک سے سپیشل کوٹہ سے مومنین کرام کو بھرتی کروایا جائے، تاکہ بے روزگاری کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ ملت کے یہ نوجوان ملک اور قوم کی بہتر خدمت کر سکیں۔
اسی طرح گرہ رنوال، گرہ نورنگ اور گرہ بلوچ اور ٹانک سٹی میں بچوں اور بچیوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے قومی اداروں کو کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس وقت ٹانک میں 3 علمائے کرام موجود ہیں، جو مومنین کی دینی تعلیم کی ضرورت کو پورا نہیں کر پا رہے۔ باجماعت نماز، قرآن سنٹرز اور تبلیغاتی دورہ جات کے لیے مرکزی اداروں کو فعالیت کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح خواتین کے لیے دستکاری سنٹرز اور بچوں کے لیے کمپیوٹر سنٹرز کا قیام عمل میں لانے میں مقامی مومنین کی مدد کی جائے تاکہ مومنین ٹانک اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر ملک و ملت کی تعمیر میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button