مقالہ جات

سقیفہ کا خلافتی نظام ہو یا امریکا کا جمھوری نظام دونوں ہی انسانی معاشرے کیلئے زہر قاتل ہیں

allama raja nasir abbas مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سکریٹری حجت الاسلام ناصرعباس جعفری نے کہا کہ سقیفہ کا خلافتی نظام ہو یا امریکا کا جمھوری نظام دونوں ہی انسانی معاشرے کیلئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
رپورٹ کے مطابق ، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سکریٹری حجت الاسلام راجہ ناصر عباس جعفری نے علی مسجد بھارہ کہو میں ایم ڈبلیو ایم شعبہ امور جوانان کے زیر اہتمام درس کربلا اور نوجوانوں کی ذمہ داریاں کے عنوان سے منعقدہ ایک تقریب میں کہا : زرداری ، نواز شریف ، عمران خان یا الطاف حسین کا جمہوری نظام کی بنیاد سقیفہ کا نظام ہے ، سقیفہ کا خلافتی نظام یا امریکا کا جمھوری نظام کوئی بھی ولایت کا نعم البدل نہیں بلکہ دونوں ہی انسانی معاشرے کیلئے زہر قاتل ہیں ہم علی کی ولایت کی گواہی دے کران سے بغاوت کا اعلان کرتے ہیں اور ہم نظام ولایت کے قائل ہیں ۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ امام زمانہ (عج) کا انتظار ہماری عبادت ہے لھذا ھماری سوسائٹی کو اتنا مہذب ہونا چاہئے کہ معاشرہ خود امام کی سرپرستی کی ضرورت محسوس کرے کہا : اعلان غدیرکے تحت دین اور حکومت کو اکٹھا کیا گیا اور دین و حکومت کو اکٹھا کرنے کا ہی نام ولایت ہے ، اس لیے ہمارا دینی پیشوا بھی علی ہے اور ہمارا حاکم بھی علی ہے ۔ 
حجت الاسلام ناصرعباس جعفری نے یہ کہتے ہوئے کہ ولایت ہدایت کا ایک جامع اور کامل نظام ہے اس میں ایسا نہیں ہے کہ نماز، روزہ، حج اور زکواة کے مسائل تو علی سے پوچھیں اور معاشرتی اور اقتصادی مسائل کے لیے دنیا پرستوں کے مرہوں منت رہیں تاکید کی : ہم نے دین اور حکومت کی جدائی کو ھرگز قبول نہیں کیا جس کی وجہ سے ہمارے گھر جلائے گئے، ہمارے گلے میں رسیاں ڈالی گئیں، ہمیں دیواروں میں زندہ چنا گیا اور ہمیں تہہ تیغ کیا گیا ، ہم نے اس نظام سے بغاوت کی جس میں دین اور سیاست کو الگ کیا گیا ہے ، ولایت میں دین اور سیاست، دین اور معیشت ، دین اور عمرانیات، دین اور قانون ، دین اور اخلاقیات، دین اور تعلیم وتربیت جدا نہیں ، ولایت ایسا دروازہ ہے جس پر آجانے کے بعد کسی اور دروازے پر جانے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ 
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سکریٹری نے یہ کہتے ہوئے کہ سیاست سوسائٹی کی منیجمنٹ کا نام ہے ، خدا کو پسند نہی کہ معاشرے کی باگ ڈور غاصبوں اور بے دینوں کے ہاتھ میں ہو، اللہ چاہتا ہے کہ معصوم لوگ ہی معاشرے کی راہبری کریں کہا : معاشرے کوخدا کے قریب لانے کے لیے دین کو نظم کی لڑی میں پرونے اور قانون الھی کو حاکم بنانے کا نام سیاست ہے ۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ پوری بشریت کا وزن اٹھا کر معاشرے کو قرب خدا کی معراج تک پہنچانے کی طاقت صرف اور صرف ولایت میں ہے کہا : اگر کوئی اللہ کی ولایت کے حریم میں قدم رکھنا چاہتا ہے تو اسے ولایت علی (ع) کے دروازے پر آنا ہو گا ، کامل موحد بننے کے لیے مولا علی کی ولایت کے دروازے پر سر جھکانا ضروری ہے ۔ اکر کوئی شے انسان کو مشرک ہونے سے بچاتی ہے تو وہ ولایت علی ہے ، جس طرح علی باب مدینة العلم ہیں اسی طرح ولایت علی باب ولایت اللہ ہے ۔ 
ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی جنرل سکریٹری نے یہ کہتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک جیسا خلق نہیں کیا اور یہی تخلیق کا حسن ہے ، اس نے ہر انسان میں الگ الگ صلاحیتیں پوشیدہ رکھیں اور اسی فرق کی وجہ سے ہر انسان کو دوسرے انسان کی ضرورت ہے اور ہر انسان دوسرے انسانوں سے رابطہ کرنے پر مجبور ہے اور انہی روابط کے سبب معاشرہ وجود میں آتا ہے تاکید کی : معاشرتی مشکلات کے مقابلہ کے لیے ایسے نظام کی ضرورت ہے جوظلم ،لا قانونیت اور انسانی حقوق کی پامالی کا راستہ روکے ، حق تلفیوں کو کنٹرول کرے ، اللہ تعالیٰ نے معاشری کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے انسان کی فطرت میں ولایت کا نظام رکھا جس کا اعلان میدان غدیر میں ہوا ۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ کسی بھی حکومت کے پاس معاشرے کو نظم کی لڑی میں پرونے کے پانچ ذرائع یعنی قانون ، سیاسی اقدامات، وسائل،طاقت اور میڈیا ، ہوتے ہیں لیکن ان کے بے جا استعمال سے پیچیدگیاں پید ا ہوتی ہیں اور معاشرے کے لیے مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں کہا : انسانوں کے بنائے ہوئے نظام نے خلافت میں طاقت ، وسائل اور پروپیگنڈے کا بے دریغ استعما ل کیا گیا ، علی کے گلے میں رسی ڈالی گئی ، سیدہ کے گھر کو آگ لگائی گئی ، لوگوں کو ڈرا دھمکا کر بیعت کرنے پر مجبور کیا گیا جس کے نتیجہ میں خلافت کی کوکھ سے آمریت ملوکیت اور یزیدیت نے جنم لیا ۔
حجت الاسلام ناصر عباس جعفری نے یہ کہتے ہوئے کہ علی (ع) نے اپنے دور میں طاقت سمیت کسی حکومتی ذرائع کا بے دریغ استعمال نہیں کیا ، عام طور پر حاکم ظالم ہوتے ہیں اور عوام مظلوم، لیکن اہلبیت اور آئمہ اہلبیت کی سب سے بڑی مشکل ہی یہ تھی کہ معاشرہ ظالم کی بات مانتا تھا اور عادل کی بات کو نہیں مانتا تھا تاکید کی : آئمہ اطھار علیھم السلام کی حکومت کے خاتمہ کے اسباب میں سے سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ معاشرہ عادل حکمرانوں کی حکمرانی کیلئے آمادہ ہی نہیں تھا ۔
ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سربراہ نے یہ کہتے ہوئے کہ اعلان غدیر کے بعد ولایت سے منہ موڑنے والے جب خلافت کے بعد جمہوریت تک پہنچے تو لبرل اور سیکولر بن گئے لیکن جمہوریت نے کیا گل کھلائے ، ہر ایک پر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہا : سامراجی جمہوری نظام نے بھی استحصال، ظلم اور دھوکے کے سوا کئچھ نہیں دیا ، اس نظام میں بھی طاقت اور سرمائے کا بے دریغ استعمال ہوا ، یہ نظام امریکہ سے امپورٹ کیا گیا تھا ۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ خلافت اور جمہوریت دونوں ہی میں دین اور سیاست جدا جدا ہیں ، اگر یہ دونوں نظام ولایت کا نعم البدل ہوتے تو امام زمانہ کے آنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہا : علی (ع) دین اور سیاست میں جدائی کے قائل نہیں تھے ،علی(ع) سوشلسٹ ، نیشنلسٹ اور کیمونسٹ نہیں تھے بلکہ ولی خدا تھے اس لیے امام کی ولایت کا بدل وہی ہو گا جو ولایت کے قریب ہو گا ۔
حجت الاسلام ناصر عباس جعفری نے یہ کہتے ہوئے کہ امام کی ولایت کے قریب صرف ولایت فقیہہ ہے ، غیبت کبریٰ میں امام کی ولایت کا اضطراری بدل ولایت فقیہہ ہے اور حق حکومت فقیہہ کوہی حاصل ہے کہا: ہمیں پاکستان میں ولی فقیہہ کی حکومت میسر نہیں ، ہماری تعداد پچاس ملین ہے انہیں ولایت کی لڑی میں پرونے کے لیے ہمین منظم اور طاقتور بننے کی ضرورت ہے تاکہ امام کی ولایت کے قریب ہو جائیںاورغیر ضروری سیاسی اقدامات نہ ہونے دیں ۔

متعلقہ مضامین

Back to top button