مقالہ جات

وزیراعلٰی گلگت بلتستان بےاختیار ہیں، اکثریت میں ہونے کے باوجود ہمیں دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے، علامہ شیخ نیّر عباس

shiitenews allama nayer abbا:نومل کے امام جمعہ نے کہا ہے کہ مستونگ اور اخترآباد کے دلخراش واقعہ نے پوری قوم کو مضطرب اور کرب میں مبتلا کر دیا ہے، ہمارا حکومت وقت سے مطالبہ ہے کہ ان واقعات میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جائے اور فاسق لوگوں کو قوم کے سامنے لایا جائے، فقط واقعہ میں ملوث مجرموں کو ہی نہیں بلکہ اُن لوگوں کو بھی سامنے لایا جائے جو انہیں سپورٹ کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں اب فقط یہ کہہ دینا کہ تیسرا ہاتھ ملوث ہے قابل قبول نہیں ہے۔

علامہ شیخ نیّر عباس کا تعلق گلگت کے علاقے جلال آباد سے ہے، علامہ راحت حسین الحسینی کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے، علامہ صاحب نے ابتدائی دینی تعلیم جامعہ اہل بیت ع اسلام آباد میں علامہ شیخ محسن علی نجفی سے حاصل کی۔ کراچی میں امام حسین ع فاؤنڈیشن میں اڑھائی سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایران کے شہر قم المقدس چلے گئے جہاں مدرسہ امام مہدی عج میں دس سال تک علم دین سے فیضیاب ہوتے رہے۔ علامہ صاحب پانچ برس قبل وطن واپس آئے اور اس دوران شہید علامہ ضیاءالدین رضوی کے دست و بازو بنے، علامہ ضیاءالدین کی شہادت کے بعد علامہ راحت حسین الحسینی کا ساتھ دیا اور اُن کے ساتھ چھ ماہ تک اڈیالہ جیل میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، اس وقت علامہ صاحب نومل میں امام جمعہ ہیں اور مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے جنرل سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے گلگت بلتستان کے حالات اور ملکی و بین الاقوامی معاملات پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
 نمائندہ:علامہ صاحب، گلگت کی موجودہ صورتحال کیا ہے، پس منظر بیان فرمائیں؟
علامہ شیخ نیر عباس: گلگت بلتستان جغرافیائی لحاظ سے ایک حساس علاقہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں پر بین الااقوامی سطح پر گیمز کی جاتی ہیں اور سیاست کی جاتی ہے جس سے عوام براہ راست متاثر ہوتے ہیں، تشیع تعداد میں زیادہ اور محب وطن ہیں۔ گلگت بلتستان میں ہم لوگ کئی قسم کے مسائل سے دوچار ہیں جن میں امن و امان کا مسئلہ سرفہرست ہے، شیعہ مخالف گروہوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے، جب بھی کوئی شیعہ شخص حکومت میں آتا ہے یہاں پر حالات خراب ہو جاتے ہیں۔ اس وقت گلگت میں شیعہ قوم کو دیوار سے لگانے کی کوششیں کی جا رہی ہے، لڑاؤ، تقسیم کرو اور حکومت کرو کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسے حالات پیدا کر دئیے گئے ہیں کہ شائد اسٹیبلشمنٹ کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ جب تک یہاں کے حالات درست رہیں گے کہ حکومت کرنا ناممکن ہے، جو اس پالیسی کی حمایت کرتا ہے اُسے تحفظ دیا جاتا ہے اور جو مخالفت میں بات کرتے ہے اور ملک کی بقاء اور سلامتی کی بات کرتا ہے اُسے غیر محفوظ بنا دیا جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے آباء و اجداد نے اس مادر وطن کی بنیاد رکھی تھی لہٰذا اس کی حفاظت بھی ہمیں ہی نے کرنی ہے جس کی قیمت ہم ادا کر رہے ہیں۔ اس علاقے کو ہم نے ڈوگرہ راج سے آزاد کرایا اور آج اس کی حفاظت بھی ہم کر رہے ہیں، لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ناانصافیاں بھی ہمارے ساتھ ہی ہو رہی ہیں، ہمارے نوجوان بے جرم و خطا پکڑے جا رہے ہیں جس کی تازہ مثال ایک چھوٹا سا بچہ ہے جس پر مقدمہ درج کرکے جیل بھیج دیا گیا ہے، اس کی عمر فقط پندرہ سال ہے، اس کے بارے میں کہانی بنائی گئی کہ یہ جیل سے نکلا، گاؤں جا کر پسٹل اٹھایا اور جج کو قتل کر دیا اور واردات کرنے کے بعد دوبارہ جیل میں آ کر بیٹھ گیا، اس معصوم بچے کو موت کی سزا سنائی گئی ہے، اسی طر ح 6 اور لڑکے ہیں جنہیں 9 ، 9 دفعہ سزائے موت دی گئی ہے۔ اس بات پر کسی نے تحقیق کرنے کی زحمت نہیں کی کہ وہ پندرہ سالہ لڑکا کس طرح جیل کی سلاخیں توڑ کر گیا اور قتل کرکے پھر دوبارہ واپس جیل آ کر بیٹھ گیا اور کسی وارڈن کو پتہ بھی نہ چل سکا، گلگت میں نوجوانوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی ایک گھناونی سازش کی جا رہی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تعلیم اور علم کے ذریعے آگے بڑھیں لیکن نادیدہ قوتیں یہ نہیں چاہتیں، وہ چاہتے ہیں کہ نوجوانوں کو ایسے معاملات میں الجھا دیا جائے کہ یہ علم کے میدان سے فرار کا راستہ اختیار کریں۔ انہی حالات کے باعث ہمارے نوجوان تعلیم سے محروم ہیں۔
نمائندہ: نوجوانوں کو تعلیم سے دور کرنے سے آپ کی کیا مراد ہے، کیا کوئی ایسی پالیسی اختیار کی گئی ہے کہ جس کے باعث نوجوان تعلیم سے دور ہو رہے ہیں؟
علامہ شیخ نیّر عباس: جس گاؤں سے میرا تعلق ہے اس کا نام جلال آباد ہے، اس گاؤں کو 1988ء میں ضیاالحق کے ایماء پر مکمل طور پر جلایا گیا اور نسل کشی کی گئی، 500 چوکیاں کراس کر کے جگہ جگہ سے 60 ہزار کا لشکر آیا اور 14 گاؤں مکمل طور پر جلا دئیے گئے جس کے نتیجے میں 150 افراد شہید ہوئے، ان دہشتگردوں نے حتیٰ جانوروں کو بھی نہیں بخشا، 80 ہزار سے زائد جانوروں کو بھی مار دیا گیا اور درخت کاٹ دیئے گئے، یہ واقعہ اوجڑی کیمپ کے واقعہ کے فوراً بعد کیا گیا، اس واقعہ کے بعد وہاں تعلیم کی بجائے کلاشنکوف کلچر پھیلا، ہم انتہائی مظلوم ہیں، نوجوان تعلیم یافتہ ہیں مگر انہیں نوکریاں نہیں مل رہیں، میرٹ کو یکسر مسترد کیا جا رہا ہے، اوپر سے لیکر نیچے تک ایک خاص گروہ کو نوکریوں سے نوازا جا رہا ہے جس سے نوجوانوں میں تشویش پائی جاتی ہے
۔نمائندہ: آپ کی نزدیک اس سارے عمل میں کونسی قوتیں کارفرما ہیں؟
علامہ شیخ نیّر عباس: وہی قوتیں جو اسلام ناب محمدی (ص) کے شروع دن سے مخالف رہی ہیں، اسلام امریکائی سے تعلق رکھنے والے افراد اُن قوتوں کی گود میں بیٹھے ہیں، امام خمینی رح نے بڑے اچھے انداز میں اُن افراد کی نشاندہی کی، یہ لوگ اسلام کا لبادہ پہن کر اسلام کی شناخت مسخ کر رہے ہیں، حالانکہ ان کا اسلام سے دور تک کا واسطہ نہیں، یہ لوگ استعمار کے ایجنٹ ہیں، ان کی نوکریاں پکی ہیں، میں نے خود سنا ہے کہ لاہور میں گرفتار ہونے والا ریمنڈ ڈیوس پندرہ سال تک آئی اسپتال چنار باغ گلگت میں رہا ہے، یہ اسپتال وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے ہے اور وہاں باقاعدہ TNA یعنی تنظیم اہل سنت کو سپورٹ کرتا رہا ہے اور آج تک وہ تنظیم فعال ہے۔ اہم بات یہ کہ ریمنڈ ڈیوس کی لاہور گرفتاری کے ساتھ ہی یہاں آئی اسپتال بھی بند ہو گیا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کی فنڈنگ خود امریکہ کر رہا تھا اور گلگت کی حالات خراب کرنے میں اُس سی آئی اے کے ایجنٹ کا ہاتھ تھا۔ اس اسپتال کو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، یہ لوگ فلاحی ادارے کھولتے ہیں اور اس نام پر عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ اس طرح فنڈنگ کی جاتی ہے کہ عوام سمجھنے شروع کر دیتے ہیں کہ واقعاً یہ لوگ انسانیت سے پیار والے ہیں۔
نمائندہ پاکستان میں جہاں جہاں تشیع کی اکثریتی آبادیاں ہیں وہاں کے حالات کشیدہ ہیں، جیسے گلگت، پاراچنار، کوئٹہ سمیت دیگر علاقے ہیں اس کی بنیادی وجہ کیا نظر آتی ہے؟
علامہ شیخ نیّر عباس: اس کی وجہ اسلام ناب محمدی (ص) ہے، جو اصل اسلام کا آئینہ ہے، اس کی پیروی کرنے والے جہاں کہیں بھی ہوں گے وہ کسی پر ظلم نہیں کریں گے، آج معاشرے میں عدم برداشت، ایک دوسرے کے خلاف فتاویٰ جاری کرنا، اور کافر کافر کے نعرے لگانا، یہ سب اسلام ناب محمد ص کا راستہ روکنے کیلئے ہے، کیونکہ جب لوگوں کے سامنے اصل اسلام کا پیغام پہنچے گا اور حقیقت آشکار ہو گی تو وہ خود بخود اس جانب متوجہ ہونگے۔ یہ طاقتیں ہماری علمی اور فکری حیثیت سے خائف ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ اسلام ترقی نہ کرے، یہ لوگ آپس میں الجھے رہیں، آج اسلامی جمہوریہ ایران کو دیکھ لیں کہ علمی اور فکری میدان میں کس انداز میں ترقی کر رہا ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے تو علمی اور فکری محاذ پر کام کرنا ہو گا، ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اس میدان کو خالی چھوڑ دیا گیا تو پھر معاشرے میں شدت پسندی وجود میں آئے گی، لوگ منحرف ہونگے، قوت برداشت اور تحمل کا مادہ ختم ہو جائے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ علمی و فکری ترقی سے ہی اسلام کی بقاء ہے۔ اس لیے جہاں کہیں بھی شیعیان حیدر کرار ع ہیں ان کو دبایا جا رہا ہے اور ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ آج ہم زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہے ہیں، اگر شیعہ سنی فسادات نہ ہوں، ایک دوسرے کا احترام کیا جائے اور آپس کے جزوی اختلافات کو نہ اُٹھایا جائے تو ہماری وہ انرجی جو دوسرے کاموں پر صرف ہوتی ہے وہ تعلیمی میدان پر مرکوز ہو گی۔
نمائندہ: پیپلز پارٹی کی حکومت نے وہاں کے لوگ کو حقوق دیئے، یعنی آئینی ادارہ بنایا، گلگت بلتستان کو صوبہ کی حیثت دی، اس وقت وزیر اعلیٰ بھی آپ کے ہیں کیا اب بھی وہاں کے مسائل حل نہیں ہو پا رہے؟
علامہ شیخ نیّر عباس: موجودہ حکومت کا یہ اقدام قابل ستائش ہے، شاید اس تک بھی پہنچنے کے لیے قربانیوں کی ضرورت تھی، حکومت نے ایک شکل دے دی اور اب اُسکی بھی مخالفت ہو رہی ہے، یہاں کا اصل ایشو یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ صاحب کے پاس اختیارات نہیں ہیں کیونکہ یہاں نہ تو عدلیہ آزاد ہے اور نہ ہی وزیراعلیٰ آزاد ہیں، بس ایک عنوان دے دیا گیا ہے۔ یہ عنوان بھی ہم کہتے ہیں کہ ایک غنیمت ہے چلو، کچھ نہ ہونے سے ہونا بہتر ہے۔
نمائندہ:آپ کے بقول کے گلگت میں شیعہ اکثریت میں ہیں لیکن اس کے باجود نوجوان جیلوں کی ہوا کھار ہے ہیں، کیا آپ نہیں سمجھتے کہ وہاں کی مذہبی لیڈر شپ کو اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیئے، جس کے نتیجے میں امن قائم ہو، نفرتیں ختم ہوں، محبتیں پروان چڑھیں؟
علامہ شیخ نیّر عباس:ان لوگوں کو پتہ ہے کہ اگر آپس میں متحد ہو جائیں گے تو لوگ اپنے حقوق مانگیں گے لہٰذا یہ لوگ تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، ایک مثال دوں تاکہ قارئین حقیقت جان سکیں، ہم جب اڈیالہ جیل تھے تو اس وقت اپنے اہلسنت دوستوں کی قربت کا موقع ملا، یہ وہ لوگ تھے جو ہمیں مسلمان نہیں سمجھتے تھے اور اپنی تقاریر اور محافل میں کھلے عام توہین آمیز جملے ادا کرتے تھے، جس سے امن کی فضاء خراب رہتی تھی، صورتحال ایسی بنی کہ جس جگہ میں ہم تھے یہ لوگ بھی وہیں پر بند تھے لہٰذا کچھ عرصہ ملکر رہنا پڑا، جب آپس میں بات چیت ہوئی، گلے شکوے ہوئے تو بہت ساری ایسی چیزیں سامنے آئیں جن کے بارے وہ آگاہ نہیں تھے بلکہ انہیں گمراہ کیا گیا تھا، وہ خود کہتے تھے کہ اگر تشیع جو آپ بیان کر رہے ہیں وہ ہے تو ہم خود واپس جاکر اپنے گھروں میں مجالس اور جلوس عزا کا اہتمام کریں گے۔ اس ساتھ رہنے نے کافی ساری غلط فہمیاں دور کر دیں،اب اندازہ لگائیں کہ گلگت ایک گاؤں کی ماند ہے لیکن غلط فہمیاں اتنی پیدا کر دی گئیں کہ ایک دوسرے کے قریب تک نہیں جا سکتے، کیونکہ دشمن سمجھتا ہے کہ قربتیں ہوئیں تو اختلافات ختم ہو جائیں گے۔ کچھ عرصہ پہلے دیکھیں کہ اہل سنت اور اہل تشیع میں شادیاں ہوا کرتیں تھی مگر وہ سلسلہ بھی بند ہو گیا ہے، اصل میں ایک ایسا گروہ پیدا کیا جا رہا ہے جو نہ سنّی ہے اور نہ ہی شیعہ ہے، جو گروہ یزید کو رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہے وہ کیسے سنی ہو سکتا ہے، سنی تو وہ ہے جو حضرت محمد اور آلِ محمد ص سے پیار اور محبت کرتا ہے، یہ لو گ تو کفر کے فتوے جاری کرتے ہیں، اچھے اہلسنت لوگ اب بھی ہیں لیکن انہیں دبا دیا گیا ہے۔
اتحاد و وحدت کیلئے میں نے خود نومل میں چلاس سے عنایت اللہ کو مہمان خصوصی کے طور بلایا، یوم ولات امام علی ع کے موقع پر سب اہلسنت کے مولویوں کو بلایا اور سب آئے، ایک بہت ہی اچھا ماحول پیدا ہوا، انہیں مسجدیں دکھائیں، امام بارگاہیں دکھائیں لیکن میں نے اُن کی ایک مسجد بھی نہیں دیکھی، اس کی وجہ یہ کہ اُن لوگوں نے کبھی بلانے کی زحمت تک نہیں کی، ہم نے کئی بار انہیں بلایا اور وہ آئے، مگر اُن کی جانب سے کوئی دعوت تاحال موصول نہیں ہوئی، اب خصوصاً جب مجلس وحدت مسلمین پاکستان میں سیکریٹری جنرل کی میری ذمہ داری ہے تو ایک مہینہ پہلے اہل سنت کے تمام علماء آئے اور ملکر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، میں نے انہیں تسلی دی اور کہا کہ آپ جو پروگرام بنائیں گے ہمیں ساتھ پائیں گے، اب دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔
نمائندہ: آپ کی مجلس وحدت مسلمین پاکستان میں ذمہ داری ہے، گلگت میں تنظیمی سٹرکچر کی کیا صورتحال ہے؟
علامہ شیخ نیّر عباس: جی، ایم ڈبلیو ایم نے بھرپور انداز میں گلگت بلتستان میں کام شروع کر دیا ہے، علامہ راحت حسین الحسینی نے اپنے دست مبارک سے صوبائی سیکریٹریٹ کا باقاعدہ افتتاح کیا ہے، ہم نے سیلاب کے بعد جگلوٹ میں 33 لاکھ روپے کی لوگوں میں امداد تقسیم کی ہے اور انہیں ریلیف پہنچانے کی ادنیٰ سی کوشش کی ہے۔ یہ سب مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے پلیٹ فارم سے ہوا ہے، جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ اس پلیٹ فارم کو بنے فقط کچھ ہی عرصہ ہوا ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جن لوگوں کے گھر سیلاب میں بہہ گئے ہیں اُن کے گھر تعمیر کرا دئیے جائیں اور اس حوالے سے کوششیں جاری ہیں، جگلوٹ سخت سرد  علاقہ ہے اور یہاں برف باری ہوتی ہے۔ یہاں کے لوگ کھلے آسماں تلے رہنے پر مجبور ہیں، ان کیلئے سب کو کوشش کرنی ہو گی۔ اس وقت یونٹ سازی شروع ہو گئی ہے، پہلے اس لئے شروع نہیں کی تھی کیونکہ ہمارے پاس آفس نہیں تھا، ہم چاہ رہے تھے کہ پہلے سیکریٹریٹ بن جائے پھر یونٹس سازی اور دیگر کاموں کو شروع کیا جائے۔ ہم ایک حکمت عملی کے تحت کاموں کو انجام دے رہے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ٹکراؤ کی پالیسی سے گریز کیا جائے اور اپنے کام کو آگاہ بڑھایا جائے۔ ہماری خواہش ہے کہ وہ کام کئے جائیں جو اس وقت کوئی نہیں کر رہا، خاموشی سے اپنے کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں، اللہ کا فضل ہے کہ ہمیں اس میں خاطر خواہ کامیابی مل رہی ہے۔ ہمارا ایجنڈا ہے کہ وحدت کی فضاء کو پروان چڑھایا جائے اور وحدت بین المسلمین اور بین المومنین کو برقرار رکھا جائے، تمام شیعہ سنی گروہوں کے ساتھ تعاون کو بڑھانا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔
نمائندہ: امریکی دھمکیاں، مذہبی و سیاسی جماعتوں کا آپس میں مل بیٹھنا، اور کل جماعتی کانفرنس میں لئے جانے والے اسٹینڈ، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ قوم کی ترجمانی کی گئی؟
علامہ شیخ نیّر عباس: ہم مطمئن نہیں ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ جاری اعلامیہ میں امریکہ کا نام تک نہیں لیا گیا، ہم کس طرح کہیں کہ ان جماعتوں نے قوم کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ امریکی دھمکیوں کا کھل کر جواب دینا چاہیئے تھے کیونکہ یہ ملک کی بقاء کا مسئلہ ہے، آج دھمکیاں ہیں کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ملکی بقاء واحد چیز ہے جو ملک میں بسنے والے تمام طبقات کو متحد کرتی ہے لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ قوم کی آواز کو وائٹ ہاؤس تک پہنچنا چاہیئے تھا، ہمارے آباء و اجداد نے وطن عزیز پاکستان کو آزاد کرایا۔ خصوصاً گلگت بلتستان کو بھی ہم نے ہی آزاد کیا ہے، مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے نومل میں گلگت بلتستان کی آزادی کا دن بھرپور منایا جائے گا اور باقاعدہ ایک پروقار تقریب منعقد کی جائے گی۔
نمائندہ: بلوچستان امن و امان کی ناگفتہ بہ صورتحال پر کیا کہیں گے، خصوصاً سانحہ مستونگ اور اختر آباد سے متعلق، کس ہاتھ کو ملوث دیکھتے ہیں؟
علامہ شیخ نیّر عباس: اس حوالے سے ہمیں انتہائی افسوس ہے اور پسماندگان کو تسلیت پیش کرتے ہیں۔ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک خاص منظم سازش کے تحت کوئٹہ میں تشیع کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس میں انتظامیہ براہ راست ملوث ہے، اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ گذشتہ سال یوم القدس کی ریلی میں ہونے والے بم دھماکے میں ملوث افراد کو انتظامیہ کی جانب سے گرفتار کرنے کی بجائے اُن مظلوموں کو ایک دھوکے کے ساتھ گرفتار کیا گیا جن افراد نے قدس ریلی کے انعقاد میں اہم کردار ادا کیا تھا، اس واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، ان لوگوں نے انہیں بلایا کہ آئیں ہم آپ کی امداد کرتے ہیں لیکن جب وہ آئے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا، اور کیسز بنا دیئے گئے جس سے انتظامیہ کی ملی بھگت ثابت ہوتی ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومتی مشینری نہیں چاہتی کہ اس طرح کے جلوس ہوں جن میں اسرائیل کی مذمت کی جائے اور اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں سے اظہار یکجہتی کی جائے نہ نکلیں۔ کیونکہ یہ لوگ امریکہ کے نمک خوار ہیں، مستونگ اور اختر آباد کے دلخراش واقعہ نے پوری قوم کو مضطرب اور کرب میں مبتلا کر دیا ہے، ہمارا حکومت وقت سے مطالبہ ہے کہ اس واقعہ میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جائے اور فاسق لوگوں کو قوم کے سامنے لایا جائے، فقط واقعہ میں ملوث مجرموں کو ہی نہیں بلکہ اُن لوگوں کو بھی سامنے لایا جائے جو انہیں سپورٹ کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں، اب فقط یہ کہہ دینا کہ تیسرا ہاتھ ملوث ہے قابل قبول نہیں ہے، اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے، کفر پر حکومت قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم پر باقی نہیں رہتی، ہم ظلم کے خلاف ہیں، اس مولائے کائنات ع کے پیروکار ہیں، جن کے یہ تاریخی جملے ہمارے لئے مشعل راہ ہیں کہ اگر کسی یہودی عورت کے کانوں سے گوشوارے کھینچے گئے ہوں اور اس کے باعث اس عورت کے کانوں سے خون جاری ہو اور کوئی یہ سن کر صدمے میں مر جائے تو وہ شہید ہو گا۔
: نمائندہ شوریٰ عالی کا اجلاس ہوا ہے، اس میں کوئٹہ ایشو کے حوالے سے کیا اہم فیصلے کیے گئے ہیں؟
علامہ شیخ نیّر عباس:کوئٹہ کے حوالے اہم فیصلے کئے گئے ہیں، اول یہ کہ ملک بھر میں باقاعدہ ایک تحریک چلائی جائے گی اور چہلم کوئٹہ میں جا کر منائیں گے، ہماری ہر ممکن کوشش ہے کہ کوئٹہ کے مومنین کا ساتھ دیا جائے، اس حوالے سے ابھی جزئیات طے ہونا باقی ہیں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button