مقالہ جات

پاکستان کے لیے شیعوں کی قربانیاں

shiitenews 14th august پاکستان کے لیے شیعوں کی  قربانیاں

 تاریخی حقائق سےثابت ہے کہ قیام پاکستان کی تحریک میں سب سے زیادہ اہم کردار اہل تشیع کا تھا اوراکابرین اہل تشیع سے لے کر ایک عام سے کارکن تک کسی نے بھی قیام پاکستان کی مخالفت نہیں کی۔ تاریخ کے ان سنہرے اوراق سے چند اقتباسات پیش کیے جاتےہیں۔

جسٹس سید امیرعلی

۱۸۸۴ميں جسٹس سيد امير علي کي کوششوں سے کراچي ميں بھي ايک مدرسہ قائم کيا گيا جوعلي گڑھ کي طرزپرتھا اوراس کا نام ’’سندھ مدرسۃ الاسلام‘‘ رکھا گيا۔ قائد اعظم محمد علي جناح بھي اسي مدرسہ کے طالب علم رہے ہيں۔اسي طرح کاایک مدرسہ

بنگال ميں ہگلي کے مقام پر قائم ہوا۔ جس کا ايک حصہ امام باڑہ کے لئے مختص تھا۔

محمد علی جناح:

قائد اعظم محمد علي جناح برطانيہ کي پرعشرت زندگي چھوڑ کرمسلمانانِ ہند کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لیے ہندوستان تشريف لائے اور اس کے بعد مسلمانوں کے ہردلعزيز ليڈربن گئے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی مدابرانہ قیادت ہی قیام پاکستان کی کامیابی کا سرچشمہ ثابت ہوئی۔آپ ايک غيرمتعصب شيعہ تھے۔ مذہبِ اہلِ بيت سے تعلق رکھنے کے باوجود کبھي آپ نے کسي فرقے کي ضرور ت سے زيادہ حمايت نہيں کي۔

تبليغي شيعہ

shiitenews 14thaugust happy birthday pakistanقائد اعظم محمد علي جناح نہ صرف يہ کہ اثنائ عشري شيعہ تھے بلکہ انھوں نے آغا خان کو يہ ترغيب دلائی کہ وہ اسماعيليوں کي سربراہي سے سبکدوش ہوکراثناعشري جماعت ميں شامل ہوجائيں۔ (شاہراہِ پاکستان صفحہ ٥٢٠)

شفيق بريلوي صاحب نے اپني کتاب ’’محمد بن قاسم سے محمد علي جناح تک‘‘ شائع کردہ نفيس اکيڈمي کراچي کے صفحہ ١٠٥ کے مقابل نکاح کے رجسٹر سے قائد اعظم کے نکاح کے اندراج کا عکس شائع کيا ہے جس ميں آپ کو ’’محمد علي ولد جينا خوجہ اثنائ عشري‘‘ تحريرکيا گيا ہے ۔

محبتِ رسول ۰

جنابِ رسول اسلام سے والہانہ عقيدت کا اظہار اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ قائد اعظم فرماتے ہیں کہ میں نے ’’لنکن ان‘‘ يونيورسٹي ميں صر ف اس لئے داخلہ ليا تھا کہ اس کے دروازے پردنيا کے ممتاز قانون دانوں میں کي فہرست ميں پيغمبر۰کا نام شامل تھا۔ ٴ

اسي طرح  سے حضرت علي کی يومِ شہادت پردنيوي کاروبارسے لاتعلقي سےان کی عقيدت اوراصول پسندي کا اظہارہوتا ہے۔

راجہ صاحب محمود آباد:

پاکستان کی تاریخ سے آشنا لوگ کہتے ہيں، پاکستان سرسيد احمد خان کي تعليمي خدمات،قائد اعظم کي رہنمائي اورراجہ صاحب محمود آباد کي دولت کے مرہونِ منت ہے۔

راجہ صاحب محمود آباد ریاست محمود آباد کے والی تھے جوکہ لکھنو سے 30 میل دور شیعہ اکثریت ریاست تھی آپ کے والد گرامی سرمحمد علی خان مایہ ناز شخصیت کے حامل تھے۔ ٓپ کے والد ’’مہاراجہ علي محمد خاں‘‘، نے ايک دفعہ کانپورمسجد کے حادثے ميں گرفتار ہونے والے مسلمانوں کي ضمانت کے طور پر اپني پوري رياست پيش کردي تھي۔ لوگوں نے کہا بھي ’’آپ بلاامتياز سب کي ضمانت دے رہے ہيں، ان کي اکثريت سے آپ واقف بھي نہيں ہيں‘‘ تو آپ نے کہا ’’ايک مسلمان کے بچانے کے لئے ميري رياست ختم ہوجائے تو ميں اسے معمولي سمجھوں گا۔ اور يہ سينکڑوں کي تعداد ميں ہيں۔ ان کے تحفظ کے لئے ميں اپني جان اور آن کے لئے بھي خطرہ مول لے سکتا ہوں، رياست کيا چيز ہے‘‘۔

آپ کي دريادلي

shiitenews 14 august pakistan dayراجہ صاحب نے جس طرح دل کھول کر تحريکِ پاکستان ميں اپني دولت کو لٹايا ہے اس کي مثال مشکل سے ملتي ہے۔ گاندھي جي، جواہر لال نہرو، مولانا محمد علي، مولانا شوکت علي،مولانا حسرت موہاني، چودھري خليق الزماں، غرض کہ ہندوستان کا ہرشعلہ بياں مقرر آپ کي رہائش گاہ ’’قيصر باغ‘‘ لکھنو ميں محفلوں کو گرماتا۔جب آپ نے مسلم ليگ ميں شموليت اختيار کي تویہ ایک قسم سےگورنر’’سرہنري ہيگ‘‘ کے ساتھ ٹکرکے مترادف تھا۔ اسی وجہ سےآپ کو بلاکردھمکي دي گئي کہ اگرآپ نے مسلم ليگ نہ چھوڑي تو رياست ضبط کرلي جائے گي۔ ليکن آپ پراس کا کوئی اثرنہ ہوا بلکہ شعلہ آتش اورتيزہوگيا۔

لوگوں کي خدمت

راجہ صاحب مخدوم ہونے کے باوجود خادم نظر آتے اورشايد خدمت کي يہ ميراث ان کو اپنے والد مہاراجہ محمد علي خاں سے ملي تھي۔ یہی وجہ تھی کہ راجہ صاحب ایک طرف سےمسلم ليگ کے تمام جلسوں کا خرچہ برداشت کرتے تودوسري طرف ذاتي طورپرہربيکس و نادارکي مدد کے لے ہمہ وقت تيار رہتے۔ جب آپ کےبيٹے ’’سليمان مياں صاحب‘‘ کي ولاد ت ہوئي تو لوگوں نے جشن منانے کا مشورہ ديا۔ مگرآپ نے عجيب انداز سے اللہ کي اس نعمت کا شکرادا کيا۔ وہ اس طرح کہ رياست کي تمام ٢٤ تحصيلوں سے کل ايسے آدميوں کي فہرست منگوائي جو موتيا کے مرض کا شکارتھے۔ چنانچہ انھوں نے گيارہ سو اٹھاون 1158 مريضوں کو اپنے علاقے کے کيمپ ميں ٹھہرايا اور تمام لوگوں کا مفت آپريشن ڈاکٹر ٹي پرشاد (جو اس وقت آنکھوں کے مشہور ڈاکٹر تھے) سے کروايا ۔

قائد اعظم کي انسان شناسي

قیام پاکستان کی تحریک میں آپ کی خدمات جلی حروف میں درج ہیں۔ آپ قائد اعظم کے دست راست شمار ہوتے تھے۔ آپ نے قیام پاکستان کے سلسلہ میں مالی، اخلاقی مدد فراہم کرنے میں بہت زیادہ مثبت کردار ادا کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح متعدد مواقع پر آپ کے وجود کو باعث افتخار قراردیا۔اور آپ کي صلاحيتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے آپ کومسلم ليگ کا خزانچي مقررکيا ليکن راجہ صاحب اس اہم منصب کے ساتھ ساتھ اپني شعلہ بياني سے بھي نوجوانوں کے دلوں کو گرماتے رہے، يوں زباني خرچ کے ساتھ ساتھ جيبي خرچ کي ذمہ دارياں بھي انجام ديتے رہے۔

ليکن پاکستان بننے کے بعد آپ کو اپني رياست سے ہاتھ دھونا پڑا۔ جس کے بعد آپ کو پاکستان ميں تين فيکٹرياں لگانے کي پيشکش بھي ہوئي ليکن آپ نے اسے ٹھکرا ديا۔ اپني زندگي کے آخري ايام بڑي کسمپري کے ساتھ جو کي روٹي اور بسوں ميں سفرکرتے ہوئے گزارے

وہ محوِ نالہ جرسِ کارواں رہے

يارانِ تيزگام نے محمل کو جا ليا

مرزا ابوالحسن اصفہانی:

آپ قائداعظم کے نہایت ہی قریبی دوست شمارہوتے تھے۔ آپ نے مسلم لیگ کوفعال اورمضبوط بنانے میں بہت اہم کردارادا کیا۔ آپ نے قائداعظم کی خواہش پرانگریزی اخبار ڈان کا اجراء کیا۔ 1945ء کے مسلم لیگ کے اسمبلی کے الیکشن مہم کے انچارج تھے۔ آپ اعلیٰ تعلی یافتہ اورمعاشرے میں بہت بلند مقام کی حامل شخصیت شمار ہوتے تھے۔

راجہ غضنفر علی خان

آپ قائداعظم کے دیرینہ ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ آپ نے قیام پاکستان کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں۔ آپ قائداعظم کے ہراول دستہ کے اہم رکن شمارہوتے تھے۔ آج بھی اہل علاقہ آپ کی خدمات پرفخرمحسوس کرتے ہیں۔

مرزا احمد اصفہانی:

مرزا احمد اصفہانی نے قائداعظم کے کہنے پرمسلم بینکاری نظام کا آغازکیا اورمسلم کمرشل بینک کی بنیاد رکھی۔ آپ نے ہرمشکل موقع پرمسلم لیگ کے فنڈ میں خطیر رقم بطورچندہ دی۔ قائداعظم اکثروبیشترمسلمانوں کی فلاح وبہبود اورمعاشی ترقی کے لیے آپ کے ساتھ مشاورت کیا کرتے تھے۔

سرآدم جی داﺅد:

shiitenew 14Aug2011مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر آپ کی شاندار خدمات کا اعتراف متعدد مواقع پر قائداعظم نے اپنی تحریروں میں فرمایا۔ آپ کا شمار سرکردہ افراد میں ہوتا تھا۔ آپ نے قائداعظم اورمسلم لیگ کو پھیلانے اوراس کی مضبوطی کیلئے اہم کردارادا کیا۔

نواب فتح علی خان قزلباش:۔

آپ اس وقت لاہور کے سب سے بڑے نواب شمارہوتے تھے۔آپ نے پنجاب کے دل لاہورمیں قیام پاکستان کے لیے بھرپورکردارادا کیا۔ لاہورمیں مسلم لیگ اورقائداعظم کی تمام تنظیمی سرگرمیوں کا اہم مرکزقزلباش ہاﺅس ہی ہوا کرتا تھا۔

سید محمد دہلوی:۔

سید محمد دہلوی اپنے دور کے شیعہ مکتب کے بڑے رہنماوں میں سےایک شمارہوتے تھے۔ علم وحکمت کے بہارچمن میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ آپ نے قیام پاکستان کی تحریک میں بہت ہی مثبت اورجاندار کردارادا کیا۔

علامہ ابن حسن جاچوروی:۔

علامہ ابن حسن جاچوروی کا شمارنامورعالم دین میں ہوتا تھا۔ آپ نے قیام پاکستان کی تحریک میں بہت شاندار کردار ادا کیا۔ قائداعظم آپ کی صلاحیات کے بہت زیادہ معترف تھے۔ آپ نے شیعہ قوم کے شعورکواجاگر کرنے میں بہت اہم کردارادا کیا تھا۔

مولانا حسین بلگرامی آف اودھ پورہ:۔

آپ اہل تشیع کے ممتازعالم دین تھے اورقیام پاکستان کی تحریک میں بڑھ چڑھ حصہ لیا۔

سید وزیر حسن آغا:۔

آپ پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی جوائنٹ سیکرٹری تھے اورقیام پاکستان کی تحریک میں بہت سے مواقع پرانتہائی خدمات سرانجام دیتےرہے۔ آپ مسلم لیگ کے اہم مرکزی راہنما اورقائداعظم کے معتمد خاص شمار ہوتے تھے۔

سید علی امام آف پٹنہ:۔

آپ کا نام تحریک پاکستان کے اہم ترین اکابرین میں شمارہوتا ہے۔

سید حسن امام آف پٹنہ:

آپ کا شمار بھی تحریک پاکستان کے اہم ترین اکابرین میں ہوتا ہے۔

(سیٹھ محمد علی حبیب (حبیب بینک والے

آپ قیام پاکستان کی تحریک میں بڑے فعال تھے،متعدد مواقع پرقائداعظم اورمسلم لیگ کی مالی معاونت کرتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے بجٹ کے لیے قائداعظم کی انتہائی خطیررقم سے معاونت کی۔

اس کے علاوہ آغا محمد اشرف قزلباش، سید مراتب علی شاہ، میجر حسن بلگرامی، سرہارون، نواب فتح علی سیال، خان بہادر سیدآل نبی (یوپی)، ابراہیم رحمت اللہ (بمبئی)، سید سلطان احمد(بہار)، سید رضا علی (یوپی)،غلام علی چھاگلہ(سندھ)،  سید محمد محسن (ڈھاکہ)، نواب سید محمد اسماعیل(بہار)، راجہ آف سلیم پور (یوپی) ، سید محمد مہدی پیر

پور(یوپی)،  سید جعفر امام (بہار)، سید آل نبی، سید مقبول حسین گویال(بہار)، مولانا مرزا احمد علی(لاہور)، علامہ حسین الوری، سید ذیشان حسین شاہ کرنال، سید مہدی علی(علی گڑھ)، پروفیسر اجمل رضوی (راولپنڈی)

خواتین

 فاطمہ جناح، بیگم مرزا محمد اصفہانی، بیگم علی امام، بیگم ہارون، بیگم قزلباش، بیگم وزیر حسن آغا کا کردار تحریک پاکستان میں نمایاں مقام رہا ہے ۔                                                                                                                                                                                                                              

خواتین میں :  

اسی طرح صوبہ سرحد میں شیعہ بنگش سادات اورطوری قبیلہ،بلوچستان میں ہزارہ جات،چنگیزی شیعہ بلوچ ،سندھ میں تالپورخاندان،سادات، بلوچ،مہر، پنجاب میں بلوچ، سادات اوردیگر تمام اہم علاقوں سے ہراقوام سے تعلق رکھنے والے شیعہ افراد نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔

آج قیام پاکستان کی جدوجہد میں روزوشب صرف کرنے والے افراد کی نسلوں کوکبھی مسجد بم دھماکوں کی نظر کردیاجاتا ہے تو کبھی مومن پورہ کے قبرستان میں گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کبھی جلوسوں پرفائرنگ ہوتی ہے توکبھی خواتین کو بم سے اڑا دیا جاتا ہے۔ سانحہ ٹھیری میرواہ سندھ، سانحہ مومن پورہ لاہور، سانحہ میلسی، سانحہ گلگت، سانحہ کرم داد قریشاں، سانحہ ہنگو، سانحہ پارہ چنار، سانحہ پشاور، سانحہ راولپنڈی، سانحہ کراچی، سانحہ کوئٹہ، سانحہ ملہو والی،سانحہ ڈیرہ اسماعیل خان، سانحہ بھکر، سانحہ سیالکوٹ سمیت مختلف واقعات میں سیکڑوں علمائے کرام، انجینئرز،ڈاکٹر، پروفیسرز اوربے گناہ مومنین شہید کردئےگئے اورابھی تک یہ دہشت گردی کا نہ رکنے والاسلسلہ جاری ہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ آج تک کسی دہشت گرد مجرم کوعبرتناک سزا نہیں دی جا سکی۔ قاتل اکثرگرفتار ہوئے، قبال جرم بھی ہوا مگرمجرمان باعزت بری ہوتے رہے ۔آج بلوچستان کے غیور ہزارہ جات، چنگیزی اورسادات خاندان کے افراد یہ سوچتے ہیں کہ قیام پاکستان کی جدوجہد اسلامی ریاست کے لیے تھی یا محض فرقہ واریت، انتہا پسندی کے فروغ کے لیے؟ ۔ آج سندھ ،پنجاب ، شمالی علاقہ جات، اورکزئی ایجنسی اورکرم ایجنسی کے شہداءکے ورثاءضرور سوچتے ہوں گے کہ شاید ہمیں قیام پاکستان کی تحریک میں شاندار کردار اور بے لوث قربانیاں دینے کے جرم میں بے گناہ شہید کیا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ نظریہ قیام پاکستان کے وقت تو نہ تھا۔

آج بھی پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ قیام پاکستان کی تحریک میں حصہ لینے والی قوم عصر حاضر میں بھی وطن عزیزپاکستان کے استحکام ،سا لمیت اوربقاءکی جنگ لڑرہی ہے۔ ہمارے آباﺅ اجداد نے قیام پاکستان کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دیںتوآج ہم استحکام پاکستان کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

Back to top button