مقالہ جات

بہجت بننا آسان ہے؟

SHIITENEWS_ayatollah-bahjat-bigآیت اللہ العظمیٰ بہجت رحمۃ اللہ علیہ کی دوسری برسی کی مناسبت سے ایک خصوصی مضمون
مولانا سید صادق رضا تقوی مجلس وحدت مسلمین ،کراچی ڈویژن ۔امور جوانان فضا سوگوارہے؛غم کی فضا اورایک اُداسی سی چھائی ہوئی ہے ماحول پر!
ایک ایسی فضا جیسی روزِ عاشورا؛وقت عصر ،عشاق کے دلوں پر چھائی ہوئی ہوتی ہے، ہر آنکھ سوگوار ہے،آنسو ڈبڈبا رہے ہیں،مچل رہے ہی ہے
ظرف ِچشم اور اُن کے لبریز ہونے والے جاموں میں ایک کشمکش جاری ہے اوردل سے نکلنے والی ہر آہ و فریاد، گرےے کی رفتار کو مزید تیز کر رہی ہے!
معاشرے کا ہر فرد،ہر پیر و جوان،مرد و عورت اورہر قسم کے نئے سے نئے فیشن کا دلدادہ و فریفتہ نوجوان اپنے نئے نئے بالوں کے اسٹائل کے ساتھ کالے لباس میں ملبوس اشکبار دکھائی دے رہاتھا!
یہ صرف میراآنکھوں دیکھا حال مشاہد ہ نہیں ہے بلکہ یہ میرے جیسے اُن تما م افراد کا دردِ دل ہے کہ جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اُس ماحول کواور اپنے دل کی آنکھوں اور بصیرت سے دیکھا بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ اُنہوں نے اُس فضاو ماحول کو درک کیا۔
اِس لےے کہ جو کچھ آنکھو ں سے نظر آرہا تھا،جو کچھ سامنے تھا اورہر وہ منظر کہ جسے آنکھوں کا کیمرہ اپنے خاص طریقے سے کھینچ کر اپنے ذہن کے میموری کارڈ میں محفوظ بنارہا تھا،وہ سب اُس سے مختلف تھا کہ جسے بصیرت اور اندرونی آنکھیں محسوس کر رہی تھیں۔
کالے کپڑوں میں ملبوس لاکھو ں انسانوں کے اجتماع کو یادگار بنانے کی خاطراندرون او ر بیرون ملک ٹی وی چینلوںکے سینکڑوں کیمروں کی آنکھیںمناظر کو فلم بنا کر اپنے اپنے ٹی وی چینلوں کو ارسال کر رہی تھیں۔
ہر ہرسیکنڈ میں ہزاروں اِسٹل کیمروں کی کھل بند ہو نے والی آنکھیںبھی اِن تصاویر کو امر بنانے کی کوششوں میں مصروف تھیں۔
صحیح ہے کہ ہر تصویر گویا تھی اوراپنی بے زبانی سے بول رہی تھی اور داستان غم کی حکایت سنا رہی تھی!!
لیکن اِن تصویری حکایتوںکے علاوہ ……..سبھی اُس اُداسی کو بخوبی محسو س کر رہے تھے !
ایک افراتفری کا عالم تھا،ہر شخص اپنے میں کھویا ہو ادکھائی دے رہا تھا؛
میدا ن عرفات کا منظر تھا یا روزِمحشر کا سماں!!واللہ اعلم بالصواب!!
لیکن اِس شور و ہنگامے میں ”ایک” تھاجو نہ صرف یہ کہ اِس منظر کو وجود میں لانے کا باعث بنا تھا بلکہ اُسی نے معاشرے کے،……نہیں…….بلکہ جہاں کے نظام تکوینی کو تہہ و بالا کر دیا تھا، بہت پُر سکون اور ہر قسم کے اضطراب و پریشانی سے دور ،ہر خطرے سے بے خطر اورمطمئن دکھائی دے رہا تھا!!
المختصر مرا یہ کہ جہاں زمین والے ”کسی ”کے آنے کے منتظر تھے ،جہاں ایک قبر”رَوْضَۃٌ مِّنْ رِّیَا ضِ الْجَنَّۃِ ”(قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے )کا مصداق بن کر”کسی” کی آمد کی منتظر تھی ،وہیں آسمان کے دروازے بھی کھلے تھے اورزمین و آسما ن کے فرشتے ”اُس ”کی آمد کا شدت سے انتظار کر رہے تھے۔
زمین والوں میں ایک ہلچل تھی تو آسمان والوں میں غوغا!
کیوں…..؟!!آخر کس لےے……؟!!وجہ کیا تھی…….؟!!
کتنے ہی انسان اِس دنیا میں آئے ،زندگی بسر کی ،موت نے اُنہیں اپنی آغوش میں لیایا اُنہوں نے اپنے لےے ”سرخ موت”کا انتخاب کیا اور وہ اِس دنیا سے چلے گئے ۔
اُن میں سے کچھ ایسے ہیں کہ جن کے مرنے کے دوسرے ہی دن لوگوںنے اُنہیںفراموشی کے دفتر میں لپیٹ دیا،اُن کا نام بہت جلدی ہی زندوں کی فہرست سے نکال کر اندھیری دنیا کے باسیوں میں لکھ دیا گیااوروہ اُن کی چند برسوں پر محیط زندگی اُن کے اپنے معاشرے و سماج کے کوگوں پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ڈال سکی!
سخن ،عشق کی ہے اورعشق کی ہی ہونہ چاہےے ۔
اِس لےے کہ اِس وسیع و عریض کائنات میں منطقی اصطلاح کے مطابق انسان”موضوع ”ہے اور عشق ”محمول”یعنی اِس کائنات کا قضیہ ”انسان،عاشق ہے ”کی صورت میں سامنے آئے گا۔ بغیر عشق کے نہ انسان قدر وقیمت رکھتا ہے اورنہ کائنات!
لیکن کچھ” ایسے ”بھی ہوتے ہیں__اِس ”جیسے”کی تشریح میں آگے چل کر کروں گا__ جو اپنے جیتے جی ایساکام کر جاتے ہیںکہ نہ صرف یہ کہ اُن کا زمانہ ووقت بلکہ اُن کا مستقبل ، معاشرہ ، لوگوں کے احساسات و جذبات،آنسو،آہ وفریاد،نالہ وزاری،اُنس و اُلفت،چاہت، غرض یہ کہ جو کچھ بھی مقولہ محبت و عشق کے زمرے میں آتا ہے،سب کو اپنی ذات کے عمیق بحر بیکراں میں غرق کر لیتے ہیں،اُنہیں اپنی ذات کا حصہ بناکر خود بھی سب کی ذات کا حصہ بن کر اُن کے وجود کی گہرائیوں میں اُترتے چلے جاتے ہیں اور مولائے کائنات -کی اِس حدیث ”عَاشَوْا فِی النَّاسِ……”کہ ”لوگوں میں اِس طرح رہو کہ جب تک تم زندہ ہو تو وہ تم سے ملنے کے مشتاق ہوں اورجب تم مر جاؤ تو تم پر گریہ کریں”کا مصداق بن جاتے ہیں۔
بلکہ اگر میرا قلم اِس بات کی اجازت دے تو میں یہ لکھ سکوں کہ وہ لوگوں کی”بہجت”(دل کی خوشی و سرور)بن جاتے ہیں؛
جنہیں ہر دم دیکھنے کی آرزو ہوتی ہے،جسے دیکھے بغیر آنکھوں کوسکون نہیں ،دل بےقرار رہتے ہےں اورایسے مقا م پر پہنچ کر حبیب و محبوب اور انیس و مونس اور عاشق و معشوق تمنا کرتے ہیں کہ وقت کی رفتاررُک جائے !
حقیقت یہی ہے کہ” بہجت” واقعاً”قلوب کی بہجت” تھا!!
کیوں…….؟
اِس لےے کہ اُس نے خود کی” تربیت ”کی تھی ،اُس نے خود کو” بنا یا” تھااوراپنے اصلاح و تہذیب ِنفس میں کوشش و جد وجہد سے کام لیا تھا۔یہ وہی تھا کہ جس نے اپنے ”روحانی وجود” کو اپنے ہی ہاتھوںسے تراشاتھا۔غرض یہ کہ وہ قرآن کے مطابق ،خدا کا شاگر تھا او رخدا اُس کا اُستاد!
”وَاتَّقُوااللّٰہَ وَ یُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ’ ‘یعنی تم اللہ کا تقویٰ اختیارکروتو اللہ (تمہارا اُستاد بن کر) تم کو تعلیم دے گا۔(بقرہ/٢٨٢)
آج ایک ایسے ہی”معلّم عشق و عرفان”کے فقدان اور خدا کی ایک نعمت ِ عظمیٰ کی یاد میںقلم اُٹھایا ہے جو مجسم عشق،سراپا لطف و رحمت،پیکر شفقت و محبت،تہذیب و تزکیہ نفس کا نمونہ، ”وَاتَّقُوااللّٰہَ وَ یُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ’ ‘یعنی تم اللہ کا تقویٰ اختیارکروتو اللہ (تمہارا اُستاد بن کر) تم کو تعلیم دے گاکا مصداق کامل ،”اَلْعِلْمُ نُورٌ یَقْذِفُہُ اللّٰہُ فِی قَلْبِ من یَشَآئُ”(علم ایک ایسا نور ہے کہ جسے خدا اپنے جس بندے کے دل میں چاہتا ہے ،ڈال دیتاہے)کا مظہراور”مَنْ یُّذَکِّرُکُمُ اللّٰہُ رُؤْیتُہُ ”( جس کا دیکھنا تمہیں خدا کی یاد دلائے )کی جیتی جاگتی تصویر تھا!
ہاں و ہ ایسا ہی تھا……….،اُس نے سب سے پہلے اپنی اصلاح کی ،اپنے آپ کو گناہوں سے بچایا اور خدا کی جانب خد اکی مدد سے آگے بڑھا۔
لیکن سب کے اذہان میں سے سے پہلے یہ سوال اُبھرتا ہے کہ کیا وہ پہلے ہی مرحلے میںکامیاب ہو گیا؟
کیاوہ پہلے ہی قدم میں شیطانی وسوسو ں سے نجات پا گیا؟
کیا اُس نے صد سالہ راستہ ایک ہی رات میں طے کرلیا؟
نہیں……!!!
عرفان کاسب سے پہلا قدم ”یَقْظَہ”یعنی بیداری ہے،انسان بیدا رہو جائے اور جان لے کہ اُسے کو چ کرنا اورخدا کی جانب قدم بڑھانا ہے۔
اِس لےے کہ سویا ہوا اور غافل انسان حرکت نہیں کر سکتا اورحرکت بھی کرے تووہ اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا۔
دوسروں کی اصلاح وتربیت کیلئے اُس کی یہی روش و منش تھی :
”جو بات جانتے ہو،اُس پر عمل کرواور جس بات کا حکم نہیں جانتے تو صبر کرو یہاں تک کہ اُسے انجام دینے یا نہ دینے کا حکم معلوم ہو جائے۔ ”
بزم دوستاں ہو یا حلقہ درس ؛عشاق کی محفل ہو یا پھرعقیدت مندوں کا اجتماع؛اُس کا سکوت،خاموشی،دیکھنااُٹھنا بیٹھنا،اُ س کی نما ز ہو یا اُس نماز میں اُس کاخوف ِالٰہی سے گریہ و زاری؛سبھی درس تھا!
وہ شمع محفل بھی تھا،عاشقوں کی جان بھی اورچاہنے والوں کے دلو ں کی دھڑکن بھی ؛
وہ ”ایک” تھااوربے مثل و نظیر؛
اورعارف کامل اورآیت حق ،آیت اللہ العظمیٰ رضا بہاء الدینی ؒ کے بقول:
”روئے زمین کا معنوی و روحانی طور پر سب سے امیر اور صاحب ثروت انسان!”
لیکن وہ اب ہمارے درمیان موجود نہیں،
اُس کی یادیں ،
اُس کی باتیں ،
اُس کی غم زدہ مسجد،
اُس کی اداس محراب،
حضرت معصومہ = کے حرم کا وہ گوشہ کہ جہاں وہ ہر صبح زیارت کیلئے آتا تھا
اورپورے شہر قم میں جگہ جگہ لگی ہو ئےں اُس کی تصویریں!
ہر جگہ اُس کا ”وجود” ہے لیکن نہیں بھی ہے!
وہ جب تھا بھی تو” نہیں ”بھی تھا اور اب ”نہیں ”بھی ہے تو”موجود” بھی ہے !!
کتنی عجیب بات ہے!!
اب جبکہ وہ” نہیں ”،حقیقت میں تو وہ ”موجود”ہے اور پہلے سے زیادہ ”موجود” ہے اور ایک خاص” حقیقت ”کا حامل ہے تو کیا ایسی صورتحال میں زمانہ بانجھ ہو گیا ہے کہ دوسرے ”بہجت ”جو جنم دے؟
کیا ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری کا رونا روئے ……کیا زمین ایسے پاکیزہ انسان کے قدموں کی آہٹ سننے کی خاطر ہزاروں سال تڑپتی رہے کہ ایک نیا”بہجت”دنیا میں قدم رکھے!
وہ ”بہجت”اب لوٹ کر آنے والا نہیں ،حالانکہ وہ اب بھی” موجو د”ہے،
بس فرق یہ ہے کہ اُسے اور اُس کے اِس نئے وجود کو سمجھنے کی ضرورت ہے!
وہ نہیں آنے والا لیکن کیا اُسی جیسے دوسرے ”بہجتوں”کا جنم لیناممکن ہے ؟
کیا بہجت بننا آسان ہے؟؟
حقیقت تو یہی ہے کہ اُسی نے ہمیں یہ سکھایا کہ بہجت کیا،” بہجت ”سے آگے کی منزلوں کو پانا انسانی ارادے و اختیار میں ہے اور ہر انسان” بہجت ”سے آگے اور تیزی سے ترقی کی مناز ل طے کر سکتا ہے!!
گویا و ہ جب تک اپنے بدن،سانسوں ،نماز اور ظاہری وجود کے ساتھ موجود تھا،اپنی زبان سے اور آج بھی کہ جب اُس نے اپنی منزل کو پا لیا ہے تواپنی بے زبانی سے یہی کہتا ہو انظر آرہا ہے:
اگر واقعاً تم میں سے کوئی بہجت بننا چاہے (حالانکہ اُس کی نظر میں بہجت بننا کوئی قابل قدر چیز نہیں تھی ،اُس کا سب سے بڑا افتخار ”عبد خدا ”ہونا تھااوراُس کا بہجت کو ایک آئیڈیل انسان کی صورت میں جلوہ دیناہم اُن انسانوں کیلئے تھا جو ہمیشہ اپنی ہمتیں ہار جاتے ہیں،ترقی و کامیابی اور روحانی ارتقاء عبد خدا کی منزل تک رسائی کو دوسروں کیلئے ہی دیکھتے اور آسان سمجھتے ہیں) تواُسے چاہےے کہ کچھ کام انجام دے:
١۔سب سے پہلی چیز اول وقت نماز کی ادائیگی ہے:
آیت اللہ العظمیٰ بہجت فرماتے ہیںکہ آیت اللہ قاضی ؒنے فرمایا:
”اگر کوئی نماز واجب کو اول وقت ادا کرے اور اعلیٰ مقامات تک نہ پہنچے تو مجھ پر لعنت کرے!”
٢۔دوسری چیز گناہو ں سے اجتناب ہے!
”ترک معصیت؛عتقادات میں،دل میں اور اپنے اعمال میں۔تم گناہو ںکو ترک کرنے کا پکا او ر مصمم ارادہ کرو تو اللہ بھی تمہاری مدد فرمائے گا اور جان لو کہ ”ترک معصیت”کا مقام حاصل نہیں ہو گا مگر یہ کہ تم کو ”ملکہ ”حاصل ہو جائے ۔جوجانتے ہیں اُس پر عمل کریں اور جو نہیں جانتے وہاںتوقف اور احتیاط سے کام لیں یہاں تک کہ اُس کا حکم معلوم ہو جائے ۔اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہمیں پشیمانی اور نقصا ن کا سامنا نہیں کرناپڑے گا ۔اگر بندہ عزم راسخ و ثابت کا مالک ہو تو اُ س کا مالک بھی اُسے یقینا توفیق بھی عنایت کرے گااوراُس کی مدد بھی فرمائے گا۔ ”
”ملکہ ”یعنی تسلط اورایساقوت و احساس جو سکی وقت میںانسان سے جد انہ ہو،ملکہ یعنی وہ خیال و احساس و معرفت جو دل پر حکمرانی کرے اور انسان اُسی کی ہی بات سنے !
٣۔یقین کا حصول
میں نے بارہا کہا ہے اور اب بھی کہہ رہاہوں کہ جو بھی یہ بات دل سے جان کہ کہ اگر ہو خدا کو یاد کرے توخد ااُس کا ہم نشین ہو جاتا ہے ،تواُسے کسی بھی وعظ و نصیحت کی ضرورت نہیں ہو گی ۔وہ خود جان جائے گا کہ اُسے کیا کرنا اورکیا نہیں کرنا چاہےے اوروہ اِس بات کی حقیقت تکک بھی پہنچ جائے گاکہ وہ جو بات بھی جانتا ہے اُس پر عمل کرے اور جس بات کا حکم نہیں جانتا ،وہاں احتیاط سے کام لے۔”
٤۔جوجانتے ہو اُس پر عمل کرو!
کچھ مومن و مومنات ہم سے نصیحت کے طالب ہیں:”مَنْ عَمِلَ بِمَا عَلِمَ وَرَّثَہُ اللّٰہُ عِلْمَ مَا لَمْ یَعْلَمْ ‘ ‘(جو اپنے علم کے مطابق عمل کرے تو خدا وند عالم اُس چیزکا علم عنایت کرتا ہے کہ جس سے وہ بے خبر و لاعلم ہوتا ہے)؛آپ جو کچھ جانتے ہی اُس پر عمل کیجئے اور جو نہیں جانتے اُس کے بارے میں احتیاط سے کام لیجئے تاکہ اُس کا حکم معلوم اورروشن ہو جائے ۔(یہ جو نصیحت آپ پراثر انداز نہیں ہوتی ہے تو اِس کے بارے میں)جان لیجئے کہ آپ نے اپنے علم اور معلومات کو پس پشت ڈال دیا ہے!آپ نے یقینا نصیحت سنی ہے اورآپ نے اُس پر عمل نہیں کیا ہے ورنہ تو حقیقت آپ پر روشن ہوتی۔”
٣۔اہل بیت ؑسے توسل اوراُن کی اطاعت:
”جو خدا کی ذات پر یقین رکھتا ہے اورتمام انبیا اور اوصیاء سے مربوط و متصل ہو اوراپنے اعتقاد و عمل میں اُن سے توسل رکھتا ہوتو اُسے چاہےے کہ اُن کے دستورات و احکام کے مطابق حرکت کرے اور رُکے اوراُسے چاہےے کہ عبادات کو ”غیر خدا”سے خالی کرے اورتمام چیزوں سے فارغ القلب ہو کر نماز ادا کرے کہ انسان کی تمام چیزیںاُس کی نماز کی تابع ہو نی چاہئیں ۔ اُسے چاہےے کہ وہ شبہہ ناک چیزوں اور اُن امور میں کہ جن کا اُسے حکم نہیں معلوم،حضرت امام زمانہ -کا تابع ومطیع ہو۔”
٤۔کون ساذکر؟
”عملی ذکر سے بڑھ کر کوئی اور ذکر نہیں ہے اور اعتقاد و عمل میں گناہوں اورمعصیت کو ترک کرنے سے بڑھ کر کوئی عملی ذکر نہیں ہے۔”
زبانی ذکر سے بڑھ کر وہ عمل ہے کہ جو عمل سے تعلق رکھتا ہے اور وہ عملی ذکر ہے کہ جس میں انسان اپنے تمام اعمال میںخدا کی معصیت و نا فرمانی کو ترک کردے۔انسان آہستہ آہستہ اپنے سارے اعمال میںکوشش کرے کہ خدا کی نا فرمانی کو ترک کردے تو اُس کے بعد اُس کو یہ ملکہ حاصل ہو گاکہ وہ اپنے ارادے و ختیار سے تمام گناہو ں کوترک کردے۔
٥۔کامیابی کا راز؛عمل،کوشش اور جد و جہد
”وہ لوگ جو (ہم سے )وعظ و نصیحت کے طالب ہیںاگراُن سے یہ سوال کیا جائے کہ کیاآپ نے آج تک جوکوئی وعظ ونصیحت سنی ہے کیا اُس پر عمل بھی کیا ہے؟ کیا آپ یہ بات جانتے ہیں کہ جو اپنے علم او ر معلومات پر عمل پیرا ہوتا ہے تو خدا وند عالم اُس پر مجہولات اورلا علم چیزوں کو اُس پر معلوم کردے گا۔اگر وہ اپنے ارادے و اختیار سے اپنی معلومات اور علم پر عمل نہ کرےں تو کیااُن کیلئے یہ بات شائستہ ہے کہ وہ زیادہ زبانی معلومات کا تقاضا کریں!’ ‘
٦۔نماز شب:
”خدا وند عالم اپنی تعبدیت اورعبادات میںہم سے ناخن سے پہاڑ کھودنے کا طالب نہیں ہے۔اُس کی عبادات میں سے سب زیادہ سخت”نماز شب”ہے جس کی ادائیگی کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے انسان رات کو آدھا گھنٹہ پہلے سو جائے اورنما زشب کی ادائیگی کیلئے اذان فجر سے آدھا گھنٹہ قبل اُٹھ جائے !”
وہ ایسا ہی تھا ،آج لوگوں کے جذبات و احساسات ،دل کی دھڑکنیں،خاموش آنکھوں سے بہنے والے آنسو،آہ و نالے اور وہ سب کچھ جو ایک با شرف وبا فضیلت انسان سے مخصوص ہو سکتا ہے وہ سب اِ س عظیم انسان سے مخصوص ہے!
کیوں؟
اِس لےے کہ اُس نے اپنے علم پر عمل کیا،
اِس لےے کہ اُس نے عمل نہ کی جانے والی معلومات کا ڈھیر نہیں لگایا،
اِس لےے کہ اُس کو جو کچھ بھی معلوم ہو ااُس پرفوراًعمل درآمد کیا،
اِس لےے کہ اُس نے خدا کی سنی ،
وہ خدا کیلئے جیتا تھا،
اُس کا تمام وجود ،اُس کی زندگی ،اُس کی موت،اُس کی سانسیں،اُس کے دل کی دھڑکن ، غرض یہ کہ اُس کا سب کچھ خدا کیلئے تھا،
وہ خداکا تھا ،
وہ رسول ؐ اور آل رسولؐ کامطیع وفرمانبرداراوراُن کی مرضی وحکم کے سامنے تسلیم تھا،
اُس نے ہم سب کواپنے عمل سے یہ درس دیا کہ
اگر تم بھی
اپنے اپنے علم پر
عمل پیرا ہو،
خلوص سے خدا کی عبادت کرو،اُسی سے دعا کرو،
اُس کے انبیا اوراوصیاسے توسل کرو،
اوراپنے عقیدے ،عمل اور دل جوخدا کی معصیت اور نافرمانی و گناہ سے خالی کردو
تو جان لو کہ
تم ”بہجت”سے بہت آگے نکل سکتے ہو!
اورتمہارے لےے ”بہجت بننا آسان ہے!!”

متعلقہ مضامین

Back to top button