مقالہ جات

اسلام کے خلاف یورپ کا ایک اور گھناؤنا اقدام

islamophobiaاسلامی کانفرنس تنظیم کے جنرل سیکریٹری اکمل الدین احسان اوغلو نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے توہین آمیز خاکوں پر مشتمل کتاب کی اشاعت پر اپنے سخت غم وغصے کا اظہار کرتے ہوئے حکومت ڈنمارک سے سخت احتجاج کیا ہے۔
اکمل الدین احسان اوغلو نے حکومت ڈنمارک کو  اس کتاب کی اشاعت کی ذمہ دار قرار دیا ہے۔
یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ اس وقت دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جاری جنگ مختلف محاذوں پر لڑی جارہی ہے جس  میں ایک طرف عالم اسلام ہے اور دوسری جانب پوری دنیا کی اسلام مخالف طاقتیں۔ 11 ستمبر کے واقعات کے بعد جارج ڈبلیو بش نے جو صلیبی جنگ کا نعرہ لگایا تھا وہ اسی حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
11 ستمبر کے مشکوک واقعات کے بعد ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مختلف قسم کے اقدامات شروع کردیئے گئے اور یورپ اور امریکہ میں رہنے والے پر امن مسلمان اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگے؛ ان پر حملے ہونے لگے؛ سرکاری طور پر ان پر نگرانی کی جانے لگی اور انہیں مشکوک افراد کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ یہ صورت حال مسلم برادری کے لئے انتہائی مایوس کن تھی۔
اس پر مستزاد یہ کہ بعض یورپی ملکوں میں مسلمانوں کے عقائد اور رہن سہن پر بھی حملہ ہونے لگا۔ کہیں پیغمبر اسلام (ص) کے توہین آمیز خاکے شائع کئے گئے تو کہیں پردہ کرنے کی بنا پر بچیوں کو اسکولوں سے اور خواتین کو نوکریوں سے نکال دیا گیا۔ جرمنی کے شہر ڈریسڈن کی عدالت میں جج اور پولیس اہلکاروں کے سامنے ایک باپردہ مسلمان مصری خاتون مروہ الشربینی کا قتل اسلام دشمنی کا ہی نتیجہ تھا کہ جس نے یورپی معاشرے کااصل چہرہ بے نقاب کردیا۔
اس وقت مغربی میڈیا اسلام اور مسلمانوں کےخلاف جنگ میں اسلام مخالف لشکر کے ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے اور مسلمانوں کے بارے میں اس کا متعصبانہ رویہ اور مکروہ چہرہ کھل کر سامنے آچکا ہے۔
اس وقت یورپ اور امریکہ میں موجود مسلم کمیونٹی کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے۔ جہاں انہیں غیر مسلم کمیونٹی کی تند و تیز نگاہوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں بعض ملکوں میں سرکاری سطح پر ایسی پالیسیاں اور پروگرام بنائے جارہے ہیں جو مسلم عقائد سے متصادم ہیں اور مسلمان گھرانے اپنے بچوں کی اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر تربیت کے سلسلے میں پریشان ہیں۔
بعض مبصرین کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ بعض یورپی حکومتیں اب ان خطوط پر سوچ رہی ہیں کہ یا تو مسلمان ہمارے ملکوں میں رہتے ہوئے ہمارے رسم و رواج اور طرز زندگی کے مطابق زندگي گزاریں یا پھر اپنا کوئی اور بند و بست کرلیں۔ یہ صورتحال یورپ میں موجود مسلم کمیونٹی کے لئے نہ صرف انتہائي پریشان کن ہے بلکہ لمحۂ فکر یہ بھی ہے ایسے میں متعصب یورپی حکمران اور حکومتیں آزادی بیان کی آڑ میں اسلام کی بنیادوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔
پچھلے دنوں جب امریکہ میں قران سوزی کا واقعہ پیش آیا تھا تو اس وقت فرانس کے مشہورصحافی اور تجزیہ نگار ژان میشل ورنوشہ نے کہا تھا کہ اسلام فوبیا پھیلانے والے اور اسلام مخالف اقدامات کرنے والے ہار چکے ہیں اور اپنی شکست کا تدارک کرنے کے لئے احمقانہ اقدامات کررہےہیں۔
فرانس کے ایک اور صحافی ٹیری میسن نے کہنا تھا کہ امریکہ اور مغربی ممالک قرآن کی بے حرمتی کرکے اسلام کے خلاف جنگ جاری رکھنا چاہتےہیں انہوں نے کہا کہ مغرب اسلام اوراسلام پسندی سے نہیں ڈرتا بلکہ اس کو امن وصلح سے ڈر لگتاہے کیونکہ مغرب کو زندہ رہنے کے لئے جنگ کی ضرورت ہے۔ ٹیری میسان کے مطابق اسلام کے خلاف مغرب کے اقدامات نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں۔ امریکہ میں قرآن کی بے حرمتی سے کچھ ہی دنوں قبل جرمن چانسلر انجلا مرکل نے رسول اسلام کی شان میں توہین آمیز خاکے بنانے والے کارٹو نسٹ کو انعام دیا تھا۔
رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی حامنہ ای نے بھی امریکہ میں قران سوزی کے افسوسناک واقعے پر اپنے ایک اہم پیغام میں فرمایا تھا کہ یہ اس شرمناک سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کا آغاز کافر مرتد سلمان رشدی کی گھناؤنی حرکت سے ہوا اور ڈنمارک کے خبیث کارٹونسٹ کی حرکتوں اور ہالیوڈ کی سیکڑوں اسلام مخالف فلموں کی شکل میں آگے بڑھتے ہوئے اب اس نفرت انگیز منظر تک پہنچا ہے۔
ان شر پسندانہ حرکتوں کے پیچھے کیا ہے اور کون ہے؟ آج مغرب کے پاس اسلام کے منطقی استدلال کے جواب میں کہنے کوکچھ بھی نہيں ہے۔بہرحال ڈنمارک میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اہانت آمیز خاکوں پر مشتمل کتاب کی اشاعت پر اگر مسلم ممالک نے ٹھوس رد عمل نہ دکھایا تو یقینا دشمن کی جراتیں مزید بڑھیں گی لہذا مسلم ممالک کی حکومتوں کو اس سلسلے میں او آئی سی کے پلیٹ فارم سے آواز بلند کرنی چاہیے اور مسلمان ممالک عوام کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں خاموش نہ رہیں اور ہر سطح پر آواز بلند کریں۔

متعلقہ مضامین

Back to top button