ایران

ایران کا نہ کوئی پراکسی گروپ ہے نہ ہم کوئی پراکسی وار لڑ رہے ہیں، حسین امیرعبداللہیان

شیعیت نیوز: ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان نے فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی طرف سے صیہونی حکومت کے خلاف 7 اکتوبر کی کارروائی میں ایران کی شمولیت کے دعوے کو مکمل طور پر بے بنیاد دعویٰ قرار دیا ہے۔

امریکی ٹیلی ویژن چينل سی این این سے کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایران اس آپریشن میں شریک نہیں اور خود فلسطینیوں نے بھی اس آپریشن میں ایران کی کسی بھی طرح کی مشارکت کی سختی کے ساتھ تردید کی ہے۔

وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان ایران نے پراکسی گروپ یا پراکسی وار کے دعوؤں کو بھی سختی کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے پاس کوئی گروپ ہے نہ ہم پراکسی وار لڑ رہے ہیں بلکہ یہ اسرائیل ہی ہے جو خطے میں امریکہ کی پراکسی کے طور پر کام کر رہا ہے اور اس نے خطے کو غیر محفوظ بنا رکھا ہے۔

انہوں مزید کہا کہ ہم نے شروع ہی سے فلسطینیوں کی سیاسی، اخلاقی اور میڈیا حمایت کی ہے اور آئندہ بھی کریں گے اور اس سے کبھی انکار بھی نہیں کرتے۔ لیکن طوفان الاقصی آپریشن کے حوالے سے نہ تو فلسطینیوں نے ہم سے رابطہ کیا نہ ہی ہماری حکومت یا ایران کے کسی بھی ادارے کا اس کارروائی میں کوئي حصہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں : فلسطینی مجاہدین جنگی آپریشنز اور ہتھیار سازی میں خودکفیل ہیں، جنرل محمد باقری

ایران کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطینیوں نے جو قدم اٹھایا ہے وہ اپنی سرزمین کے دفاع اور مقبوضہ علاقوں کی آزادی کی جدوجہد کے دائرے میں آتا ہے اور ہمارے خیال میں عالمی قوانین اور ضابطوں کے تحت انہیں ایسا کرنے کا حق حاصل ہے۔

مغربی ایشیا میں امریکی فوجی اہداف پر حملوں کے بارے میں واشنگٹن کے دعوے سے متعلق ایک اور سوال کے جواب میں وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان کا کہنا تھا کہ خطے میں امریکی مفادات پر ہونے والے حملوں کو دستاویزی ثبوت اور شواہد کے بغیر ایران سے جوڑنا سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ اگر اس بحران میں ایران کا کوئی کردار نہیں ہے تو آپ اس جنگ میں کیوں الجھے ہوئے ہیں ایران کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ امریکہ ہے جو اس جنگ میں الجھا ہوا ہے۔

انہوں واضح کیا کہ یہ خطہ ہمارا ہے اور ہم اپنے خطے کے حالات سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ امریکہ ہزاروں کلومیٹر دور واقع ہے لیکن وہ ہمارے خطے کے تمام معاملات میں مداخلت کرنا چاہتا ہے لہذا آپ یہ سوال امریکی سیاستدانوں سے پوچھیں کہ وہ عراق اور شام میں کیا کر رہے ہیں؟

متعلقہ مضامین

Back to top button