ریمدان بارڈر سے تفتان بارڈر تک
صوفی ٹائپ لوگ سکیورٹی اداروں میں کیسے بھرتی ہو جاتے ہیں؟ بارڈر کراس کرنے والے عام پاکستانی ہوتے ہیں۔ انہیں ہراساں کرنا بھی کھلم کھلا دہشت گردی ہے

شیعیت نیوز:ریمدان بارڈر اور تفتان بارڈر بہت انوکھے بارڈر ہیں۔ ان بارڈروں میں ایسی انوکھی خصوصیات ہیں، جو پاکستان کے کسی بھی دوسرے بارڈر میں نہیں۔ ہم پہلے ریمدان بارڈر کی خصوصیات سے شروع کرتے ہیں۔ ریمدان بارڈر کراچی میں واقع ہے۔ اس بارڈر کو 2020ء میں باقاعدہ طور پر ایک بارڈر کا درجہ دیا گیا۔ وہاں پر مسافروں سے رشوت لینے کا انتہائی بھونڈا طریقہ کار رائج ہے۔ ہماری انتظامیہ سے اپیل ہے کہ بارڈر پر ایک رشوت باکس رکھ دیا جائے، تاکہ بارڈر کراس کرنے والے اس ڈبے میں چپ چاپ اپنے حصے کی رشوت ڈال دیا کریں۔ آج کل پانچ ہزار روپے فی کس کا ریٹ چل رہا ہے۔ جب سیاستدان دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹ رہے ہیں تو امیگریشن اور سکیورٹی کا عملہ بھی تو بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے۔
کسی قسم کا چیک اینڈ کنٹرول نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بھتہ اوپر تک جاتا ہے۔۔ ہمارا ایک مشورہ ہے کہ کم از کم لوگوں کا وقت تو بچائیں۔ رشوت تو لوگوں نے ہر صورت میں دینی ہی ہوتی ہے، لہذا وہاں چندہ باکس کی طرح ایک رشوتی ڈبہ رکھ دیا جائے۔ اس ڈبے کی حفاظت کیلئے بھی ایک سکیورٹی گارڈ رکھ لیا جائے، ویسے بھی سکیورٹی گارڈ نے پیسے ہی بٹورنے ہوتے ہیں۔ سب گزرنے والے جلدی جلدی 5 ہزار روپے ڈال دیا کریں گے اور آگے گزر جایا کریں گے۔ ویسے بھی رزق حلال تو ایسے اہلکاروں کے نزدیک ایک فضول سی چیز ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سی ٹی ڈی کی کارروائیاں، داعش کے کمانڈروں سمیت 13 تکفیری دہشتگرد گرفتار
دوسری طرف تفتان بارڈر کا احوال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں، البتہ طریقہ واردات قدرے مختلف ہے۔ تفتان بارڈر سے لوگ زیادہ تر ایران، سعودیہ، ترکی اور عراق کا سفر بائی روڈ کرتے ہیں۔ مجھے اس بارڈر سے گزرنے کا اتفاق ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ بارڈر دراصل بارڈر سے زیادہ ایک ٹارچر سیل ہے۔ لوگ چاند پر پہنچ گئے اور تفتان بارڈر پر ابھی تک ایک *صوفی صاحب* کی حکومت ہے۔ بارڈر کراس کرنے والوں کو ایک عدد کاغذ دیا جاتا ہے، تاکہ اپنی معلومات اور جانے کا مقصد لکھا کریں۔ ویزہ ملنے کے بعد یہ ایک فضول قسم کی کارروائی ہے۔ خواہ مخواہ لوگوں کا دماغ چاٹنے کیلئے وہاں چند بندوں کو بٹھا دیا گیا ہے۔فضول میں از سرنو ساری فیملی کی، پاسپورٹوں کی شناختی کارڈوں وغیرہ وغیرہ کی تصاویر بنائی جاتی ہیں۔
صوفی صاحب اور ان کا ٹولہ سب خوش ہیں، چونکہ سب کی تنخواہ لگی ہوئی ہے۔ شرم کا مقام یہ ہے کہ لوگوں کو شدید گرمی میں سر پر کوئی چیز تو دور کی بات پوری پوری فیملی کیساتھ بلاوجہ ذلیل کیا جاتا ہے۔ تفتان کی گرمی میں صوفی اور اس کے لونڈے کے سر پر تو سایہ، ٹھنڈا پانی وغیرہ سب ہوتا ہے، لیکن عوام دھوپ میں جھلستے رہتے ہیں۔ امیگریشن عملے کی طرف سے ایسے بے تکے سوال کئے جاتے ہیں، جو دنیا کے ہر عقل مند آدمی کو ہنسانے کیلئے کافی ہیں۔ ہمارا سوال ہے کہ کیا سکیورٹی اداروں اور امیگریشن کو اس بات کا علم نہیں؟ اگر علم نہیں ہے تو یہ انتہائی نا اہلی ہے اور اگر علم ہے تو یہ انتہائی ظلم اور زیادتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ملک میں جس طرح کالعدم دہشت گرد تنظیموں اور شر پسندوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے اس سے حالات میں بہتری ممکن نہیں،علامہ مقصود ڈومکی
صوفی ٹائپ لوگ سکیورٹی اداروں میں کیسے بھرتی ہو جاتے ہیں؟ بارڈر کراس کرنے والے عام پاکستانی ہوتے ہیں۔ انہیں ہراساں کرنا بھی کھلم کھلا دہشت گردی ہے۔ لوگوں کی چیخیں نکل رہی ہیں، لیکن کوئی ادارہ نوٹس نہیں لے رہا۔یہ ضروری ہے کہ اہلکاروں کی نقل و حرکت کو مانیٹر کرنے کیلئے کیمرے لگے ہونے چاہیئے اور ایسے ٹیلی فون نمبر در و دیوار پر لکھے ہونے چاہیئے، جن پر رابطہ کرکے عوام اپنی شکایات درج کرائیں۔ ویسے تو پورے ملک کا کوئی پرسان حال نہیں، تاہم ملکی سرحدوں کی یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔