اہم ترین خبریںمقالہ جات

امریکا عمران خان نہیں بلکہ پاکستان کیخلاف ہے!!

پتہ نہیں اپوزیشن کو اتنی جلدی کیوں ہے، جبکہ عمران خان الیکشن کا میدان پیش کرکے اپوزیشن کو دعوت دے چکا ہے کہ اب اپنا زور اس میدان میں آزمائیں اور فیصلہ عوام کریں گے کہ اقتدار میں کون ہوگا۔؟

شیعیت نیوز: پاکستان میں اس وقت سیاسی بحران اپنے جوبن پر ہے۔ تحریکِ عدم اعتماد پر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ اور اسمبلیاں تڑوا کر کپتان اپوزیشن اور امریکہ دونوں کو سرپرائز دے چکا ہے۔ اپوزیشن اس سرپرائز پر اپنا سا منہ لے کر رہ گئی ہے اور پریشان ہے کہ کپتان نے یہ پتہ کیسے کھیل لیا؟ جبکہ گھاگھ سیاستدان تو اپوزیشن میں ہیں اور خان کو سیاست میں آئے جمعہ جمعہ چار دن ہوئے ہیں، مگر حیران کن بات ہے کہ عمران خان نے بڑے بڑے طرم خانوں کو مات دیدی۔ جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا، وہی تاریخ پنجاب اسمبلی میں دوہرائی گئی۔ اب پنجاب اسمبلی کا اجلاس سولہ اپریل کو ہوگا، جبکہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد جس طرح اپوزیشن جماعتوں نے سردار ایاز صادق کی سپیکری میں اپنا خود ساختہ اجلاس کھیل لیا، اسی طرح پنجاب میں بھی اسمبلی کے دروازے بند ہونے پر حمزہ شہباز نے یہ اجلاس ہوٹل میں ہی کر لیا اور ارکان سے ووٹ لیکر خود ساختہ وزیراعلیٰ پنجاب بن بیٹھے۔

پتہ نہیں اپوزیشن کو اتنی جلدی کیوں ہے، جبکہ عمران خان الیکشن کا میدان پیش کرکے اپوزیشن کو دعوت دے چکا ہے کہ اب اپنا زور اس میدان میں آزمائیں اور فیصلہ عوام کریں گے کہ اقتدار میں کون ہوگا۔؟ عمران خان حالیہ سیاسی بحران کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دیتا ہے۔ امریکہ کی سازش کا بھی اپنا سٹائل ہے، موقع پر کوئی ثبوت نہیں چھوڑتا، مگر بیس تیس سال بھی خود اپنے منہ سے اعتراف کر لیتا ہے کہ ہم نے ہی طالبان بنائے تھے، ہم نے ہی ایران میں حکومت تبدیل کرنے کی سازش کی تھی، ہم نے ہی کیمیائی ہتھیاروں کا جھوٹا الزام لگا کر صدام کو پھانسی کے پھندے پر پہنچایا تھا، ہم نے ہی ججوں کی خدمات حاصل کرکے ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر پہنچایا تھا۔ ختم نبوت کی تحریک کے پیچھے بھی ہم ہی (امریکہ) تھے، ضیاء الحق کا طیارہ اُڑانے کا اعتراف بھی بہت جلد کر لیا جائے گا۔

زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان کیخلاف سازش امریکہ ہی کر رہا ہے۔ امریکہ کے سفارتی اہلکار اس سیاسی تحریک سے پہلے اپوزیشن رہنماوں سے ملے ہیں، ان ملاقاتوں کے بعد ہی تحریک میں تیزی آئی ہے۔ اپوزیشن رہنماوں نے اس کی تردید نہیں کی بلکہ الٹا عمران خان کی تصاویر شیئر کر دیں کہ وہ بھی امریکیوں سے ملتے رہتے ہیں۔ امریکہ نے حالیہ سازش عمران خان کیخلاف تیار نہیں کی، بلکہ یہ سازش پاکستان کیخلاف ہے۔ اس سازش کے تانے بانے سی پیک اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے ملتے ہیں۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان کا سی پیک منصوبہ کامیاب ہو اور گوادر پورٹ سے پاکستان پوری دنیا کیساتھ رابطے میں آجائے گا۔ اس ہدف کیلئے پاکستان میں بدامنی پھیلائی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: متحدہ علماء بورڈ پنجاب کے نئے ارکان کا اعلان ، ایم ڈبلیوایم سے تعلق رکھنے والے علماء بھی شامل

امریکہ نے جس طرح عراق میں صدام کی قوت توڑنے کیلئے وہاں خانہ جنگی کروائی۔ پہلے صدام کو دوست بنایا، اسی دوستی میں سارے راز اور صدام کی خوبیاں خامیاں جانی اور پھر اسی بنیاد پر صدام کو راستے سے ہٹا دیا۔ امریکہ اگر ہمارا دوست بنتا ہے تو اسی لئے کہ وہ ہمارے قریب رہ کر ہماری خوبیاں اور خامیان جان سکے اور پھر انہی کی بنیاد پر اسے شکار کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ حکمران پھر امریکہ کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیں۔ جس طرح ہمارے اپوزیشن لیڈر بلیک میل ہو رہے ہیں۔ عمران خان پہلے دن سے ہی امریکہ کا مخالف رہا ہے اور آج جب اقتدار میں آکر وہ روسی بلاک کی جانب جا رہا ہے تو امریکہ کی طرف سے سازشیں عروج پر پہنچ گئی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ امریکہ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ ہماری حکومت تبدیل کرے، یا امریکہ کیوں پاکستان کی حکومت تبدیل کرے گا؟ اسے کیا ضرورت ہے؟ تو ایسے لوگوں سے یہی سوال ہے کہ اوباما نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے ایران میں رجیم چینج کیلئے مہم چلائی۔ تو امریکہ کو کیا ضرورت تھی ایران میں حکومت تبدیل کروانے کی؟ امریکہ اس لئے وہاں حکومت تبدیل کروانا چاہتا تھا کہ ایرانی حکمران امریکہ کو گھاس نہیں ڈال رہے تھے۔ امریکہ کو دوست نہیں بنا رہے تھے۔ ایرانیوں کی یہی ادا امریکہ کو بُری لگی۔ امریکہ کو دکھ ہوا کہ ایران معاشی و دفاعی طور پر ترقی کی جانب گامزن ہے۔ اس لئے امریکہ نے ایران پر اقتصادی پابندیاں لگا دیں۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان بھی اسی طرز کے راستے پر گامزن ہیں۔ امریکہ کو یہ کیسے گوارا ہے کہ ایک ایسا ملک، جو اس کی ایک ٹیلی فون کال پر لیٹ گیا تھا، وہ یوں امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے۔ عمران خان نے قوم کو یہ حوصلہ دیا۔ دو ٹوک انداز میں کہا کہ وہ خود جھکیں گے، نہ قوم کو جھکنے دیں گے۔ امریکہ کا ہدف عمران خان کو ہٹانا نہیں، بلکہ ایٹمی پروگرام لپیٹنا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک سیاسی بحران ہے، جلد حل ہو جائے گا، نواز شریف یا آصف علی زرداری اقتدار میں آجائیں گے تو سب بہتر ہو جائے گا، وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ اگر عدم اعتماد تحریک کے حوالے سے عدالت اپوزیشن کے حق میں فیصلہ دے دیتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم نے غیر ملکی سازش کو سپورٹ کیا ہے۔ ہم رجیم چینج کا حصہ بن گئے۔ اس کا نتیجہ بہت خطرناک ہوگا۔ یہ جو کہہ رہے ہیں کہ بھکاریوں کی کوئی چوائس نہیں ہوتی۔ یہ لوٹ مار کرنیوالے ہیں، یہ چین اور روس کی حمایت کھو دیں گے اور ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے رحم و کرم پر چلے جائیں گے، یہ مالیاتی ادارے کہیں گے کہ ایٹمی پروگرام رول بیک کر دو تو ہم آپ کے قرضے معاف کر دیں گے۔ یہ حکمران یہ بھی کر گزریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں حکومت گرانے کی سازش کرنے والا ڈونلڈ لو آخر ہے کون؟

یہ حکمران پھر کہیں گے ہم امن چاہتے ہیں، انڈیا کیساتھ بھی بہتر تعلقات چاہتے ہیں، عوام کو تعلیم و صحت کی سہولتیں دینا چاہتے ہیں، تو یہ امریکہ کے سامنے لیٹ جائیں گے۔ آرمی چیف بھی نہتے ہو جائیں گے اور عوام کی سپورٹ کیساتھ ہی یہ ہمارا ایٹمی پروگرام لپیٹ دیں گے۔ اس وقت آرمی عوام میں اپنی حمایت کھو دے گی۔ ہم انڈیا و امریکہ کے سامنے ذلیل ہوچکے ہوں گے۔ بلوچستان میں بھی جنگ کو تیز کر دیا جائے گا اور امریکی فورسز گوادار میں آکر بیٹھ جائیں گی۔ پاک فوج اپنی قوت کھو چکی ہوگی، جرنیلوں کی بات ان کے ماتحت بھی نہیں مانیں گے۔ کراچی میں مہاجر سندھی جنگ شروع کروا دی جائے گی۔ یہ جنگ ہمارے گھروں تک پہنچ جائے گا۔ سیریا، عراق، لیبیا میں یہی طریقہ کار اپنایا گیا۔ پاکستان کے حصے بخرے کئے جائیں گے، یہ اپوزیشن لیڈر حامد کرزئی کی طرح ملک سے فرار ہو جائیں گے اور لندن میں ان کی جائیدادیں اسی مقصد کیلئے ہیں۔ پاکستان کو ہدف بنانے کا مقصد چین کی قوت کو زائل کرنا ہے۔ اس مقصد کیلئے صرف سیاستدانوں پر سرمایہ نہیں لگایا گیا بلکہ اس ہدف کے حصول کیلئے میڈیا گروپس کو خریدا گیا ہے۔ بڑے بڑے میڈیا گروپ بھی اس حوالے سے امریکہ کے آلہ کار بنے دکھائی دے رہے ہیں۔

یہاں راقم کا مقصد یہ نہیں کہ عمران خان کو سپورٹ کر رہا ہوں، بلکہ مقصد پاکستان کا دفاع و بقاء ہے۔ اس لئے عوام کو بیداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا، پاکستان کے مستقبل کا معاملہ ہے۔ پاکستان کو پہلی بار ایسا حکمران نصیب ہوا ہے، جو امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ’’ایبسلوٹلی ناٹ‘‘ کہہ سکتا ہے۔ جو پارلیمنٹ میں امریکہ مردہ باد کا نعرہ لگوا سکتا ہے اور واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ امریکہ رجیم چینج کیلئے مداخلت کر رہا ہے۔ ہمارے بھولے عوام بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ اگر امریکہ مداخلت کر رہا ہے تو اس کے ثبوت دیں۔ امریکہ اتنا بھی بھولا نہیں کہ وہ پاکستان کیخلاف سازش بھی کرے اور ثبوت بھی دے۔ جب امریکہ پاکستان میں تحریک نظام مصطفیٰ(ص) چلا رہا تھا، تو اس وقت کسی کے پاس ثبوت تھا؟؟ جب امریکہ نے کہا بھٹو کو نشان عبرت بنا دے گا۔ اس وقت کسی نے ثبوت مانگا؟؟ نہیں، کیونکہ امریکہ نے خود پاکستان میں آکر بھٹو کو عبرت کا نشان نہیں بنانا تھا بلکہ اس نے اس مقصد کیلئے سیاستدانوں ججز کو استعمال کیا۔ آج بھی امریکہ کا طریقہ کار وہی ہے۔ سکرپٹ پرانا ہے، کردار نئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ناجائز ریاست اسرائیل سے ڈاک پارسل کی کراچی میں ترسیل پر پی ایل ایف کا اظہار مذمت اور تشویش

بھٹو کیخلاف جو حکمران اس وقت استعمال ہوئے تھے، انہی کی اولادیں آج عمران خان کیخلاف استعمال ہو رہی ہیں۔ پوری قوم اعتراف کرتی ہے کہ بھٹو دبنگ لیڈر تھا، وہ رہتا تو پاکستان ایشیئن ٹائیگر بن چکا ہوتا۔ لیکن امریکہ کو یہ قبول نہیں کہ پاکستان ترقی کرے، آج اگر ہمارے درمیان ایک اور بھٹو عمران خان کی شکل میں موجود ہے تو ہمیں آج اس کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوں گے۔ تاکہ امریکہ انہیں اپنی جارحیت کا ہدف نہ بنا سکے۔ امریکی ایجنڈے میں استعمال ہونیوالے یہ اپوزیشن رہنماوں کو ملک سے زیادہ اپنا ذاتی مفاد عزیز ہے اور یہ ہمیشہ مشکل وقت میں ملک سے فرار ہو جاتے ہیں۔ کہاں ہے جنرل مشرف جو کہتا تھا کہ میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں؟ آج پاکستان میں اس کا نام و نشان تک نہیں، وہ لندن اور دبئی میں زندگی کے باقی ماندہ دن گزار رہا ہے۔ نواز شریف بھی لندن میں موجیں کر رہا ہے۔ امریکہ نے جب ان سے کام لینا ہوتا ہے تو یہ پاکستان آجاتے ہیں۔ اس لئے عوام کا ہدف پاکستان کا دفاع ہونا چاہیئے، کیونکہ پاکستان ہے تو ہم ہیں، پاکستان ہماری پہچان ہے، ہمارا ملک ہے اور ہم نے ہی اس کا دفاع کرنا ہے۔

تحریر: تصور حسین شہزاد

متعلقہ مضامین

Back to top button