اہم ترین خبریںمقالہ جات

ایران امریکہ کشیدگی اور پاکستان

اسے دنیا کی بدقسمتی ہی گردانا جائے گا کہ اب جبکہ پوری دنیا امن و آشتی کی خواہاں ہے امریکہ، اسرائیل اور بھارت کا اتحادِ ثلاثہ جنگ کے الائو روشن کرنے کا خواہاں ہے

شیعت نیوز: وقت کبھی کسی کی دسترس میں رہا ہے نہ رہ سکتا ہے، ایسی کوئی خواہش ہی احمقانہ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایسی آرزو پالنے والے ماضی ہی نہیں، زمینی حقائق کو بھی فراموش کر دیتے ہیں۔ عہد جدید میں یہ طے پا چکا کہ ایک تو روایتی جنگوں کے زمانے لد گئے، دوسرا یہ کہ اب دنیا پر حاکمیت اس کی ہو گی جو اقتصادی طور پر مستحکم ہو گا۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے یہ حقیقت ناقابلِ فراموش ہے کہ اس کا اقتصادی استحکام ہی جنگ و جدل پر منحصر رہا، دوسری عالمی جنگ نے دنیا کے ہر ملک کو معاشی طور پر کمزور لیکن امریکہ کو مضبوط کیا کہ اس جنگ میں دنیا کے بیشتر ممالک نے امریکہ سے اسلحہ خریدا۔ مشرقِ وسطیٰ میں جاری کشیدگی میں بھی امریکہ کو یہی فائدہ حاصل ہوا اور ہو رہا ہے۔

اسے دنیا کی بدقسمتی ہی گردانا جائے گا کہ اب جبکہ پوری دنیا امن و آشتی کی خواہاں ہے امریکہ، اسرائیل اور بھارت کا اتحادِ ثلاثہ جنگ کے الائو روشن کرنے کا خواہاں ہے۔ تہران واشنگٹن کشیدگی اسی کا ایک نمونہ ہے۔ امریکہ نے حال ہی میں نہ صرف ایران پر نئی اقتصادی پابندیاں عائد کیں بلکہ ایران پر فوجی دبائو بڑھانے کے لئے اپنا طیارہ بردار بحری بیڑہ بھی مشرقِ وسطیٰ میں بھیج چکا ہے، یہ اطلاعات بھی ہیں کہ امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ میں پیڑیاٹ میزائلوں کی تنصیب کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ تنائو اس قدر زیادہ ہے کہ ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی فوجی تصادم کا قوی امکان ظاہر کیا ہے۔ کشیدگی میں مزید اضافہ دو روز قبل ہوا جب ایرانی فورسز نے امریکہ کا ایک جاسوس ڈرون آر کیو4 گلوبل ہاک کو آبنائے ہرمز کے نزدیک میزائل مار کر گرا دیا۔ جاسوس ڈرون کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ویڈیو بھی ایران نے جاری کر دی، امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ افغان جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں کچھ نیا نہیں کرنا چاہتے۔

یہ خبربھی لازمی پڑھیں:ایران امریکہ دشمنی کا انجام

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا بیان آیا کہ ایرانی جارحیت کا راستہ روکنے کے لئے امریکہ کا ساتھ دیں۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا بیان ان حالات میں انتہائی اہمیت کا حامل اور مبنی بر حقائق ہے کہ ایران کے خلاف طاقت کا استعمال تباہ کن ہو گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران سے امریکہ کو براہ راست کوئی خطرہ نہیں البتہ مشرق وسطیٰ کے پہلو میں ابھرنے والے ناسور اسرائیل کو ایران سے اندیشے لاحق ہیں بالکل ویسے اندیشے جو کبھی عراق کے حوالے سے دامن گیر تھے اور اس نے عراق کی تنصیبات تباہ کر دی تھیں، دراصل امریکہ کا یہ بغل بچہ خطے میں کسی بھی قوت کو اپنے لئے خطرہ خیال کرتا ہے حالانکہ اسے خود امریکہ نے نہ صرف ایٹمی قوت بنایا بلکہ اس کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا وسیع ذخیرہ بھی موجود ہے، اس کے باوجود امریکی صدر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا چلن اختیار کرنا چاہتے ہیں تو ان کی یہ ہٹ دھرمی دنیا کو کسی آفت کے حوالے کرنے کے مترادف ہو گی۔

رہی پاکستان کی بات تو اس کے لئے بہترین راہ عمل خود کو اس معاملے سے دور رکھنا ہے کہ ہم پہلے ہی دو افغان جنگوں اور دہشت گردی کےخلاف ہولناک جنگ کے باعث بہت زخم کھا چکے لہٰذا اس معاملے میں ہمیں متوازن رویہ اختیار کرنا چاہئے تاکہ کسی کی بھی حمایت کا لیبل ہم پر نہ لگایا جا سکے۔ ہمیں اس تنازع کا گفت و شنید کے ذریعے حل نکالنے کے لئے نہ صرف او آئی سی بلکہ اقوام متحدہ کو بھی متحرک کرنے کی کوشش کر کے اپنے امن پسند ہونے کا ثبوت دینا چاہئے۔ دنیا کو کسی نئی جنگ سے بچانا عالمی برادری کا فریضہ ہے اس لئے کہ اب اگر امریکہ کوئی مہم جوئی کرتا ہے تو اس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔

یہ خبربھی لازمی پڑھیں:امریکہ ایران کے حقائق سے ناواقف

امریکی قیادت ہوش کے ناخن لے اور سوچے کہ انسانیت اور جمہوریت کے نام پر اس نے عراق، افغانستان میں کتنے بے گناہ انسان قتل کئے اور افغانستان میں خود اس کی افواج کن مشکلات کا شکار ہیں؟ خود مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو بھی سوچنا ہو گا کہ آخر کب تک وہ باہمی اختلافات پر دوسروں کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہیں گے؟ جنگ سے احتراز بقائے انسانیت کا اولین تقاضا ہے کہ اس کے نتائج نسلیں بھگتتی ہیں۔ اختلافات کے حل کا واحد مہذب اور پائیدار ذریعہ مذاکرات ہیں، عالمی برادری دونوں ملکوں کو اس راہ پر لائے۔

متعلقہ مضامین

Back to top button