عراق

چہلم کا اجتماع بین الاقوامی نظام میں طاقت کا ایک مظہر ہے،سیاسی تجزیہ نگار

عراقی مسائل کے ایک ماہر” سیامک کاکائی” نے اربعین حسینی کے پروگرام کے مختلف پہلووں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایک فارسی پورٹل” ایلنا” کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کھل کر بتایا :چہلم کے دن کی عظیم الشان پیادہ روی عالم اسلام کا ایک سب سے بڑا دینی اور مذہبی اجتماع ہے لیکن اس عظیم اجتماع کے اثرات مذہبی اور دینی پہلو کے حامل ہونے کے ساتھ ہی سیاسی پہلو کے بھی حامل ہیں ۔گذشتہ سال یہ پیادہ روی بطور متفاوت اور رسمی طور پر منعقد ہوئی ،اور اس سال بھی ہم نے دیکھا کہ دنیا کے مختلف ملکوں خاص کر ایران کےاور عراق کے جنوبی شہروں کے رہنے والے لوگ لاکھوں کی تعداد میں کربلا کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔

انہوں نے چہلم کی پیادہ روی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ؛اس پیادہ روی کی کئی خصوصیات ہیں :

پہلی یہ کہ لوگوں کا یہ بڑا اجتماع ایک مذہبی اجتماع ہے کہ جس کا مذہبی مراسم اور اعمال کے درمیان ایک نیا وجود ہے ۔

دوسری یہ کہ اس پیادہ روی کو انجام دینے کے لیے عراق میں اور نجف سے کربلاء تک کے راستے میں مضبوط حفاظتی انتظامات کیے جائیں چنانچہ ایران اور عراق کی حکومتوں نے اس چیز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بڑے پیمانے پر کوششیں کیں ۔

تیسری یہ کہ چہلم کے کروڑوں انسانوں کے اجتماع کا پیغام یہ ہے کہ موجودہ حالات میں کہ جب علاقے کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کی بڑی مصیبت کا سامنا ہے یہ پیادہ روی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کی تیاری کا مظاہرہ ہے اور امام حسین علیہ السلام کی یاد منانا اس کی پہچان ہے ۔

اس پیادہ روی کی ایک عظیم پہچان یہ ہے کہ بغیر شک کے مستقبل قریب میں یہ عظیم کارنامہ عالمی پیمانے پر ایک بڑے دینی کارنامے میں تبدیل ہو جائے گا اور دوسرے ادیان بھی اس کو اپنے لیے نمونہء عمل بنائیں گے اور یہ ایک عظیم آئینی اور سیاسی مظاہرہ شمار ہو گا ۔

مشرق وسطی کے مسائل کے اس تجزیہ نگار نے چہلم کی پیادہ روی کے علاقائی اور بین الاقوامی تبدیلیوں پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں تصریح کی : اس عظیم اجتماع کے منعقد کرنے کے لیے کہ جس میں کروڑوں لوگ شریک ہوں سیکیوریٹی کے بھاری اور کڑے انتظامات کی ضرورت تھی کہ جواس سال بڑے پیمانے پر کیے گئے ۔علاقائی سطح پر جو چیز اہمیت کی حامل تھی وہ مسلمانوں کی آئیڈیالوجی کا ایک دوسرے سے جڑنا تھا اور دوسری طرف اس نے علاقائی انتہا پسندی کے نظریے کو مکمل طور پر توڑ دیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی اس چیز کے پیش نظر کہ طاقت کی علامت ہمیشہ انسانوں کی اجتماعی طاقت ہوتی ہے کہ جو قوموں کی سطح سے اوپر اٹھ کر تشکیل پائی ہو اور اس کا ایک خاص مقصد بھی ہو ۔ اس تعریف کے پیش نظر چہلم کی اس پیادہ روی کو بین الاقوامی سطح پر طاقت کی علامت قرار دیا جا سکتا ہے ۔

انہوں نے مزید کہا ؛ مجموعی طور پر عراق میں امن کی صورت حال کا تعلق داعش کی نقل و حرکت کے جاری رہنے سے ہے کہ جو علاقے کے مجموعی حالات کے تابع ہے۔گذشتہ دو ماہ میں عراق میں مقابلے کا میدان اور عراق میں میدانی تبدیلیاں اور اس کے بعد شام میں یہ صورت حال بالکل بدل گئی ہیں ۔داعش کے خلاف جنگ میں اضافہ ہوا ہے کہ جس نے داعش کی تاکتیک اور حکمت عملی پر بھی اثر ڈالا ہے ،چنانچہ سنجار جیسے علاقے مختلف کاروائیاں انجام دینے کے بعد آزاد کروا لیے گئے اور یہ چیز اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ داعش کے خلاف جدید کاروائیاں انجام دینے کی تیاری کی جا رہی ہے ۔اس بنا پر داعش کی حالت میں گراوٹ پیدا ہوئی ،اب یہ امکان تھا کہ وہ اس کا رد عمل دکھائیں گے اور انہوں نے کچھ خود کش حملے اور کچھ بمب نصب کر کے اپنا رد عمل دکھانے کی کوشش کی تھی مگر اس کو ناکام بنا دیا گیا ۔

کا کائی نے آخر میں کہا : چہلم کے عظیم اجتماع کی سیکیوریٹی کے انتظامات کے بارے میں یہ بتا دیں کہ کچھ انتہائی ضروری اور اہمیت کی حامل تدبیریں اختیار کی گئیں اور یہ کام ایران اور عراق کے دو طرفہ تعاون سے امکان پذیر ہوا۔یہ تشویش ہر وقت پائی جاتی تھی کہ راستے میں بھی اور کاروانوں کے قیام کے مقامات پر دونوں جگہ امن میں خلل ڈالنے کی کوششوں کا پتہ لگایا جائے اور ان مقامات پر کڑے حفاظتی اقدامات کیے جائیں جس کے لیے عوامی رضاکاروں ، فوجیوں اور عراق کی اطلاعاتی ایجینسیوں کی سخت ہوشیاری کی ضرورت تھی چنانچہ یہ کام پوری ہوشیاری کے ساتھ انجام دیا گیا اور سب نے دیکھا کہ کوئی بھی نا خوشگوار واقعہ رو نما نہیں ہوا ۔

 

متعلقہ مضامین

Back to top button